حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیا ہے؟
پاکستان اپنی سلور جوبلی منانے سے صرف ایک سال پہلے اپنے مشرقی بازو سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ آج اس واقعے کو کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن اس سانحے کے پس پردہ حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا اور عوام کو ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ درحقیقت یہ سانحہ کیوں رونما ہوا تھا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ اس وقت کی سیاسی حکومت پر جس نے مشرقی پاکستان کے بارے میں بے اعتنائی کا رویہ اختیار کیا یا اس فوجی حکومت پر جس نے سازشی عناصر کے سدباب کے لیے بروقت اور مناسب اقدام نہ کیے اور آرمی ایکشن اس وقت شروع کیا گیا جب صورت حال انتہائی خطرناک موڑ پر پہنچ چکی تھی۔ حالات کو اس نہج تک پہنچانے کے لیے ملک دشمن قوتوں نے مل کر بنگالی عوام کے ذہنوں میں نفرت کا بیج بویا اور انھیں بغاوت پر آمادہ کیا، کسی نے حقوق کی جنگ لڑی اور کسی نے مفادات کی، کسی نے آزادی کا نعرہ لگایا تو کوئی غداری کا مرتکب ٹھہرا کوئی منظر پر رہا تو کوئی پس منظر رہ کر اپنا کردار نبھاتا رہا لیکن حمود الرحمن کمیشن رپورٹ منظر پر آنے کے بعد ہم ان حقائق کو کچھ حد تک سمجھنے کے قابل ہو گئے ہیں۔ کمیشن نے ان حقائق سے پردہ اٹھایا تھا جن کی بنا پر مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوئی اور مشرقی پاکستان میں وہ ہولناک واقعات رونما ہوئے جن کو پڑھ کر انسانی ذہن ششدر رہ جاتا ہے جو علمبرداران اسلام بلکہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک کی عوام اور مسلح افواج کے ہاتھوں رونما ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور حمودالرحمن کمیشن رپورٹ
حمود الرحمن رپورٹ کا ایک ایک صفحہ چشم کشا اور معلومات افزا ہے۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے لیے اپنے انٹرویو بیان میں جنرل امیر عبداللہ نیازی نے کہا کہ میں نے جنرل محمد یحییٰ خان سے کہا کہ مسئلے کا سیاسی حل نکالیں لیکن جب انھوں نے تجویز کو رد کر دیا تو میں نے ان سے دو ڈویژن کور فوج بھیجنے کا مطالبہ کیا لیکن شاید پاکستانی اعلیٰ حکام بھی مشرقی پاکستان سے چھٹکارا ہی چاہتے تھے۔ 13دسمبر 1971 کو میں نے آخری گولی اور آخری آدمی کا حکم دیا جو فوج کے لیے موت کا پیغام ہوتا ہے مگر تمام ساتھیوں نے خوش دلی سے اس پر لبیک کہا لیکن اس موقع پر یحییٰ خان نے کہا کہ ہتھیار ڈال دیں کیونکہ مغربی پاکستان بھی خطرے سے دوچار ہے اگر مغربی پاکستان ہی نہیں رہے گا تو مشرقی پاکستان کا کیا فائدہ لہٰذا فوج کے حاکم اعلیٰ کا حکم ماننا میرا فرض تھا انھوں نے کہا کہ پردہ نشینوں کو معلوم ہے کہ اگر اس بات کی تحقیق کی جائے تو بڑے لوگوں کے نام سامنے آئیں گے۔ اگر شفاف بنیادوں پر اس سارے معاملے کی تحقیقات ہوتیں تو بڑی بڑی شخصیات کے نام سامنے آتے، اگر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں سب کچھ درج کردیا جاتا تو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے حکومت بنانا ناممکن ہوتا۔ تیسرا یہ کہ مغربی پاکستان کی فوج تمام تر وسائل کے باوجود مشرقی پاکستان کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔
اگر حمودالرحمن کمیشن رپورٹ میں اس بات کا ذکر کر دیا جاتا تو بھٹو کو بھی حکومت نہیں ملتی۔ جنرل نیازی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان واقعات کی انکوائری کروائی جائے۔ ایکشن مکمل ہونے کے بعد جنرل یحییٰ نے اقتدار عوامی لیگ کے حوالے کیوں نہ کیا؟ دوسرا یہ کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف فوجی ایکشن کا فیصلہ کیوں کیا اور کن حالات کے تحت کیا گیا یعقوب خان، جنرل ٹکا خان اور دیگر کا اس میں کیا کردار تھا؟ اس کے علاوہ یہ کہ پاکستان نے مشرقی پاکستان کا دفاع کیوں نہ کیا جب کہ پاکستان میں فوج اور اعلیٰ قیادت موجود تھی۔
سن 2000 میں اس رپورٹ کے
کچھ حصے ہندوستانی اور پاکستانی اخبارات کو لیک کر دیے گئے، پھر سن 2011 میں باقاعدہ
اس رپورٹ کو حکومت پاکستان کی طرف سے پبلک کر دیا گیا لیکن تب بھی اس کا اہم سیاسی
و فوجی امور والا حصہ اہم فوجی راز کہہ کر شایع نہیں کیا گیا اس کو ٹاپ سیکرٹ کا نام
دے دیا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں