مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور حمودالرحمن کمیشن رپورٹ

مشرقی پاکستان کے حوالے سے نہ بھلائی جانے والی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ جس سے بدقسمتی سے عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا اور جب پڑوسی ملک نے اس کو شائع کیا اور یہ وہ رپورٹ ہے، جس میں ہم مشرقی پاکستان کو کھو چکے ہیں اور اس وقت ہماری نوجوان نسل کو حقیقی طور پر یہ معلوم نہیں کہ مشرقی پاکستان ہم سے کس طرح سے الگ ہوا یا کیا گیا۔ واقعات کے مطابق شیخ مجیب الرحمن الیکشن جیت چکے تھے لیکن انھیں اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ان کو وزیراعظم پاکستان بنا دیا جاتا تو مشرقی پاکستان کبھی جدا نہ ہوتا۔

بالخصوص پاکستان کے عوام اور بے شمار فوجی افسران کے لیے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا دکھ و کرب ناقابل برداشت تھا، اس سانحے کی خبر سنتے ہی پاکستانی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ کرنل آصف جاہ شاد کو یہ جب معلوم ہوا کہ ہمارا ایک بازو الگ ہو گیا ہے تو وہ صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور اس دار فانی سے کوچ کرگئے،اس واقعے کا میں عینی شاہد ہوں۔

ماضی میں سیاستدانوں اور میڈیا کی طرف سے بار بار مطالبہ کی جاتا رہا ہے کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ عوام کے لئے دستیاب ہونی چاہیے اور اسے شائع کیا جانا چاہیے۔ دراصل یہ رپورٹ ایک درجہ بند دستاویز تھی جسے باضابطہ طور پر 30 دسمبر 2000 کو پبلک کیا گیا تھا اور اسے عوامی دستاویز کا حصہ بنایا گیا تھا بہت سارے لوگوں نے اس رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا جو ایک انتہائی قابل ذکر دستاویز ہے اس کو پڑھے بغیر اس پر گفتگو کی گئی۔

صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے ایک ہفتہ بعد 26 دسمبر 1971 کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 کی جنگ کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس حمود الرحمن کو صدر اور جسٹس ہائی کورٹ کے انوارالحق اور ہائی کورٹ کے طفیل عبدالرحمن کے ساتھ ایک انکوائری کمیشن مقرر کیا۔سندھ اور بلوچستان کی ہے عدالت کے ججز بطور ممبر مقرر کیا جنہوں نے مکمل تحقیقات کے بعد حمود الرحمن کمیشن رپورٹ فائنل کی۔ کمیشن نے عوامی سیاسی رہنماؤں فوج، بحریہ اور فضائیہ کے ممبران خدمت انجام دینے والے 213 افراد کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ مرکزی رپورٹ،ذوالفقار علی بھٹو کو 12 جولائی 1972 پیش کی تھی چونکہ سانحہ مشرقی پاکستان کے کچھ بڑے کردار ہندوستان میں جنگی قیدی تھے اس لیے کمیشن نے ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی کے ذریعے ان کا انٹرویو لینے کی ناکام کوشش کی۔ 1974 کے شملہ معاہدے کے بعد جب یہ قیدی اور سویلین مداخلت پر پاکستان واپس بھیجے گئے تھے تو کمیشن نے مشرقی پاکستان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اے اے سی نیازی سمیت 72 افراد کی جانچ کی ان کے شواہد کی بنیاد پر ضمنی رپورٹ 1974 کے اختتام سے قبل مکمل کی گی تھی ایک بار پھر سے یہ رپورٹ سرخیوں تب آئی، جب انڈیا ٹو ڈے نے اگست 2000 کے وسط میں اضافی رپورٹ کے اقتباسات پیش کیے جو روزنامہ ڈان میں دوبارہ شائع ہوئے 14 اگست کے قریب انڈیا ٹوڈے میں جاری اشاعت کا مقصد غالبا ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی پسندوں کے پروحشیانہ جبر سے دنیا کی توجہ ہٹانا تھا۔ اس وقت کے چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف نے اس رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے لیے وزیر داخلہ معین الدین حیدر، کابینہ کے سیکریٹری معصوم حسن اور سیکریٹری خارجہ انعام الحق پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی اور سفارش کی تھی کہ کیا کارروائی ہونی چاہیے۔ انھوں نے یہ سفارش دی کہ اس رپورٹ کو پبلک ہونا چاہیے، جس طرح پوری دنیا میں سرکاری ریکارڈ محفوظ دستاویزات میں محدود ریکارڈ عام کیے جاتے ہیں۔ عید کی تعطیلات اور دسمبر کے پہلے نصف حصہ کے قریب جب مشرقی پاکستان میں جنگ لڑیں گئی تھی اس سے بچنے کے لیے احتیاط برتی تھی جس کے نتیجے میں 16 دسمبر 1971 کو ہتھیار ڈال دیے گئے تھے۔ غیر ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اس رپورٹ کی کاپیاں کابینہ ڈویژن اور اس کے دفاتر کراچی لاہور میں رکھی گئیں۔ میڈیا اور دلچسپی رکھنے والے شہریوں نے ان سے استفادہ حاصل کیا اور بہت سے اخباروں میں دونوں اہم اور ضمنی رپورٹس کے اقتباسات شائع کیے۔

یہ بھی پڑھیں: ”ہاں جی! مزہ آیا ترقی کا؟“

مرکزی رپورٹ میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب اور سیاسی امور کا جامع طور پر جائزہ اور تجزیہ پیش کیا گیا۔ سول نافرمانی کی تحریک کو دہشت گردی کا راج قرار دیا گیا۔ جنرل یحییٰ خان کی ناقص فوجی اور سیاسی حکمت عملی پر بھی تنقید کی گئی، یوں وہ اس سانحہ کے سب سے بڑے مجرم کے طور پر قوم کے سامنے آتے ہیں۔ رپورٹ میں ججز نے لکھا کہ پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف تعداد میں بلکہ ٹریننگ کے لحاظ سے بھی ہر طرح بہتر تھی۔بنگلہ دیش کے اس پروپیگنڈے کے حوالے سے کہ تیس لاکھ بنگالی مارے گئے اور دو لاکھ خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ججز نے لکھا کہ مشرقی پاکستان میں تعینات پاک فوج کی پوری طاقت کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہو سکتا تھا یہاں تک کہ اگر اس کے پاس اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ضمنی رپورٹ جو سیکٹر کے لحاظ سے جنگی شعبے کا جائزہ لیتی ہے۔ اس لیے تکلیف دہ گردانی جاتی ہے کیونکہ اس میں 16 دسمبر 1971 کو ہتھیار ڈالنے کی بات کی گئی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ڈھاکہ میں اس کے پاس 26 ہزار فوج موجود تھی۔ ہندوستانیوں کو غلبہ حاصل کرنے کے لیے کم از کم دو ہفتوں کی ضرورت ہوتی اور چونکہ وہ بنگالی عوام کے نجات دہندہ کے طور پر حملہ کر رہے تھے اس لیے انھوں نے بمباری کا سہارا نہ لیا ہوتا، اس دوران میں جنگ بندی پر بات چیت ہوسکتی تھی لیکن نیازی تقریبا مکمل ذہنی فالج کی حالت میں تھے۔ کمیشن نے سفارش کی کہ جنرل یحییٰ خان کا پندرہ الزامات کے تحت کورٹ مارشل کیا جائے جبکہ عبدالحمید خان، ایم ایم پیرزادہ، غلام عمر، اے او مٹھا پر دونوں محاذوں پر جنگ کے سلسلے میں فرائض سے غفلت برتنے پر مقدمہ چلایا جائے، تاہم اس ضمن میں کسی قسم کے مقدمے کی سماعت نہیں کی گئی۔

1 تبصرہ: