”انشاء جی اُٹھو....“
ابنِ انشاء اپنے عہد کے مقبول ترین مزاح نگار تھے۔ ابنِ انشاء شاعر بھی تھے، ادیب بھی۔ انہوں نے غزلیں، نظمیں اور گیت لکھے۔ شاعری میں ان کا ایک اپنا مخصوص انداز تھا۔ وہ مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر کے ایک نواحی گاﺅں میں 15 جون 1927 میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جالندھر سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد لاہور چلے آئے اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اسی انہیں ادب سے بھی شغف پیدا ہوا۔ اُس زمانے میں لاہور علم و ادب کا گہوارہ تھا اور ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھیں۔ ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا جبکہ وہ شعر و ادب کی دنیا میں ابنِ انشاء کے نام سے مقبول ہوئے اور اسی نام سے نثر اور شاعری میں اپنا نام پیدا کیا۔ 1946میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1953میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا اور 1963 میں نیشنل بُک فاﺅنڈیشن کراچی کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ٹوکیو بل ڈویلپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور کو پبلیکیشن پروگرام، ٹوکیو کی مرکزی مجلس ادارت کے رُکن بھی رہے۔ اس کے علاوہ روزنامہ جنگ، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ اخبارِ جہاں کراچی میں حالاتِ حاضرہ پر مزاحیہ کالم نویسی کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے متعدد یورپی اور ایشیائی ممالک کے دورے بھی کیے اور وہاں کے تجربات کو سفر ناموں کی شکل اور اپنے مخصوص انداز مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں لکھتے رہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت لاہور آئے تو وہ یہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔ پھر کراچی ریڈیو اسٹیشن میں بھی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ پاکستان دستور ساز اسمبلی میں 1950 تا 1956 تک سنیئر مترجم کے طور پر کام بھی کیا۔ 1957میں محکمہ اصلاحِ دیہات کے رسالہ ”پاک سرزمین“ کے نائب مدیر بنے اور 1961تک اس عہد ے پرکام کیا۔ 1959میں دیگر احباب کے ساتھ مل کر ”پاکستان رائٹر گلڈ“ کی بنیاد رکھی۔
نثر کے میدان میں انہوں نے
طنز نگاری کا انداز اختیار کیا۔ طنز میں مزاح کی آمیزش نے ان کی تحریروں کو زیادہ پُر
اثر بنا دیا۔ عوام الناس کی آواز بنتے ہوئے انہوں نے اخبارات میں کالم نویسی کا آغاز
بھی کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے نظم، غزل، کہانی، ناول، افسانہ، سفر نامہ، متراجم اور
بچوں کے عالمی ادب اور دیگر ادبی اصناف پر کام کرتے ہوئے شہرت حاصل کی۔
ابنِ انشاء اپنے سفر ناموں میں مفروضہ اور قیاس سے کام نہیں لیتے بلکہ جو کچھ دیکھتے ہیں اُسے معلوماتی انداز میں قاری تک پہنچا دیتے اور ان معلومات کو پہنچانے میں وہ سیاق و سباق کو بھی پیشِ نظر رکھتے کیونکہ ان کا مشاہدہ بڑا تیز تھا انہوں نے کمالِ فن کے ساتھ واقعات کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ ابنِ انشاء کے مشاہدہ کا تسلسل بیان کرتے ہوئے سراج الاسلام اپنی کتاب ”تذکرے اور تبصرے“ میں لکھتے ہیں کہ ”ابنِ انشاء کے سفر ناموں میں یہ خوبی نظر آتی ہے کہ وہ اپنے مشاہدات کو باہم گڈمڈ نہیں کرتے وہ بڑے سلیقے سے مختلف واقعات کو ایک کڑی میں پروتے ہیں۔ ہر مشاہدہ کو علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہیں۔ وہ تسلسل کے ساتھ ایک منظر کے بعد دوسرا منظر سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا سفر نامہ مشاہدات اور تجربات کا ایک رنگین دفتر بن جا تا ہے ۔ وہ اپنے تیکھے طنز اور شائستہ مسکراہٹوں سے اپنی تحریر کو اور زیادہ پُر اثر بنا دیتے ہیں۔“ ان کے سفر ناموں میں ”دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں“ اور ”نگری نگری پھرا مسافر“ ودیگر شامل ہیں۔
1960 میں انہوں نے چینی نظموں کا منظوم اُردو ترجمہ شائع کروایا۔ ”خمار گندم“
اور ”اُردو کی آخری کتاب“ جیسی انہوں نے لازوال کتابیں لکھیں۔
ابنِ انشاء کی زبان سادہ
اور عام فہم اور نہایت سادہ انداز میں اپنی بات بیان کرتے۔ ان کی منفرد تحریریں خود
منہ سے بولتی ہے کہ اس کے خالق ابنِ انشاء ہیں۔ اپنے اسی اسلوب نگارش کی وجہ سے انہوں
نے موجودہ دور کے ادب میں اپنے لیے ایک باوقار مقام حاصل کیا۔ بحیثیت مجموعی ان کی
تحریروں میں طنز و مزاح بھی ہے، لطف اثر اظہارِ خیال بھی۔ یہی سب چیزیں ہیں جو انہیں
ایک منفرد نثر نگار اور شاعر کی حیثیت سے ادبی دنیا میں پیش کرتی ہیں۔
بحیثیت شاعر ابنِ انشاء کی
شاعری میں شگفتگی، تازگی، سادگی، روانی، غنائیت اور نغمگی پائی جاتی ہے۔ ان کی غزلیات
ایک کیفیت تھی جو قاری اور سامع کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔ اُن کی غزلیں گائیکی
کے لیے بھی انتہائی موزوں خیال کی جاتی تھیں اور انہیں پاکستان کی طرح بھارت میں بھی
مقبولیت حاصل ہوئی۔
کل چودھویں کی رات تھی شب
بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ
نہ کہا چہرا ترا
ہم بھی وہیں موجود تھے ہم
سے بھی سب پوچھا کیے
ہم چپ رہے ہم ہنس دیے منظور
تھا پردہ ترا
اسی طرح اُستاد امانت علی
خان نے ان کی مشہورِ زمانہ غزل کو گا کر انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
انشاء جی اُٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب
جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
ابنِ انشاء کے معروف شعری
مجموعوں میں ”اس بسی کے ایک کوچے میں، چاند نگر، دلِ وحشی اور ”بلو کا بستہ“ شامل ہیں۔
وہ اپنے شعری مجوعے ”چاند نگر“ کے دیباچہ میں خود رقم طراز ہیں کہ ”تقسیمِ ہند سے پہلے
بھی کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے جو ادبی رسائل میں شائع بھی ہو جاتا تھا مگر سنجیدگی
سے 1949 کے بعد لکھنا شروع کیا۔“ جبکہ اکرم کنجاہی اپنی ”غزل کہانی“ میں لکھتے ہیں
کہ ”ناصر کاظمی کے بعد جن شعراءنے میر تقی میر کی بازیافت کرنے کی کوشش کی اُن میں
ابنِ انشاء بھی شامل ہیں۔ اُن پر میر کی تقلید کا الزام آیا، مذکورہ بالا کتاب میں
اُنہوں نے میر پسندی کا اظہار ضرور کر دیا ہے مگر شعوری تقلید سے انکار کیا ہے۔“ اس
حوالے سے انشاء کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے:
اک بات کہیں کہ انشاء جی
تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم ایک جہان کا علم پڑھے
کوئی میر سا شعر کہا تم نے
ہمارے موجودہ عہد میں ایسے
کم لوگ ہونگے جنہوں نے ابنِ انشاء کو دیکھا یا سُنا ہو۔ اُن میں نامور شاعر اعتبار
ساجد بھی ہے جنہوں نے عہدِ شباب میں ملتان کی ایک ادبی تقریب میں مرحوم شاعر ریاض انور
ایڈووکیٹ کی معرفت اُن سے ملاقات کی۔ اُس وقت ابنِ انشاء روزنامہ ”جنگ“ میں بہت بے
حد مقبول تھے اعتبار ساجد بھی اُس زمانے میں ماہنامہ ”افکار“ جیسے چوٹی کے رسالے میں
مزاحیہ مضامین لکھ رہے تھے۔ اس لیے ابنِ انشاء اُن سے بخوبی واقف تھے۔ اعتبار ساجد
بتاتے ہیں کہ ”میں جب ان سے ملا تو وہ بہت خوش دلی سے ملے اور میں اُن کے چہرے کی مسکراہٹ
کبھی نہیں بھولا۔ انہوں نے مجھے دعوت دی کہ رسائل کے علاوہ اخبارات میں بھی لکھو اور
لوگوں کی توجہ بھی حاصل کر سکوں گے کیونکہ تمہاری تحریر میں بڑی جان ہے۔“ ابنِ انشاء
کی شخصیت و فن کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ”انشاء بہت خوش پوش انسان تھے لیکن اُن کا
چہرہ بہت سنجیدہ رہتا تھا وہ بہت کم لوگوں کی محفل میں ہنستے مسکراتے تھے۔ بظاہر خشک
دکھائی دیتے تھے لیکن ایسا بالکل نہیں تھا وہ شگفتہ طبع اور مزاح سے بھرپور شخصیت تھے۔
اُن کی کتابیں پڑھے تو آج بھی تازگی محسوس ہوتی ہے لیکن جب اُن کی شاعری کی طرف توجہ
دے تو اُس میں بالکل مختلف ابنِ انشاء دکھائی دیتا ہے۔ جن لوگوں نے اُن کو نہیں دیکھا
وہ اُن کی شاعری اور نثری کام کو دیکھ اس بیانیے سے کافی حد تک اتفاق کر سکتے ہیں۔
میرے نزدیک یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل کام ہے کہ ابنِ انشاء ایک بڑے مزاح نگار تھے یا
ایک بڑے شاعر تھے، کیونکہ ہمارے ادب میں ایسی بہت کم مثالیں ملتی ہیں کہ کوئی شاعر
بیک وقت اُتنا مقبول ادیب یا کالم نگار بھی ہو جتنا معروف وہ اپنی شاعری میں ہے۔ اس
کی ایک ہی مثال سرِ دست ذہن میں آتی ہے وہ جوش ملیح آبادی، احسان دانش اور احمد ندیم
قاسمی ہے۔“
ابنِ انشاء کی وفات 11 جنوری
1978 کو ہوئی اور انہیں کراچی کے قبرستان پاپوش نگر میں دفن کیا گیا اور ان کی رہائش
گاہ والی سڑک کو ”ابنِ انشاء روڈ“ کا نام دے دیا گیا۔ افسوس ان کی ناوقت موت سے ہمارا
ادب اس مزید سرمائے سے محروم ہو گیا جو مستقبل میں ان کی فکر سے متوقع تھا۔ سچ تو یہ
ہے کہ ان کے مضامین اور ان کی شاعری آج بھی عوام و خواص میں مقبول ہیں۔ کاش کہ وہ کچھ
اور دن زندہ رہتے اور ہماری دکھ بھری زندگی کے لیے لطافتیں اور مسکراہٹیں فراہم کرتے
بقول انشاء کے اس شعر کے اور کیا کہوں۔
کبھی میر فقیر کی بتیوں سے،
کبھی غزلوں سے انشاء صاحب کی
ان برہ کی بے کل راتوں میں
ہم جوت جگاتے ہیں من کی
کوئی تبصرے نہیں