کٹا پھٹا پاکستان(پہلاحصہ)

پاکستان کے وجود میں آنے کی تاریخ پرتشدد تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پر تشدد ہوتی گئی۔ فرقہ ورانہ فسادات کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے انگریزوں کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ یہ واقعات ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ان کے حل ہونے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی، دراصل وہ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ عبوری انتظام کے تحت ہندوستان کی حکومت ہندوستانیوں کے حوالے کرکے یہاں سے چلے جائیں اور ہندوستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ اس وقت ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ویویل نے اکتوبر 1946 میں ایک مجلس آئین ساز قائم کی اورکوشش کی کہ ایک عبوری حکومت قائم ہوجائے لیکن ان کی کوشش ناکام ہوئی اور ایک سیاسی تعطل پیدا ہوتا نظر آنے لگا۔ انگریزوں نے اندازہ لگایا تھا کہ سیاسی تعطل کے نتیجے میں ملک میں سول وار شروع ہو جائے گی اور انگریزوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا کہ وہ یہاں سے چلے جائیں، انہوں نے خفیہ طور پر برطانوی حکومت کی مرضی سے مارچ 1948 میں واپس جانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ (دی گریڈ ڈیوائیڈ مصنف ایچ وی سی ہڈسن)

18 دسمبر 1946 کو برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ لارڈویول کی جگہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ہندوستان بھیج دیں، انھیں توقع تھی کہ وہ اپنی پرکشش شخصیت کی وجہ سے اس کام میں کامیاب ہوجائیں گے، جس میں ویول ناکام رہے تھے، نامزد وائسرائے نے بھی سوچا کہ جب تک برطانیہ ہندوستان میں برطانوی راج ختم کرنے کی تاریخ کا اعلان نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ بھی کوئی مفید کام نہیں کر سکتے، پہلے وزیراعظم نے کچھ پس وپیش کی لیکن نامزد وزیراعظم کے زور دینے پر انہوں نے 20 فروری انیس سو سینتالیس کو دارالعوام میں مندرجہ ذیل اعلان کیا۔ 1۔ ہز مجسٹی کی حکومت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ اس کا ارادہ ہے کہ وہ برصغیرکی حکومت جون 1948 سے پہلے ہندوستان کے ذمہ دار لوگوں کے ہاتھوں منتقل کرے۔ 2۔ اگر یہ ظاہر ہوا کہ مقررہ تاریخ تک نمائندہ اسمبلی ایسا دستور (جس کی کیبنٹ مشن نے تجویز پیش کی تھی) نہیں بنا سکے گی تو پھر ہز مجسٹی کی حکومت کی شکل میں دیے جائیں یا کچھ علاقوں میں موجودہ صوبوں کو اختیارات دیے جائیں، جو سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوا اور برصغیر کی حکومت جون 1948 سے پہلے ہندوستان کے ذمہ دار لوگوں کے ہاتھ منتقل کر دے۔3۔ اس اعلان کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 22 مارچ 1947 دہلی آگئے اور انہوں نے پورے خلوص کے ساتھ اپنا کام شروع کر دیا، اپنے پیش روؤں کی طرح ان کی بھی پہلی ترجیح رہی کہ ہندوستان متحد رہے۔ اس لیے انہوں نے یہ کوشش کی کہ قائد اعظم اپنے موقف میں تبدیلی کریں۔ وائسرائے کی حیثیت سے وہ جانتے تھے کہ اس صورتحال کا حل ان (قائد اعظم) ہی کے پاس ہے لیکن انہوں نے دیکھا کہ بحث مباحثے سے قائداعظم کو قائل نہیں کیا جا سکتا تو وہ عاجز آگئے اور اس طرح دونوں شخصیات میں محاذ آرائی شروع ہوگئی۔ دونوں کے طرز عمل میں سختی آ گئی اور ماؤنٹ بیٹن نے محسوس کیا کہ قائد اعظم مناسب بات نہیں کر رہے۔ اس طرح وائسرائے اور جواہر لعل نہرو کے درمیان میں قربت پیدا ہوگی جو بڑھ کر ذاتی تعلقات میں تبدیل ہوگئی۔ 4۔ قائد اعظم کی طرف سے اس طرح کا طرز عمل اختیار کرنے میں انہوں نے انصاف سے کام نہیں لیا اور وہ یہ بات بھول گئے کہ ان کے اور جواہر لال نہرو کے خیالات میں کوئی تضاد نہیں تھا مگر وہ تمام رعایتیں قائد اعظم ہی سے چاہتے تھے۔ قائد اعظم اپنے موقف سے پیچھے ہٹ نہیں سکتے تھے کیونکہ انہیں کانگریس کے راج کا تلخ تجربہ ہو چکا تھا اور مسلمان ہندوؤں کی غلامی پر راضی نہیں ہو سکتے تھے، اس لیے تقسیم ناگزیر تھی، مگر سوال یہ تھا کہ تقسیم کس طرح کی جائے اور اس سلسلے میں ماؤنٹ بیٹن نے اپنا انتقام لیا، انہوں نے کہا کہ تقسیم کے لیے جو دلیل دی جا رہی ہے وہی دلیل بنگال اور پنجاب کی تقسیم پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ قائداعظم نے گزارش کی تھی کٹا پھٹا پاکستان نہ دیا جائے مگر وائسرائے اپنی ضد پر اڑے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس بات سے خوفزدہ ہوکر قائداعظم پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں گے لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اسے قائد اعظم کا طرز عمل مزید سخت ہو جائے گا کیونکہ ایسا شخص ان دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہو سکتا تھا۔ افسوس وائسرائے کے طرز عمل میں آخر وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ انھوں نے دھمکی دی کہ اگر اسے قبول نہ کیا گیا تو کانگریس کو ہندوستان کا اقتدار سونپ دیں گے کیونکہ برطانیہ کو ہر صورت میں اقتدار چھوڑنا ہے۔ اس طرح عام مسلمانوں کو ایک کٹا پھٹا پاکستان مل سکا جس میں ریڈ کلف ایوارڈ کے ذریعے مزید کمی کر دی گئی اور مسلم اکثریت کے پنجاب میں دو اضلاع گرداس پور اور بنگال میں مرشد آباد جو شروع میں پاکستان کو دیے گئے تھے، واپس لے لیے گئے 5۔ برصغیر کی تقسیم کے منصوبے کا فریقین کی طرف سے قبول کیے جانے کی شرط کے ساتھ تین جون 1947 کو دارالعوام میں اعلان کر دیا گیا لیکن وائسرائے نے کانگریس کا یہ مطالبہ مان کرکہ دونوں مملکتوں کے قیام کی تاریخ جون 1948 سے کردی جائے قائداعظم کے ساتھ اپنی دشمنی کا دوبارہ اظہارکیا، یہ 20 فروری،1947 کے اعلان میں بتائی جا چکی ہے مگر اس تاریخ کا انتخاب اپنی مرضی کا تھا۔ مسلم لیگ سے کوئی مشورہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان مشکلات کا کوئی خیال کیا گیا جو پاکستان کو صرف 72 دن میں نئی حکومت قائم کرنے میں پیش آئیں گی۔ اس غیر مناسب جلد بازی کی نہ وائسرائے نہ ہی کسی اور نے کوئی وجہ بتائی۔ بھارتی حکومت کے اثاثوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم اور پاکستان کی نئے ڈومنین کے قیام کے سلسلے میں اختلافات کا پیدا ہونا لازمی تھا لیکن جب قائد اعظم نے پاکستان کا گورنر جنرل کا عہدہ قبول کرنے سے انکارکردیا تو تجویز دی کہ برطانیہ کے نامزد کردہ وائسرائے دونوں ملکوں کے گورنر جرنلز کے درمیان میں ثالثی کی ذمہ داری ادا کریں تو لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے غرورکو ٹھیس پہنچی اور یکایک کمرے سے باہر چلے گئے اور یہ کہتے ہوئے گئے ”اس کی قیمت تمام اثاثے ڈیوائیڈ۔“ ( صفحہ 331 ) بعد میں پیش آنے والے واقعات سے ثابت ہو چکا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ضد کو بڑی خوبی سے عملی جامہ پہنایا۔ اس نئی قوم کو صرف اس وجہ سے انتظامی اور مالیاتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ بھارت کی حکومت نے گورنمنٹ آف انڈیا کے قابل منتقلی اثاثوں میں سے کچھ بھی دینے سے انکارکردیا اور 20 کروڑکی رقم بھی ادا نہیں کی، موجودہ کیش بیلنس سے عبوری طور پر دینے کا فیصلہ ہوا تھا بلکہ اس وجہ سے اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کہ بنگال اور پنجاب میں جنونی ہندوؤں نے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا، تاکہ وہ ان صوبوں کے علاقوں سے مسلمانوں کو نکال سکے جو تقسیم کے نتیجے میں بھارت کے حصے میں آئے تھے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی علاقوں میں فسادات شروع ہوئے، اس طرح لاکھوں پناہ گزینوں دونوں طرف سے سرحد عبور کرنے لگے۔

یہ بھی پڑھیں: حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کیا ہے؟

قائد اعظم اور جواہر لعل نہرو دونوں نے اپیل کی کہ مارشل لا لگا دیا جائے یا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو بھی دیا جائے، اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، گڑگاؤں اور دہلی میں تو فسادات وائسرائے دفترکے بالکل قریب ہو رہے تھے۔ وائسرائے سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک تمام برطانوی افسران دخل دینے سے بچ رہے تھے، انہوں نے کوئی سخت اقدام نہیں اٹھایا اور وجہ یہ بتائی اتنے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان کے پاس کافی فوج موجود نہیں ہے، انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی معمولی سیاسی یا فرقہ ورانہ فسادات نہیں ہے جن میں امن و امان قائم کرنے کے لیے معمولی ذرائع سے روکا جائے کیونکہ دونوں قومیں ایک دوسرے کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے پر مصر ہیں۔ اس نازک موقع پر پنجاب کے گورنر نے بے بسی کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ”بادشاہ کے تمام گھوڑے اور تمام سپاہیوں بھی ان فسادات کو نہیں روک سکتے“۔ اگرچہ وہ سزا دینے کی اہلیت رکھتے تھے، ان فسادات میں ملک کے گاؤں میں دونوں قوموں کے افراد ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ ( دی گریٹ ڈیوائیڈ، صفحہ 342) ....

 ( جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں