غزل




پرانی آج تم سے پھر رفاقت یاد آئی ہے
تمہارے دور جانے سے محبت یاد آئی ہے
لگا میلہ مری آنکھوں میں اشکوں کی روانی کا
فسانے میں نہاں رمز ِ حقیقت یاد آئی ہے
خدا کو بھول جانا میری فطرت میں نہیں شامل
مجھے ہر مرحلے میں اُس کی قدرت یاد آئی ہے
تمہیں ہم کیا گریباں جھانکنے کا مشورہ دیتے
ہمیں اپنی خطاؤں پر ندامت یاد آئی ہے
میں دنیا چھوڑ جاؤں گا کسی دن دیکھ لے گا تو
تری دنیا سے بھی آگے کی ہجرت یاد آئی ہے
تری بستی میں لاشوں کا یہ ملبہ دیکھ کر ساگر
ہمیں قبلِ قیامت اک قیامت یاد آئی ہے

1 تبصرہ: