”سر سید کے نو رتن“
اُردو زبان و ادب کے معماروں
میں سر سید کا نام ایک ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے رفقائے اُردو زبان و ادب کو
جدید نثر کا تحفہ عطا کیا۔ سر سید ایک محقق، ادیب، ماہر تعلیم اور مصلح قوم ہونے کے
ساتھ ایک اعلیٰ انسان بھی تھے۔ اس اعتبار سے وہ بے شمار خوبیوں کے مالک سمجھتے جاتے
تھے۔ ان کا دل ہمیشہ لوگوں کی ہمدردی اور دوسروں کی بھلائی کے لیے ہر لمحہ تیار رہتا۔
جنگِ آزادی کے بعد سر سید نے دیکھا کہ مسلمانوں کی سماجی، معاشرتی، سیاسی اور تعلیمی
حالت افسوس ناک ہو چکی ہے تو انہوں نے قوم کی اصلاح کا بیڑا اُٹھایا۔ انگریزوں کے شکوک
و شبہات کو دور کرنے کے لیے بے شمار رسالے لکھے، مسلمانوں کی اخلاقی حالت کو سنوارنے
کے لیے لاتعداد مضامین تحریر کیے۔ مسلمانوں کو جدید علوم سے آراستہ کرنے کے لیے دوسری
زبانوں کی علمی کتب کے اُردو زبان میں تراجم کرنے کا انتظام کیا۔ لکھنو کے ایک جلسے
میں انہوں نے کہا تھا کہ ”وہ ہندوستانیوں کی ایسی تعلیم چاہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ ان
کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہوجائے۔“ اسی لیے انہوں نے انفرادی تعلیم کے مقابلے
میں قومی تعلیم کا تصور پیش کیا اور اپنی ساری توجہ تعلیم پر ہی مرکوز کر دی اور ان
کا یہ فیصلہ بقول پنڈت جواہر لال نہرو ان کی فکر کی درست انقلابی سمت کو ظاہر کرتا
ہے۔
”سر سید کے نورتن“ اُردو ادب کی تاریخ
میں ایک ایسی لازوال کتاب ہے جس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو خواب
غفلت سے بیدار کرنے کے لیے مضامین لکھے، ان کے حوصلے بڑھانے کے لیے جا بجا تقریریں
کیں، وہیں کچھ عاقبت نااندیشوں کی مخالفت کے باوجود جب وہ اکیلا ہی شاہراہ ترقی پر
نکل کھڑا ہوا تو ابتدائی طور پر اسکول اور پھر کالج کی بنیاد رکھی گئی۔ تو اس کام میں
سر سید اکیلے نہیں تھے بلکہ ان کے پیچھے پہلی صف میں محمد حسین آزاد، ڈپٹی نذیر احمد،
مولوی ذکاءاللہ، مولانا سمیع اللہ خاں، خواجہ الطاف حسین حالی، محسن الملک مہدی علی
خاں، نواب وقار الملک، مولوی چراغ علی اور شبلی نعمانی جیسے حامی و مددگار آ گئے جنہوں
نے باجماعت سر سید کی امامت میں کالج کی تعمیر و تشکیل اور وسعت و ترقی کو اپنا مقصد
زندگی بنا لیا۔ یہی لوگ سر سید کے نورتن کہلائے۔
یہ بات سچ ہے کہ جب کسی انسان کو کوئی کام انجام دینے کے
لیے چند پر اعتماد ساتھی مل جائیں تو یقینا وہ کام پائے تکمیل تک باآسانی پہنچ جاتا
ہے، جیسے ایک چھوٹے سے گھر کی تعمیر کے لیے ایک انسان کو چند مزدور درکار ہوتے ہیں
ویسے ہی ہر انسان کو زندگی میں کچھ کام کے لیے چند آدمیوں کا ساتھ ضروری ہوتا ہے۔ مگر
دوستوں اور ساتھیوں کے انتخاب میں بھی انسان کو بڑا محتاط انداز، تجربہ کار ذہن اور
دور رس نظروں کا حامل ہونا چاہیے، مگر یہ تمام تر خصوصیات سر سید جیسی عظیم شخصیت میں
بدرجہ اتم موجود تھیں اسی لیے آج بھی اُردو ادب کی تاریخ میں سر سید اور ان کے مخلص
ساتھی زندہ ہیں۔
جی ہاں میں بات کر رہا تھا اُردو ادب کی تاریخ میں ایک ایسی
لازوال کتاب کی جس کا نام ”سر سید کے نو رتن “ ہے۔ جس کے مصنف ڈاکٹر جمال نقوی ہیں،
جو ایک تخلیقی اور مطالعہ خیز آدمی ہیں۔ اس کتاب میں ان کے کل نو عدد شخصیات پر مضامین
شامل ہیں۔ جن کا ذکر میں اُوپر والی چند سطور میں کر چکا ہوں۔ وہ اپنے ابتدائیہ مضمون
میں لکھتے ہیں کہ ”جب سر سید کو اپنی روشن فکری سے مخالفتوں کا سامنا تھا تو مخالفین
دامے، درمے اور سخنے ان کی فکر، ان کی تحریک اور ان کی تحریر و تقریر کی مخالفت کر
رہے تھے اس وقت اپنی زبان، اپنے قلم اور اپنے عمل سے ان کی مدد کرنے والا ایک ایک شخص
ان کے لیے رتن، ہیرے اور موتی سے کم اہمیت کا حامل نہیں تھا۔ سر سید نے ہر ایسے شخص
کو خوش آمدید کہا اور اس کی رہنمائی اور مدد کی اور ایسی ہی شخصیات میں سے ایک مولوی
چراغ علی بھی تھے۔“ اسی طرح سر سید کے باقی نو رتن کا بھی ذکر بڑی عرق ریزی سے کیا
گیا ہے۔ اس کتاب کا انتساب انہوں نے سر سید کے نقش ِ قدم پر چلنے والے اہلِ علم و دانش
اور مفکرین کے نام کیا ہے۔ جس کو کراچی کے معروف اشاعتی ادارے ”رنگِ ادب“ نے شائع کیا
جس کے ناشر شاعر علی شاعر ہیں جو اس کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”زیر نظر کتاب ”سر
سید کے نورتن“ بھی ڈاکٹر جمال نقوی کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جس میں انہوں نے سر سید کے
نو رفقائے کار کا تذکرہ قلم بند کیا ہے جس طرح سر سید اُردو ادب کے بنیادی پتھر ہیں
اسی طرح اُن کے رفقائے کار بھی اُردو ادب کے شیش محل میں لگے ہوئے شفاف شیشے ہیں۔“
آخر
میں مجھے یہ کہنے میں ہرگز باک نہیں کہ شاعر علی شاعر نے ”سر سید کے نَو رَتن“ جیسی
کتاب کو منظر شائع کر کے اپنا عظیم فریضہ انجام دیا ہے جس کی مثال آج کے دور میں ناممکن
نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں