فوجی پریڈ کی تاریخ و اہمیت

عام طور پر فوجی پریڈ کا انعقاد اکثر غیر جمہوری یا آمرانہ حکومتوں سے نتھی کیا جاتا ہے لیکن فرانس اور برطانیہ جیسی جمہوری اقوام بھی ان کا خصوصی اہتمام کرتی ہیں اور امریکی فوج جو 4 جولائی یا جنگ میں فتح جیسے مواقع کا جشن نہیں مناتیں امریکہ میں ایسی پریڈز شاذ و نادر ہی منعقد ہوئی ہیں، صدر ہیری ٹرومین اور جان ایف کنیڈی کی حلف برداری کے دن ہونے والی پریڈز میں فوجی ساز و سامان اور دستے شامل تھے، ہر سال 4 جولائی کو ہونے والی پریڈ کے علاوہ آخری بار امریکی دارالحکومت میں ایسی بڑی پریڈ 1991 میں مشرق وسطیٰ میں عراقی فوج کے خلاف جنگ خلیج میں امریکی فتح کے بعد منعقد ہوئی تھی۔ برطانیہ اور فرانس جہاں بڑی فوجی پریڈز ایک روایت ہیں سے موازانہ کریں تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بہت ہی مختلف قسم کی سیاسی اور فوجی روایات کا انبار ہے۔ دورِ جدید کے فرانس اور برطانیہ دونوں نے اپنے شاہانہ ماضی سے سیاسی اور فوجی روایات ورثہ میں پائی ہیں، فرانس میں بیٹل ڈے پریڈ ہر سال 14 جولائی کو ہوتی ہے ’بیٹل ڈے‘ فرانس میں ایک قدیم مشہور میلہ یا جشن ہوتا تھا جسے نپولین نے فوجی رنگ دیا اس وقت سے فرانس میں ہر سال اس دن ایک بڑی فوجی پریڈ ہوتی ہے جس میں فرانس کے صدر شرکت کرتے ہیں۔ برطانیہ ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں فوجی پریڈ کے انعقاد کی ایک دیرینہ مستحکم روایت چلی آ رہی ہے۔ برطانیہ کئی وجوہات کی بنا پر فوجی پریڈ کا اہتمام کرتا ہے۔ ان میں ملکہ برطانیہ یعنی کوئن ایلزبتھ کی سالگرہ جیسے شاہی تہوار، فوجیوں کی گھروں کو واپسی، سرکاری جانچ یا معائنہ (انسپیکشن) کی تقاریب وغیرہ شامل ہیں۔ مثال کے طور پر سوویت روس اکتوبر 1917 کے انقلاب کی یاد میں پریڈ کا انعقاد کرتا تھا جبکہ چین اب بھی یکم اکتوبر کو اپنے یوم جمہوریہ کی خوشی مناتا ہے جس روز بیجنگ میں بڑی فوجی پریڈ منعقد ہوتی ہے۔ چین شاید سب سے زیادہ رنگا رنگ اور مہنگی فوجی پریڈ کرنے والا دنیا کا واحد ملک ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2015 میں ہونے والی پریڈ میں 12 ہزار فوجی دستوں، 129 طیاروں اور 500 سے زائد ٹینکس نے شرکت کی تھی۔ شمالی کوریا ایک اور مطلق العنان حکومت ہے جہاں فوجی پریڈز کی مضبوط روایت موجود ہے، ان میں سے ایک فوجی پریڈ رواں سال جنوری میں منعقد ہوئی تھی جس میں شمالی کوریا کی فوج نے سمندر سے داغے جانے والے بیلسٹک میزائل کے ڈیزائن ماڈل کی نمائش کی جس کے بعد ممکنہ طور پر اس کے ہتھیاروں کی فہرست میں ایک اور اضافہ ہو گیا۔

ایشیا میں ایسے جمہوری ممالک بھی ہیں جن کے دارالحکومت میں بڑی فوجی پریڈز منعقد ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا کے یوم جمہوریہ پر ہر سال 26 جنوری کو نئی دہلی کے راج پتھ کے مقام پر فوجی پریڈ کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ انڈیا کی یوم جمہوریہ کی مرکزی تقریب کا درجہ رکھتی ہے اور تین روز تک جاری رہتی ہے۔ پہلی بار یہ پریڈ 1950 میں ہوئی تھی اور اس وقت سے ہر سال منعقد ہوتی ہے۔ پاکستان بھی دنیا اور خطے کی بڑی طاقتوں کی طرح قومی دن پر پریڈ کا انعقاد کرتا ہے۔ پاکستانی فوج نے قیام پاکستان سے ہی ”پاکستان ڈے پریڈ“ کے انعقاد کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور کے مینار پاکستان پر منظور ہونے والی تاریخی قرارداد پاکستان کی یاد منانے کے علاوہ اس دن پاکستان کی مسلح افواج اپنی جنگی قوت اور طاقت کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ ماضی میں پاکستانی فوج اس پریڈ میں مقامی طور پر تیار ہونے والے اپنے اسلحہ اور ہتھیاروں کی نمائش کرتی آئی ہے جن میں الخالد ٹینک اور شاہین و غوری جیسے بیلسٹک میزائل شامل ہیں۔ پاکستانی فوج فخر سے بیان کرتی ہے کہ 23 مارچ کو پریڈ میں اپنے جنگی ہتھیاروں کی نمائش کرنا ایک روایت بن چکی ہے۔ سن 2019 میں ہونے والی پریڈ کی کوریج دکھاتے ہوئے مسلح افواج کے سرکاری مجلے ہفت روزہ حلال میں فخریہ طور پر بتایا گیا کہ ”مشینی دستوں کی قیادت مقامی طورپر تیار کردہ ”الخالد“ ، ”الضرار“ اور ”ٹی۔80 یو ڈی“ ٹینکس نے کی جبکہ ان کے پیچھے دیگر مشینی دستے قطار باندھے رواں دواں تھے۔ آرٹلری (توپ خانہ) دستوں میں 155 ایم ایم دھانے کی خودکار درمیانے درجے کی ہووٹزرز (ایم۔109 اے 2)، آٹھ انچ دھانے کی خود کار بھاری بندوقیں (ایم۔110)، ملٹی بیرل راکٹ لانچرز اور ملٹی لانچ راکٹ سسٹم بھی شامل تھے۔ آرمی ایئر ڈیفنس (بری فوج کا شعبہ ہوا بازی) کے دستوں میں اوائیرلیکون گنز، جراف (زرافہ) ریڈارز، ایف ایم 90 میزائل، سکائی گارڈ (فضائی تحفظ کے) ریڈار اور (اے پی سی پر نصب) آر بی ایس۔70 میزائل شامل تھے۔ آرمی انجینئرز کا دستہ بھی پریڈ کا حصہ تھا، 314 اسالٹ انجینئرز بٹالین کا سازوسامان آرمڈ وہیکل لانچڈ برج (فولادی پُل بچھانے والی گاڑی)، ٹرول اینٹی مائن (بارودی سرنگیں ناکارہ بنانے)، راکٹ ڈیلیوری مائن سسٹم، اسالٹ ٹریک وے، ربن برج، اے۔ایم۔50 برج، اور فیلڈ ٹریکس پر مشتمل تھا۔ پاکستان آرمی کی ٹیکٹیکل کمیونیکیشن اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن کی گاڑیاں اور الیکٹرانک وار فیئر کا سامان بھی اس دستے کا حصہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مادر علمی یا مقتل

میگزین میں مزید بتایا گیا کہ ”اسٹرٹیجک پلانز ڈویژن کے دستے میں بہت دلچسپی لی گئی، اس دستے کا حصہ بننے والے مقامی طور پر تیار کردہ ہتھیاروں کے نظام میں شاہین اول، شاہین سوئم اور نصر میزائل جبکہ اَن۔مینڈ ایریل وہیکلز (ڈرون) براق اور شاہپر شامل تھے۔ پریڈ کا مقصد سر فہرست ہمارے اپنے عوام ہوتے ہیں جنھیں پاکستانی فوج یہ بتانا چاہتی ہے کہ ملک کا دفاع محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ اس پہلو کو تیاری کے مظاہرے، موجود ہتھیاروں اور اعلیٰ جذبے کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر وہ دشمن ہوتا ہے جسے ہم اپنے مقامی طور پر تیار کردہ اسلحہ کے نظام، میزائل اور دیگر ہتھیاروں کے مظاہرے سے آگاہ کرتے ہیں کہ ہم کسی بھی قسم کی جارحیت سے نمٹنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہیں۔ بعض اوقات ہم اسلحہ سازی کے شعبے میں ہونے والی ترقی و پیش رفت کو بھی اس کے ذریعے سامنے لاتے ہیں جو عوامی سطح پر پہلے معلوم نہیں ہوتی۔ پریڈ کا تیسرا ہدف دوست ممالک ہوتے ہیں۔ ہم ان کے دستے پریڈ میں بلاتے ہیں، ہم مل کر تیار کردہ اسلحہ کی نمائش کرتے ہیں اور انھیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ پاکستانی قوم ہمارے دفاع کے لیے ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتی ہے۔ یاد رہے کہ مارچ 2008 سے مارچ 2015 کے درمیان سات سال 23 مارچ کی پریڈ منعقد نہیں ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ شہروں میں آئے روز پیش آنے والی دہشت گردی کی وارداتیں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سکیورٹی خدشات تھے۔ اس دور میں قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے دہشت گرد گروہ مسلسل دہشت گرد حملے کر رہے تھے تاہم یوم پاکستان پر مسلح افواج کی پریڈ کی قومی روایت سابق وزیر اعظم میا ں محمد نواز شریف کے دور حکومت مارچ 2015 میں پھر سے بحال ہوئی جو پانچ سال کے دوران ”یوم پاکستان پریڈ“ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ایکسپریس وے کے نام سے مشہور شاہراہ کے کنارے پر واقع شکر پڑیاں گرانڈ میں منعقد ہوتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں