ریٹائرڈ پولیس افسر عزیز اللہ کے قلم سے
میرا نام عزیز اللہ خان ہے۔ میرا تعلق ضلع بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ سے ہے، میں نے 1982 میں محکمہ پولیس میں بہ طور اے ایس آئی ملازمت اختیار کی۔ یہ وہ دور تھا جب ملک میں جنرل ضیاالحق کا مارشل لا تھا۔ شاید اسی وجہ سے محکمہ پولیس میں کی جانے والی بھرتیاں شفاف اور میرٹ پر ہوئی تھیں۔ بہ طور پولیس آفیسر میری زندگی میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے جو ناقابل فراموش ہیں۔ میں نے ان کئی اندھے مقدمات کی تفتیش کی۔ میں نے کئی ڈکیتیاں ٹریس کیں۔ زندگی میں اچھے اور برے حالات سے بھی گزرا۔ کئی دفعہ موت کو بھی قریب سے دیکھا۔ اس محکمے میں رینکرز اور پی ایس پی افسران طبقاتی کشمکش کا بھی شکار ہوا۔ لیکن پھر بھی اللہ کے فضل سے بہ طور ڈی ایس پی ریٹائرڈ ہوا ہوں۔ کچھ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ اپنے اچھے تجربات و مشاہدات پر مبنی زندگی کے حالات قلم بند کروں۔ میں نے یہ کوشش کی ہے اب پسند کی جاتی ہے یا نہیں یہ قارئین ہی بہتر بتا سکیں گے۔
٭....٭....٭
قلعہ گجر سنگھ کا گوگی بٹ
یزمان تعیناتی کے دوران میں نے بہت محنت کی۔ راتوں کو جاگ کر گشت کرنا اور دن کو تفتیش کے امور پر جام تاج اے ایس آئی سے سیکھنے اور اسی طرح شام کو ایس ایچ او صاحب کے ساتھ بیٹھ کر پبلک ڈیلنگ دیکھتا اور سیکھتا۔ ایس ایچ او صاحب بھی میرے کام سے خوش تھے۔ ایک رات میں چوہدری یوسف ہیڈ کانسٹیبل اور محمد حیات کانسٹیبل حسب معمول موٹر سائیکلوں پر گشت کر رہے تھے۔ ان دنوں تھانہ پر سرکاری گاڑیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ پولیس ملازمین یا تو پرائیویٹ ویگن پر گشت کیا کرتے تھے یا اپنے اپنے موٹرسائیکل پر گشت پر جاتے تھے۔ گشت کرتے ہوئے ہم کڈو والا چوک پہنچے تو ہیڈ کانسٹیبل محمد یوسف نے کہا کہ” سر! یہاں کچھ دیر کے لیے ناکہ لگاتے ہیں۔“ چنانچہ ہم کڈو والا چوک میں ناکہ لگا کر بیٹھ گئے۔ رات تقریباً دو بجے کا وقت تھا کہ ایک ٹرک یزمان کی طرف سے آیا جس کو نواز کجلا نے چیکنگ کے لیے روکا۔ ٹرک تھوڑی دور جا کر رک گیا، کافی دیر ہوگئی میں نے حیات کانسٹیبل سے کہا کہ جا کر دیکھیے کہ نواز کو کیوں دیر ہوگئی ہے؟ تھوڑی دیر میں دونوں واپس آگئے۔ نواز نے اپنے دونوں ہاتھوں میں کچھ اٹھایا ہوا تھا۔ میرے پاس آ کر بولا: ”سر! میں ٹرک چیک کرنے لگا تو ٹرک میں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے مجھے پانچ سو روپے رشوت دینے کی آفر کی۔ میں حیران ہوگیا کہ ٹرک والا ایک دم مجھے پانچ سو روپے کیوں دے رہا ہے؟ اس شک کی بنیاد پر میں ٹرک کی پچھلی سائیڈ پر چڑھ گیا، دیکھا تو اوپر ٹرک میں بوریاں پڑی ہوئی ہیں، جو گننے پر چالیس تھیں اور ہر بوری میں بڑی الائچی ہے۔ ٹرک میں ذبح شدہ چار ہرن اور دیسی گھی کے آٹھ ٹین بھی پڑے ہوئے ہیں۔“
میں نے نواز کے ہاتھوں میں
بڑی الائچی دیکھی تو فوری طور پر اٹھا اور ٹرک کی جانب چل پڑا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے
کوئی شخص مجھے آتا دیکھ کر ٹرک سے اترا ہے اور رینجرز ہیڈ کوارٹر جو قریب ہی تھا کی
طرف جا رہا ہے۔ میں نے ہیڈ کانسٹیبل محمد یوسف اور نواز کجلا کانسٹیبل کو اس مشکوک
شخص کو پکڑنے کے لیے کہا، وہ دونوں موٹرسائیکل پر بیٹھ کر مشکوک شخص کی گرفتاری کے لیے چلے
گئے تو میں محمد حیات کانسٹیبل کے ساتھ ٹرک کی طرف لپکا تاکہ اس پر بیٹھے ہوئے باقی
افراد فرار نہ ہو سکیں۔ ہم نے ٹرک میں بیٹھے ڈرائیور اور دوسرے شخص کو قابو میں کرلیا۔
کافی دیر ہوگئی مگر ہیڈ کانسٹیبل
محمد یوسف اور نواز کجلا واپس نہ آئے تو میں نے ٹرک ڈرائیور اور دوسرے شخص کو محمد
حیات کانسٹیبل کے حوالے کیا اور خود دوسرے موٹرسائیکل پر بیٹھ کر رینجرز ہیڈ کوارٹر
کی طرف گیا۔ اندھیری رات تھی، چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا، محمد یوسف ہیڈ کانسٹیبل اور
نواز کجلا کانسٹیبل موٹرسائیکل کی روشنی میں وہاں پہنچ گئے۔ میرے پاس ٹارچ تھی، میں
نے ٹارچ نواز کجلا کو دی، کافی تلاش کے بعد ہمیں تھوڑی دور ایک بڑی جھاڑی میں مشکوک
شخص مل گیا۔ اس مشکوک شخص کو پکڑ کر کڈو والا چوک (Kido Wala Chowk) میں لے آئے جہاں پر ٹرک اور باقی ملزمان
موجود تھے۔ پوچھنے پر اس نے اپنا نام اکبر عرف گوگی بٹ سکنہ قلعہ گوجر سنگھ لاہور بتایا۔
پہلے تو گوگی بٹ یہ ماننے سے انکار کرتا رہا کہ ٹرک میں موجود الائچی کی بوریاں اور
دیگر سامان اس کا ہے، مگر تھوڑی سی سختی کی گئی تو اس نے بتایا کہ ”یہ الائچیاں انڈیا
سے اسمگل ہو کر آئی ہیں۔ پہلے یہ الائچیاں انڈیا سے رینجرز کے اہلکار دو ٹرکوں میں
لاد کر لائے اور پھر انھیں یزمان سے دس کلومیٹر دور چوہدری شوکت رندھاوا کے ڈیرے پر رینجرز
کے ٹرکوں سے اتار کر اس ٹرک میں لادا گیا۔ اس میں رینجرز کے اہلکار و افسران اور چوہدری
شوکت رندھاوا بھی ملوث ہے۔ آپ اس پھڈے میں نہ پڑیں اور مجھے جانے دیں، اگر آپ میرا
ٹرک اور دیگر سامان چھوڑ دیں تو میں آپ کو ایک لاکھ روپے دے سکتا ہوں۔ چالیس ہزار ابھی
میرے پاس ہیں، جبکہ بقایا ساٹھ ہزار صبح آپ کو پہنچا دوں گا۔ آپ بہاولپور میں جس کسی کی
بھی ضمانت لینا چاہیں دلوا سکتا ہوں۔“
نواز کجلا نے میرے منہ کی
طرف دیکھا اور کہنے لگا ”سر! لے لیں، ایک لاکھ روپیہ بہت بڑی رقم ہے۔“ ایک لمحے کے
لیے میرے دل میں خیال آیا کیوں نہ ایک لاکھ لے لیا جائے۔ اس وقت کوئی ہمیں نہیں دیکھ
رہا، کیوں کہ میں پولیس میں نیا تھا، ملک کی خدمت اور ایمان داری کا جذبہ ابھی زندہ
تھا، تو میں نے نواز کجلا کو کہا کہ ”نہیں، میں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی۔“ میں
نے چوہدری یوسف ہیڈ کانسٹیبل کو اشارہ کیا تو اس نے ایک زوردار تھپڑ گوگی بٹ کے منہ
پر مارا، اسے ایک موٹی سی گالی دی، گوگی بٹ بولا ”سر! مجھے گالیاں نہ دیں۔ میں نے کوئی
غلط کام نہیں کیا۔ میں یہاں سے منشیات (افیون) وغیرہ انڈیا بھجواتا ہوں اور اس کے بدلے
وہاں سے بڑی الائچی، چھوٹی الائچی و دیگر اجناس منگواتا ہوں۔ اس میں انڈیا کی بارڈر
فورس اور ہماری رینجرز فورس کے اہلکار دونوں ملوث ہیں۔“ میں نے اس کی ایک لاکھ والی
پیش کش ٹھکرا دی اور یہ سوچا کہ جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا۔ یہ ہمارے ملک اور قوم کا
دشمن ہے اور ہمارے اداروں کا نام بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے معاف نہیں کرنا
چاہیے۔
میں الائچی کا بھرا ہوا ٹرک، ذبح شدہ ہرن، دیسی گھی اور ملزمان اکبر بٹ وغیرہ کو لے کر تھانے آیا۔ ایس ایچ او صاحب کو بہ
ذریعہ ٹیلی فون بتانے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ کیوں کہ ٹیلی فون ایکسچینج
شام آٹھ بجے کے بعد بند ہو جاتی تھی۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ان کی رہائش گاہ پر جا
کر ان کو حالات بتاؤں کیوں کہ میرے لیے سب کچھ نیا تھا۔ اچانک تھانے کے گیٹ پر ڈیزرٹ
رینجرز یزمان کی گاڑی آ کر رکی جس میں سے رینجرز حوالدار اور دو تین مسلح جوان اتر
کر تھانے کے اندر آگئے اور کہا کہ ”میجر صاحب کا حکم ہے کہ آپ اس ٹرک اور اکبر بٹ کو
چھوڑ دیں۔“ میں نے کہا کہ ”میرے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ اسمگلر ہیں، میں اس کو نہیں
چھوڑ سکتا۔ اس پر یعقوب حوالدار مجھے دھمکیاں دیتا ہوا چلا گیا۔ میں حوالدار محمد یعقوب
کی دھمکیوں سے پریشان ہو گیا۔ میں نے بہتر سمجھا کہ فوری طور پر ایس ایچ او کو تمام
حالات سے آگاہ کروں تاکہ وہ خود ہی افسران بالا کو بتائیں۔
میں نے موٹرسائیکل نکالا
اور ایس ایچ او صاحب کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ ساتھ ہی میں بار بار سوچ
رہا تھا کہ اکبر بٹ بالکل صحیح تھا اور میں اس سوچ میں گم ایس ایچ او کے گھر کے باہر
پہنچ گیا۔ ایس ایچ او صاحب سوئے ہوئے تھے، کافی دیر بیل بجانے کے بعد وہ باہر آئے۔
میں نے تمام حالات سے انھیں آگاہ کیا، وہ کہنے لگے کہ ”پریشانی کی کوئی بات نہیں“ اور
میرے ساتھ اپنی گاڑی پر تھانے آگئے۔ اس وقت صبح ہو چکی تھی، کیوں کہ اس میں رینجرز
کے افسران اور اہلکار بھی ملوث تھے لہٰذا ایس ایس پی رانا مقبول کو بھی ایس ایچ او
نے تمام حالات سے آگاہ کیا۔ ایس ایس پی رانا مقبول نے مجھے بہ ذریعہ ٹیلی فون شاباش
دی اور کہا کہ ”آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ میں یزمان آ کر آپ کو انعام دوں گا۔
“ ایس ایچ او کو حقائق کے مطابق مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔ میرے پاس اکبر بٹ کی جامع
تلاشی لیے جانے کے بعد مبلغ چالیس ہزار روپے، گھڑی و دیگر اشیا تھیں، وہ بھی ایس ایچ او صاحب کے حوالے
کردیں۔ ایف آئی آر زیر دفعہ 156 لینڈ کسٹم ایکٹ درج ہوگئی۔ اس میں چوہدری شوکت رندھاوا،
رینجرز حوالدار محمد یعقوب اور میجر محمد شریف کا نام بھی درج تھا۔ اگلے روز اکبر عرف
گوگی بٹ، ٹرک ڈرائیور عمران، ہیلپر ڈرائیور امیر محمد کا مجسٹریٹ نے دو دن کا ریمانڈ
دے دیا۔ شوکت رندھاوا نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا لی کیوں کہ رینجرز کے ملازمین کو
گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لہٰذا ان کے خلاف ایک مراسلہ ایس ایس پی صاحب سے لکھوا کر
رینجرز ہیڈ کوارٹر بھجوا دیا گیا۔ اس دوران مجھے رینجرز کے ملازمین کی جانب سے دھمکیاں
موصول ہوتی رہیں۔
ملزم اکبر عرف گوگی بٹ کے
ریمانڈ ختم ہونے سے ایک دن قبل شام کو ایس ایس پی رانا مقبول صاحب کی ایس ایچ او کو
کال آئی، کل وہ صحافیوں کے ہمراہ تھانے آئیں گے اور کھلی کچہری بھی کریں گے۔ اگلے دن
ملزم کو ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے دوبارہ بہاولپور عدالت بھجوایا گیا۔ ملزم ابھی بہاولپور
میں ہی تھا۔ ایس ایس پی رانا مقبول صحافیوں کے ہمراہ تھانہ یزمان پہنچ گئے۔ وہ صحافیوں
کو لے کر سیدھے حوالات تھانہ کی طرف گئے، مگر وہاں ملزمان اکبر عرف گوگی بٹ موجود نہ
تھا جس پر ایس ایچ او سے شدید ناراضگی کا اظہار کیا بعد میں کھلی کچہری ہوئی جس میں
مجھے ایک ہزار روپے نقد انعام اور سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ میرے لیے یہ ایک ہزار اس ایک لاکھ
روپے سے کہیں زیادہ بہتر تھا جو میں نے ٹھکرا دیا تھا۔
ان دنوں ہمارے حلقہ افسر
اے ایس پی سلیم اے صدیقی ہوتے تھے جن کا تعلق صوبہ سندھ سے تھا۔ اگلے روز انھوں نے
مجھے اپنے دفتر بہاولپور بلوایا اور بولے ”مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ ایک نہیں دو ٹرک
تھے۔ ایک ٹرک آپ نے رشوت لے کر چھوڑ دیا ہے جبکہ دوسرے ٹرک کا مقدمہ آپ نے درج کردیا
ہے۔“ میں نے جواباً اے ایس پی کو کہا کہ ”سر! اگر میں نے رشوت لے کر ٹرک چھوڑنا ہی
تھا تو پھر دونوں ٹرک چھوڑ دیتا۔ آپ بے شک اس بات کی انکوائری کروا لیں۔“
مجھے اے ایس پی کے رویے سے
صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ میری بات کا یقین نہیں کر رہے اور میری انکوائری شروع کرا
دی گئی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیسے افسر ہیں، میں نے اچھا کام کیا، اس کے
بدلے میں مجھے یہ صلہ مل رہا ہے۔ کیوں نہ ایک لاکھ لے لیتا تو بہتر ہوتا۔ اس مقدمے
کے درج ہونے کے بعد رینجرز اور سیاست دانوں کی طرف سے مجھے ہراساں کرنے کی کوشش بھی
کی جاتی رہی۔ بعد میں جب (یزمان کیس) ہوا تو اس میں بھی ان لوگوں نے مجھ پر اپنی خوب
بھڑاس نکالی۔ مقدمہ چالان ہو گیا لیکن بعد میں پتا چلا کہ (نامعلوم وجوہات) کی بنا
پر سب ملزمان بری ہوگئے۔
واہ جناب۔
جواب دیںحذف کریںدل چسپ اور عمدہ۔
اچھا سلسلہ ہے۔