پاک فوج کے شہداء کو سلام

گزشتہ دنوں پاکستان پنجاب، کے۔پی۔کے اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں مون سون کی بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں سے نشیبی علاقوں میں شدید تباہی ہوئی خصوصاً بلوچستان سیلابی ریلوں سے شدید متاثر ہوا، درجنوں افراد اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، درجنوں سیلابی ریلوں میں پھنس گئے۔ متاثرین کی امداد کے لیے جہاں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این۔ ڈی۔ ایم۔ اے) نے ریسکیو آپریشن شروع کیا وہیں پاک فوج کی امدادی ٹیموں نے بھی ریسکیو آپریشن اور امدادی کارروائیوں میں ہیلی کاپٹرز، موٹر بوٹس سمیت بھاری مشینری کے ساتھ بھرپور حصہ لیا۔ پاک فوج کی جانب سے متاثرین کی امداد کے لیے دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کور 12 کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی خود بنفس نفیس گراؤنڈ لیول پر گہرے پانی میں، گھرے علاقے میں جا کر ان امدادی کارروائیوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہے اور کارروائیوں میں بہتری کے لیے ٹیموں کو ہدایات جاری کرتے رہے۔ جنرل سرفراز علی یکم اگست کا دن سیلاب زدہ علاقے میں متاثرین اور امدادی ٹیموں کے ساتھ گزار کر اپنے ساتھی ڈی۔جی پاکستان کوسٹ گارڈ برگیڈیئر امجد حنیف ستی 12 کور کے انجینئر برگیڈیئر محمد خالد کے ہمراہ شام کے وقت کراچی روانگی کے لیے پاک فوج کے ہیلی کاپٹر پر 2 پائلٹس اور 1 کریو چیف کے ہمراہ روانہ ہوئے، ہیلی کاپٹر کے اڑان بھرنے کے تھوڑی دیر بعد ہی پاک فوج کے ہیلی کاپٹر اور اس میں سوار 6 اعلیٰ افسران کے گم ہونے کی اطلاعات الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں اور ہر محب وطن پاکستانی کی جانب سے گمشدہ ہیلی کاپٹر اور پاک فوج کے سوار افسران کی بحفاظت واپسی کی دعائیں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔ وزیر اعظم پاکستان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسی ہی نیک دعاؤں کا اظہار کیا جانے لگا، لیکن ان دعاؤں کے پیغامات کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر شر انگیز، شیطانی، ذہنیت بے حس گمراہ لوگوں کی پوسٹس اور پیغامات بھی راقم کی نظر سے گزریں جنھیں یہاں تحریر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی پوسٹس اور میسجز پاک فوج کے گمشدہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت دیگر افسران جو اس حادثے میں شہید ہو گئے ان کی قربانی کی توہین اور شہدا کے لواحقین کی دل آزاری کا سبب بنے جس پر ہر محب وطن پاکستانی خصوصاً شہدا کے اہل خانہ شدید اضطراب کا شکار تھے اور سوشل میڈیا پر ایسے گمراہ کن شر انگیز پروپیگنڈا کرنے والے بے حس، بے ضمیر عناصر کے خلاف بھرپور مذمتی آواز بلند کی جارہی تھی۔

اسی دوران پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا انتہائی اہم بیان سامنے آیا کہ لسبیلہ میں ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر چند لوگوں نے غلط قسم کا پروپیگنڈا کیا، تضحیک آمیز اور غیر حساس تبصرے شروع کر دیے جو انتہائی تکلیف دہ ہے۔ بے حسی کا رویہ ناقابل قبول ہے اور ہر سطح پر اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ یکم اگست کو ہونے والا حادثہ بہت افسوس ناک تھا جس میں 12 کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت دیگر افسران شہید ہوگئے تھے، جس جگہ پر یہ حادثہ پیش آیا وہاں پانی بہت زیادہ تھا حب ڈیم کے پاس غیر متوقع خراب موسم کی وجہ سے یہ افسوس ناک حادثہ ہوا اور ماؤنٹین ڈرین میں ہیلی کاپٹر کریش ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے جتنی بھی تحقیقات ہوئی ہیں یہی چیزیں سامنے آئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی پریڈ کی تاریخ و اہمیت

افغانستان میں القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ نے اس حوالے سے مکمل طور پر وضاحت کر دی ہے کہ اس میں دوسری کوئی شک والی بات نہیں ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کی سرزمین اس قسم کی کارروائی کے لیے استعمال ہوئی ہو۔

دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی ہیلی کاپٹر سانحہ کو لے کر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کی مذمت کی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف۔ آئی۔ اے) نے بلوچستان میں ہیلی کاپٹر حادثے اور شہدا کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا اور تحقیقات کے لیے ایف۔ آئی۔ اے سائبر کرائم ونگ کے ایڈیشنل ڈی۔ جی محمد جعفر کی سربراہی میں 4 افسران پر مشتمل چار رکنی جے۔آئی۔ ٹی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ڈائریکٹر آپریشن سائبر کرائم ونگ نارتھ وقار الدین سید، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایاز اور عمران حیدر بھی تفتیشی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال، ذہن سازی اور حالات پر اثر انگیزی کے باعث فائر پاور اور سائبر مستقبل کی جنگ کی اہم بنیاد اور ٹول کے طور پر ابھرے ہیں۔ سوشل میڈیا پر چند ماہ قبل اور اب بلوچستان ہیلی کاپٹر حادثے کو لے کر ایک بار پھر اہم ریاستی اداروں کے خلاف زہریلا اور جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا اور بدقسمتی سے اس میں ہمارے نادان لوگ بھی جانے انجانے اس کا حصہ بنے۔ آزادی اظہار رائے یا سیاسی و نظریاتی اختلاف و مفادات کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ وہ تمام حدود پھلانگ دی جائیں جو ملکی سلامتی اور قومی مفاد میں مقرر کی گئی ہیں۔ متعلقہ اداروں کی اس حوالے سے کارروائیوں کی شروعات اپنی جگہ لیکن ذمہ دار پاکستانی کے طور پر ہمیں خود بھی صورتحال کی سنجیدگی کا اندازہ کرنا چاہیے اور اپنے اطراف میں موجود لوگوں کو بھی باخبر کرنا چاہیے تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی جانے یا انجانے میں قومی مفاد کے خلاف کام کر رہا ہو۔

اس معاملے میں والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور سیاسی قیادت بھی اپنے کارکنوں کی تربیت کرے تاکہ ہماری سلامتی ملکی مفادات محفوظ اور ہمارے دشمن نامراد رہیں۔

کوئی تبصرے نہیں