ایک مشکل وقت

ہمارے ملک پاکستان پر آج کل کہرا اور اندھیرا چھایا ہوا ہے، کبھی دمکتا سورج مدھم پڑا ہے اور فضا گرد آلود ہے۔ پاکستان کی موجودہ آب و ہوا یہاں بسنے والوں کو تازگی کا احساس دلانے میں بالکل ناکام معلوم ہورہی ہے۔ اس وقت ہمارا ملک سیاسی، معاشی، نظریاتی اور اخلاقی لحاظ سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ وطنِ عزیز کے زخموں سے یہاں کے صاحبِ اقتدار سے لیکر عام آدمی تک سب واقف ہیں مگر اپنے آپ کو ان زخموں کا قصوروار ٹھہرانے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ہے۔

حالیہ دنوں پاکستان میں لگا سیاسی تماشہ ایک طرف ہماری جگ ہنسائی کا باعث ہے تو دوسری طرف ملک میں معاشی، نظریاتی اور اخلاقی مسائل کی وجوہات پیدا کررہا ہے۔ سیاست کو نظریات کی جنگ سمجھا جاتا ہے مگر جنگ کا تصور رکھنے کے باوجود اس میں گندی زبان کا استعمال معیوب گردانا جاتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ مقبول ترین سیاسی جماعت نے سیاست کے تمام قاعدے اور زاویے بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اس جماعت کے قائدین کو ایسا کرنے پر کوئی پشیمانی بھی نہیں ہے۔ لچر زبان، تہمت بازی، جملے کسنا اور اخلاق سے گرے مخالفین کے نام رکھنا، وہ چند برائیاں ہیں جن کا آغاز پاکستان میں ایک سیاسی جماعت سے ہوا اور آہستہ آہستہ ان برائیوں نے دیگر سیاسی جماعتوں، سوشل میڈیا اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہمارے معاشرے کی موجودہ تصویر عدم برداشت کی جیتی جاگتی مثال ہے، ہم دوسروں کے نظریات کا احترام کرنا بالکل بھول گئے ہیں اور ہر بات جو ہماری سوچ سے مختلف ہو اس کا بدتمیزی سے جواب دینے والی نئی عادت اپنا چکے ہیں۔

 سیاست ہمیشہ مفادات پر مبنی ہوتی ہے مگر وہ مفادات عوام کے حق میں ہونا ضروری ہیں لیکن پاکستان میں سیاست کا مطلب صرف اپنی انا کی تسکین اور طاقت کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے لئے چاہے عوام کے وہ تمام حقوق پامال ہو رہے ہوں جن کو پورا کرنا عوامی نمائندوں کا فرض ہے۔ حالیہ ملک میں آئے تباہ کن سیلاب نے، جس سے اب تک ملک کو بے پناہ نقصان پہنچ چکا ہے اور مستقبل قریب میں اس لحاظ سے کوئی تسلی بخش بہتری نظر نہیں آرہی ہے، ملکی سانحات پر بھی سیاست کرنے سے باز نہ آنے والے سیاست دانوں کا وہ روپ دکھلایا ہے جس کو دیکھ کر انکے عوام کا حقیقی درد رکھنے والے سارے جھوٹ فاش ہوگئے ہیں۔

 پاکستان کی معاشی ترقی اور دنیا میں نیک نامی اس ملک سے مخلص تمام افراد کی شدید خواہش ہے، تمام پاکستانی ملک کو بِنا کسی بیرونی لاٹھی کے سہارے اپنے پاؤں پر کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں مگر اقتدار کی ہوس میں مبتلا اشخاص اپنے فائدوں کو ہمیشہ ملکی معیشت پر ترجیح دیتے آئے ہیں اور حال میں بھی یہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ چند ماہ قبل پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی نے ملک میں جو سیاسی انتشار پیدا کیا تھا اس میں مزید اضافہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہونے والے سیاسی میوزیکل چیر نے کیا ہے۔ صوبہ بلوچستان تو ہمیشہ سے ہی حکمرانوں کی نظرِ کرم سے محروم رہا ہے جبکہ سندھو دیش پچھلے دس سالوں سے ایک مخصوص حکومت کے ہاتھوں خوار ہوتا آرہا ہے اور صوبہ خیبر پختونخوا اپنی پوری قوت کے ساتھ پچھلی حکومت کی نااہلیاں چھپانے میں مصروف ہے۔ جب ملکوں کے بیشتر حصّے اور علاقے اس طرح کے مسائل سے دوچار ہوں تو وہاں معاشی بقا ممکن نہیں ہوتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے در پر دستک دینا پڑتی ہے۔

 دنیا میں مالیاتی اداروں کا قیام غریب ممالک کی مدد کے غرض سے عمل میں آیا تھا مگر یہ مدد غیر مشروط حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ جو ملک قرض کے حصول کیلئے ان اداروں سے رجوع کرتا ہے وہ شرط کے نام پر اپنی معیشت کے حوالے سے ان کا ہر فیصلہ ماننے کا پابند ہوتا ہے۔ مالیاتی اداروں کی زنجیروں میں جکڑی معیشت کسی ملک کو بھی دیرپا فائدہ پہنچانے کی ضامن نہیں ہے، پاکستان کے معاشی بحران کی یہی اہم وجہ ہے۔ جس ملک میں سیاسی و معاشی ہم آہنگی موجود ہوتی ہے وہاں عوام میں خوشحالی پائی جاتی ہے اور جو ملک سیاسی اور معاشی سرکس کو فروغ دیتا ہے وہ انارکی کی بھٹی میں ترقی کے تمام موقعوں کو جلا کر اپنا ناقابل تلافی نقصان کر بیٹھتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں