بزم ”ادبِ اِمروز“ کا قیام ،گلشنِ شعر و ادب میں اِک نیا مہکا گلاب



کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ) 22 جنوری 2023 بروز اتوار کے ایم سی آفیسرز کلب کے ہال میں بزم ”ادب اِمروز“ پاکستان کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا ، جس میں ادب کی نمایندہ شخصیات شریک تھیں۔ اس اجلاس کی صدارت مشہور صاحب علم و تدریس و دانشور پروفیسر انیس زیدی نے فرمائی۔ اس میں مہمان خصوصی سماجی و ادبی محفلوں کی روح رواں محترمہ راحیلہ ٹوانہ (سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی) تھیں اور مہمان اعزازی ڈاکٹر جاوید منظر صاحب تھے۔ نظامت کے فرائض مشہور شاعر حامد علی سید اور معروف شاعرہ شاہدہ عروج خان نے مشترکہ طور پر ادا کیے۔ سیدہ اوج ترمذی کی تلاوت کے بعد سلمیٰ رضا سلمیٰ اور دلشاد احمد دہلوی نے نعتیں پیش کیں۔

 مشرف علی رضوی نے بزم کے اغراض و مقاصد پر اپنا مضمون پیش کیا اور اردو ادب کی ترقی اور ترویج میں ادیبوں اور شعرا کی مزید فعالیت پر زور دیا تاکہ اردو قومی زبان اور سرکاری سطح پر اپنا جائز حق اور مقام حاصل کرسکے۔

 عرفان عابدی نے بزم کے پروگرام پر اظہار خیال کیا خصوصاً یہ نکتہ فکر کہ ادبی محافل میں افسانے سے لاتعلقی کا اظہار کیا جا رہا ہے ، ہم اپنی نشستوں میں افسانہ نگاروں کو بھی فعال دیکھنا چاہتے ہیں۔ ساتھ مختصر نقد و نظر کا سلسلہ بھی ہونا چاہیے۔ احمد خیال نے بزم ”ادب اِمروز“ پاکستان اور بانیان کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔

گلشنِ شعر و ادب میں اِک نیا مہکا گلاب
پورا ہوگا اہلِ علم و فن کا ہر دیرینہ خواب

 ڈاکٹر جاوید منظر نے بزم کے قیام پر خوشی کا اظہار کیا اور بانیان کو مبارک باد دی۔ انھوں نے اپنی تصنیف ”پروفیسر ڈاکٹر اسلم فرخی، شخصیت اور فن“ کا تعارف پیش کیا اور ادب کی ترویج پر زیادہ کاوشیں انجام دینے پر زور دیا، انھوں نے استاد محترم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ان کی ادبی اور علم و تدریس میں بے پایاں خدمات کو ناقابل فراموش قرار دیا۔

محترمہ راحیلہ ٹوانہ نے زبانوں و ادب میں خواتین کی شراکت اور اہمیت کے عنوان پر گفتگو کی۔ ان کی تقریر اتنی اثر انگیز تھی کہ حاضرین نے متعدد بار پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے تالیاں بجائیں۔ بزم کی اس پر رونق تقریب کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی قائم کردہ ”ادبی محفل“ کو بزم ”ادب اِمروز“ پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کیا۔ حاضرین بھی پرجوش ہوگئے اور تادیر تالیاں گونجتی رہیں۔

خطبہ صدارت  پیش کرتے ہوئے پروفیسر انیس زیدی نے کہا جب اداروں سے علم اٹھ جائے، زبانیں گنگ ہو جائیں تو زندگی بھٹکنے لگتی ہے۔ سرسید نے اس حقیقت کو سمجھا اور ایک درس گاہ قائم کرکے علم کی روشنی سے ذہنوں کو بے دار کیا، ظلمت سے نکال کر اجالوں کی راہ پر گامزن کیا۔ تخلیق کاری کا عمل سلامتی، امن اور Un Armed Victory پر منتج ہوتا ہے۔ ادب اور ادیب جنگ کے خلاف صف آرا ہوتا ہے۔ وہ انسانیت کا پرچار کرتا ہے، جنگ کو روک کر انسان کو وہ زاویہ فکر دیتا ہے جس کے سبب فلاحی اور بکھری ہوئی انسانیت کو ایک دوسرے کے لیے مفید اور کارآمد راہ عمل سے روشن اور خوب صورت منزل کا تعین ہوتا ہے ، لہٰذا ادب ضروری ہے، اس کی قدر کرنا بھی لازمی ہے۔ یہ کام بزم ”ادب اِمروز“ پاکستان کو بھی انجام دینا ہے۔ آپس میں جڑے رہیے امن، محبت اور سلامتی کی خاطر بہ ذریعہ ادب۔

پروگرام کے آخری حصے میں محفل میں موجود شعرا سے کلام بھی سنا گیا جس کے اسماءگرامی یہ ہیں: علی اوسط جعفری، ناہید اعظمی، افضل ہزاروی، ہمابیگ، احمد خیال، زینت کوثر لاکھانی، پروفیسر تبسم صدیقی، دلشاد دہلوی، سلمیٰ رضا سلمیٰ، سعد الدین سعد ، حامد علی سید، شاہدہ عروج خان، مشرف علی رضوی، عرفان عابدی، سیدہ اوج ترمذی اور ڈاکٹر جاوید منظر۔

بہتر ریفریشمنٹ کے انتظام کے علاوہ بہت منفرد بات ”یادگار شیلڈ“ کی تمام حاضرین کو تقسیم ہونا تھی جو جس گھر میں ہوگی بزم ”ادبِ اِمروز“ پاکستان ہر آن آنکھوں کو جگمگاتی رہے گی۔چند لوگ جو بوجوہ شرکت نہ کرسکے تھے انھوں نے فون پر عدم شرکت پر معذرت کی جن میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی، پروفیسر نوشابہ صدیقی، قادر بخش سومرو، (نواب شاہ میں تھے) اور سیما ناز (حیدر آباد گئی ہوئی تھیں۔(

1 تبصرہ: