شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ



مفتی احمد یار نعیمی

اس لیے سیدالشہداءہیں کہ از آدم تا ایں دم کسی نے ان کی سی مصیبتیں نہ اُٹھائیں۔ کربلا کے میدان میں وہ غازی بھی تھے، پردیسی مسافر بھی اور مہاجر بھی، تین دن کے متواتر روزہ دار بھی۔ بچوں اور گھر بار کو راہِ الٰہی میں لٹانے والے بھی اور انوکھے نمازی بھی کہ عین نماز میں شہید ہوئے چونکہ حضور علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ جوانان جنت کے سردار ہیں، اور چاہیے یہ کہ سردار میں سارے ماتحتوں سے زیادہ کمال ہوں۔ اس سے پہلے بظاہر حضرت امام حسینؓ مہاجر نہ تھے، نہ مجاہد، نہ غازی۔ اگر اسی حالت میں ان کے سر پر سرداری کا عمامہ باندھ دیا جاتا تو ممکن تھا کہ کوئی جنتی سمجھتا کہ ہمارے سردار میں فلاں فلاں کمال نہیں۔ مرضی الٰہی تھی کہ ایک کربلا میں یہ ساری منازل طے کرا دی جائیں۔ آپؓ کا ہر وصف نرالا ہے۔ نہ آپؓ جیسا کوئی نمازی گزرا، نہ روزہ دار، نہ غازی اور نہ ایسا جلوس کسی کا نکلا۔ سب لوگ نماز کے لیے وضو کریں یا تیمم، مگر آپؓ کی آخری نماز وہ تھی جس کے لیے وضو تھا نہ تیمم۔ جب پانی پینے ہی کو نہ تھا تو وضو کیسے کرتے اور رہا تیمم تو تیمم ہاتھ سے ہوتا ہے، منہ اور کلائی پر ہوتا ہے اور خشک مٹی سے ہوتا ہے، مگر وہاں زخموں سے نہ چہرہ محفوظ تھا نہ کلائی اور جب ریت پر ہاتھ مارا تو وہ خون سے کیچڑ بن گیا۔ اب بتاؤتیمم کیسے کرتے؟


نہ مسجد میں، نہ بیت اللہ کی دیواروں کے سایہ میں
نمازِ عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سایہ میں

غرض یہ کہ یہ انوکھی نماز وضو اور تیمم سے بے نیازتھی۔ روزہ ایسا انوکھا رکھا جو عالم میں بے مثال ہے۔ سب کے لیے وقت افطار غروب آفتاب ہے، انؓ کا وقت افطار دوپہر۔ سب غذا یا پانی سے روزہ کھولیں، مگر حضرت امام حسینؓ نے اپنے خون سے روزہ کھولا۔ نیزاوروں کی بیویاں، بیوہ ہو کر عدت کے چار ماہ دس دن ایک جگہ بیٹھ کر گزاریں، مگر حضرت امام حسینؓ کی بیوی، علی اصغر کی والدہ، علی المرتضیٰؓ کی بہو بلکہ یوں کہو کہ محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دولت خانہ کا اُجالا اور سارے مسلمانوں کی آبرو، یہ جب بیوہ ہوں تو بہ شکل جلوس کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے دمشق گرفتار ہو کر پہنچائی جاویں۔ جیسا جلوس حضرت امام حسینؓ کا بعد شہادت نکلا، ایسا کسی کا نہ نکلا ہوگا۔ آسمان و زمین نے کبھی یہ نظارہ نہ دیکھا ہوگا کہ بھائی کا سر نیزہ پر آگے آگے ہو، اور قیدی بہنیں پیچھے پیچھے اونٹوں پر سوار۔


کہ سر بھائی کا ہو نیزہ پہ اور اونٹوں پہ ہوں بہنیں
جہاں میں مبتلا ذی قدر کمتر ایسے ہوتے ہیں

مرنے والے بوقت موت اپنے بال بچوں کے لیے وصیتیں کرتے ہیں، لیکن حضرت امام حسینؓ ایسے انوکھے دنیا سے جا رہے تھے کہ 72 زخم کھا کر گھوڑے سے نیچے آئے۔ تو اپنے قاتل سفاک شمر سے دو رکعت نمازِ قصر کی مہلت مانگی۔ قسم رب کی! ہماری لاکھوں نمازیں انؓ کے اس ایک سجدہ پر قربان ہوجائیں!


اس دوگانہ پہ فدا ساری نمازیں جس میں
دھار حلقوم پہ‘ سر خم ہو عبادت کے لیے

اور کیوں نہ ہوتا وہ چمن مصطفی کے مالی، امت کے والی، دین کے رکھوالی تھے۔ مصیبت و آرام میں دین کی طرف رجوع فرماتے تھے۔


پھنسی جو دام میں بلبل تو یوں لگی کہنے
کرے گا قتل کیا تو نے جب اسیر مجھے
کباب شمع کے شعلہ پہ کیجیو صیاد
کہ شکل گل نظر آئے دم اخیر مجھے

حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے بوقت ذبحہ باپ کو وصیت کی تھی کہ میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیجیے تاکہ ذبحہ کے وقت نہ تڑپوں، کیونکہ جانکنی کی تڑپ سب کو ہوتی ہے، مگر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات بھی ایسی انوکھی کہ ذبحہ کے وقت نہ تڑپے نہ جنبش کی۔


تہ خنجر بھی نہ تڑپا پسر شیر خدا!
یہ تکلف تو فقط فاطمہؓ کے شیر میں ہے

بعد شہادت جب نیزہ پر سر رکھا گیا تو آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور زمین پر نظر تھی۔ کسی نے اس کا کیا عجیب نکتہ بیان کیا ہے۔


با آنکہ سر ہے نیزہ پہ سوئے زمین ہے رو
یعنی ہے ان کو سجدۂ ثانی کی آرزو

رکعت اول کا ایک ہی سجدہ تو کر پائے تھے کہ قاتل نے شہید کیا۔ یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیدالشہداءہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شہداءکی شہادتیں انھی کے دامن پاک سے لپٹ کر بارگاہ الٰہی میں پہنچتی ہیں۔ غرض یہ کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سارا گھرانہ ہی پاک اور ستھرا ہے۔ میں کیا اور میری حقیقت کیا، جو انؓ کی صفات کا کرشمہ بیان کرسکوں۔ بہت جلدی میں یہ چند اوراق لکھ دیے۔ رب تعالیٰ انھیں قبول فرما کر میرے گناہوں کا کفارہ اور صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

کوئی تبصرے نہیں