سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری، شہدا کے لواحقین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے، مزدور تنظیموں کی مشترکہ پریس کانفرنس



رپورٹ (نمایندہ ٹیلنٹ) مزدور تنظیموں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، سانحہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے شہدا کے لواحقین کے لیے جرمن کمپنی کی جانب سے دیے جانے والی رقم کو ایک انشورنس کمپنی کو دیئے جانے کے معاہدے کو غیر شفاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے اور آئی ایل او کا سانحہ کے اصل فریق کو اعتماد میں لیے بغیر من مانے فیصلہ پر کڑی تشویش  ظاہر کی۔ ان خیالات کا اظہار سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن، نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان، پائیلر، ہوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور سائٹ لیبر فورم کے رہنماؤں محمد صدیق، حسنہ خاتون، ناصر منصور، کرامت علی، اسد اقبال بٹ، زہرا خان، ریاض عباسی اور دیگر نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔ پریس کانفرنس میں بتایا گیا کہ سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن کی جنرل باڈی اجلاس کراچی میں منعقد میں کیا گیا جس میں اہم امور پر تبادلہ خیال اور کئی فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں ایسوسی ایشن کی رہنما سعیدہ خاتون جو کہ کینسر کے موذی مرض سے لڑتے ہوئے انتقال کر گئیں انہیں ان کی جدوجہد پر زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ اسی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کو پریس کانفرنس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ سانحہ بلدیہ کے دو سو ساٹھ شہداءکے لواحقین اور درجنوں زخمی مزدوروں اور ان کی ہمدرد مزدور تنظیموں کی پاکستان اور بین الاقوامی جدوجہد کے نتیجے میں جرمن برانڈ "کک"KIK  ایک معاہدہ کے تحت پانچ اعشاریہ ایک ملین ڈالرز لانگ ٹرم کمپنسیشن کے طور ادا کرنے پر راضی ہوا۔ اس معاہدے پر انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے زیراہتمام بین الاقوامی مزدور تنظیموں انڈسٹریل گلوبل یونین اور کلین کلاتھ کمپین کے ساتھ جرمن برانڈ کے نمائندے نے دو ہزار سولہ میں دستخط کیے۔ اسی معاہدے کے تحت یہ رقم آئی ایل او کے جنیوا آفس کے حوالے لی گئی۔

اسی معاہدے کے تحت رقم کی تقسیم اور اس سے متعلقہ دیگر معاملات کو طے کرنے کے لیے پاکستان کی سطح پر ”اوور سائٹ کمیٹی“ کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں حکومت، لواحقین، مالکان اور مزدور تنظیموں کے نمایندے شامل تھے۔ مزدور تنظیموں اور لواحقین کا مطالبہ تھا کہ معاہدے کی رو سے جرمن برانڈ کی جانب دی جانے والی رقم پاکستان لائی جائے اور اسے باہمی مشاورت سے انوسٹ کیا جائے کہ وہ لواحقین کی مالی معاونت کو تا حیات یقینی بنائے۔ اس سلسلے میں مزدور تنظیموں اور لواحقین کی تنظیم نے پاکستان کے نامور قانون دانوں کی مشاورت سے ایک انوسٹ منٹ پلان بھی آئی ایل او سے شیئر کیا تاکہ رقم کو تاحیات ادائیگی کا حامل بنایا جا سکے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

 بدقسمتی سے معاہدے سے رو گردانی کرتے ہوئے لواحقین اور مزدور تنظیموں کے مسلسل اصرار کے باوجود آئی ایل او پچھلے پانچ سالوں سے متاثرین کی رقم روکے بیٹھا تھا اور اسی رقم میں سے ہر ماہ سندھ سوشل سیکیورٹی انسٹیٹیوٹ کے ذریعے لواحقین میں رقم تقسیم کرتا رہا جس سے اصل رقم میں مسلسل کمی ہونے کی وجہ سے رقم ایک بڑا حصہ ختم ہو گیا جس کے بارے میں ابھی تک نہ تو لواحقین کو مطلع کیا گیا ہے اور نہ دیگر فریقین کو آگاہ کیا گیا ہے۔ اس صورت حال کا ذمہ دار آئی ایل او ہے۔ آئی ایل او کا اس سانحہ میں لواحقین کو انصاف دلانے اور مدد کرنے میں کوئی کردار نہیں لیکن وہ لواحقین اور ان کی مددگار مزدور تنظیموں کے جائز مطالبات کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے یک طرفہ اور غیر شفاف فیصلے اور عمل کر رہی ہے۔

آئی ایل او نے ایک ایسے وقت میں جب اوور سائٹ کمیٹی کی رکن اور سانحہ بلدیہ متاثرین ایسوسی ایشن کی چیئر پرسن کینسر کے مرض کے لیے ہاسپٹل میں زیر علاج تھیں جب کہ ایک اور رکن ناصر منصور بیرون ملک تھے اور تیسرے رکن کرامت علی بیمار تھے، یعنی اوور سائٹ کمیٹی کے تین اہم ممبران کی غیر موجودگی میں کمیٹی کا اجلاس 15 دسمبر کو طلب کیا حالاں کہ ملتوی کرنے کی درخواست بھی کی گئی اور اس اجلاس میں آئی ایل او اور ایک انشورنس کمپنی کے درمیان ایک ایسے معاہدے کی توثیق کی گئی جو اجلاس سے پہلے ہی بلا مشاورت سائن کیا جا چکا تھا۔ نہ تو اس کے ڈرافٹ اور نہ ہی اس کے مندرجہ جات سے اب لواحقین اور متعلقہ مزدور تنظیموں کو آگاہ کیا گیا۔ اس اجلاس کے شرکاءکے بارے میں بھی نہیں بتایا گیا۔ انشورنس کمپنی سے ہونے والے معاہدے کو ابھی تک خفیہ رکھا ہوا ہے حالانکہ یہ رقم لواحقین کے لیے ہے اور آئی آیل او کا اس پر کوئی حق نہیں کہ وہ لواحقین کی مشاورت کے بغیر انتہائی غیر شفاف طریقے سے شہداء کے ورثاء کی رقم پر کوئی معاہدہ کرے۔

غیر شفاف معاہدے کے بعد سے آئی ایل او کراچی آفس کے چند اہل کار سیسی کے ایک ملازم کے ذریعے شہدا کے لواحقین کو ہراساں کر رہے ہیں اور ان سے انگریزی میں تحریر نامعلوم دستاویزات پر زبردستی دست خط کروا رہے ہیں جس سے شہداء کے ورثاء میں شدید بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ جرمن برانڈ اور مزدور تنظیموں کے مابین بین الاقوامی معاہدے کے بعد لیبر ڈپارٹمنٹ اور سندھ حکومت اہم فریق ہیں جن سے ہونے والے معاہدہ کے بعد ہی سیسی کے ذریعے ماہانہ ادائیگیوں کا آغاز ہوا۔ لیبر ڈپارٹمنٹ اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ وہ اوور سائٹ کمیٹی کے تمام ممبران کو اعتماد میں لیتا لیکن اپنے کردار سے غافل رہا۔ آئی ایل او کا اوور سائٹ کمیٹی کی میٹنگ سے پہلے اور بغیر کسی مشاورت سے انشورنس کمپنی سے معاہدہ بدترین غیر شفافیت اور لواحقین کے جاننے کے بنیادی اور جمہوری حق پر حملہ ہے۔

اس پریس کانفرنس کی توسط سے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ آئی ایل او سانحہ کے متاثرین، سانحہ سے متعلقہ مزدور تنظیموں کی مشاورت سے رقم کو انوسٹ کرے، اور سائیٹ کمیٹی کا اجلاس بلا تاخیر بلایا جائے جس میں انشورنس کمپنی سے ہونے والے معاہدے اور دیگر تمام دستاویزات کو ممبران سے شیئر کیا جائے۔

کوئی تبصرے نہیں