”ہاں جی! مزہ آیا ترقی کا؟“

  بیتے دنوں کی یادیں پلٹتی رہتی ہیں۔ 1975 میں روزنامہ ”تجارت“ لاہور میں بطور اسٹاف رپورٹر اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد چیف رپورٹر کی حیثیت سے کام شروع کیا، اس وقت شاہ دین بلڈنگ میں دفتر تھا اور روزنامہ ”وفاق“ جس کے چیف ایڈیٹر مصطفی صادق اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر جمیل اطہر اور وہی ”تجارت“ کے ایڈیٹرو پبلشر تھے۔ اسی بلڈنگ میں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل UPP ایجنسی کا دفتر اور قریب ہی پی آئی اے کے پبلک ریلیشنز کا بھی دفتر تھا۔ اس وقت خالد بٹ لاہور کے پی آر او تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملٹرز ساؤتھ زون کا دفتر بھی تھا اور ای ایم آئی پاکستان ریکارڈنگ کا دفتر تھا جس میں نام ور گلوکار جن میں ناہید اختر وغیرہ اپنی ریکارڈنگ کے لیے آتے رہتے تھے اور ہمارے بالمقابل پنجاب اسمبلی جہاں ہم گاہے بگاہے جاتے رہتے تھے۔

1980 میں میرا روزنامہ تجارت گوجرانوالہ کا تبادلہ کردیا گیا وہاں پر ضیا قاضی جو منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے اور حافظ خلیل الرحمن بھی، لیکن جب میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ضیا قاضی کا ایکسیڈنٹ ہونے کی وجہ سے میرا تبادلہ کیا گیا ہے اور حافظ خلیل الرحمن بھی وہاں سے جا چکے ہیں اور جب شام کو آٹھ بجے معلوم ہوا کہ اخبار کی کاپی بھی مجھے تیار کرنی ہے یعنی کاپی پیسٹنگ۔ میں نے کبھی ایک مرتبہ بھی اخبار کی کاپی نہیں جوڑی تھی۔ خیر پہلے اخبار کو دیکھا کہ پیشانی کہاں لگاتے ہیں، لیڈ لگانے کی خبر تلاش کیوں کہ ہاتھ سے کتابت ہوتی تھی۔ چار گھنٹے کی کوشش سے کاپی پیسٹنگ مکمل کی۔ یہ میرا اس شعبے میں پہلا تجربہ تھا۔

یہ بھی پڑھیں: یادوں کے دریچے

 اگلے روز لاہور سے چیف ایڈیٹر جمیل اطہر کا فون آیا۔”ہاں جی! مزہ آیا ترقی کا؟“ میں نے جواب دیا کہ مجھے کس الجھن میں ڈال دیا ہے کہ پیسٹنگ بھی میری ذمے داری بنا دی۔ خیر انھوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آپ پیسٹرکا بندوبست کرلیں، میں نے محنت اورجاںفشانی سے کام کیا، اس وقت گوجرانوالہ کے صحافی دوستوں کے ساتھ بہت اچھا گزرا۔ روزنامہ ”مغربی پاکستان“ کےآصف صدیقی نے ہر قسم کا تعاون کیا وہاں جا کر یہ احساس نہیں ہوا کہ میں دوسرے شہر میں آیا ہوں۔ اس وقت جی ڈی بھٹی پاکستان ٹائمز، اکرم ملک مشرق، اعجاز میر نوائے وقت، بذل ایوبی اے پی پی، داؤد تاثیر اسی طرح گھکھڑ کے صحافی صابر نور، یونس علوی، اقبال ہنجرا اور دیگر دوستوں کے نام وہ روزانہ میرے دفتر میں شام کو اکٹھے ہوکر رپورٹنگ کی خبریں مشترکہ طور پر تیار کرتے تھے۔ ہاں یاد آیا آصف صدیقی روزنامہ امروز کے ساتھ بھی کام کر رہے تھے، وہ بعد ازاںایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے چیف ایگزیکٹیو بھی بنے۔

کوئی تبصرے نہیں