جان کاشمیری کا نعتیہ شعری اسلوب
صدام ساگر
عقیدت کے حصار میں لفظ جذبوں کے سامنے بے بس سے دکھائی دیتے
ہیں۔ جب مدحت سرکارِ دو عالم کی بات ہوتی ہے تو آپ کے شایانِ شان الفاظ کا تلاش کرنا
اور اُنہیں ایک تسبیح کی مانند پرونا بہت مشکل کام ہیں۔ نعت کا معاملہ عقیدت ومحبت
اپنی جگہ برحق لیکن اصل معاملہ احتیاط بلکہ انتہائی احتیاط کا ہے۔ یہاں قلم میں سیاہی
نہیں دل کی دھڑکنوں اور روح کی پاکیزگی کو اندیلنا پڑتا ہے،کیونکہ نعت حضور کی شاعرانہ
توصیف کا نام نہیں ہے بلکہ نبوت کے کمالات کی ایسی تصویر کشی کا نام ہے جس سے ایمان
میں تازگی اور روح میں بالیدگی پیدا ہو سکے اور یہ بالیدگی اُسی وقت مقرر کر رکھی ہے
جس کی پابندی لازمی ہے۔عہدحاضر کے معروف شاعر جان کاشمیری ان تمام تر باتوں سے بخوبی
آگہی رکھتے ہوئے۔
اپنے کرم سے مالکا!اتنی رسائی دے |
آنکھیں کروں جو بند مدینہ دکھائی دے |
”سرمایہ نجات“ جان
کاشمیری کے پاکیزہ جذبوں سے سجا ہُوا ایک ایسا شعری مجموعہ ہے، جس میں ایسے مطلعے بہت
سی نعتوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں جس میں ذوق و شوق، سوز و گداز، عشق و محبت اور عقیدت
کی ایسی کیفیات ملتی ہیں کہ پڑھنے والا بے خودی اور سرشاری کے عالم میں کھونے کی بجائے
درمصطفی کو اپنے خواب کی تعبیر بناتا ہے۔ جان کاشمیری بھی ایسے ہی روشن خواب کی تعبیر
تک رسائی چاہتے ہوئے اللہ کا گھر بیت اللہ اور درِ مصطفی کی زیارت کے طلب گار نظر آتے
ہیں۔ ایسے میں وہ جب نعت کے پاکیزہ عمل سے گزرتے ہیں تو ان کے کلام میں دلکشی،مٹھاس
اور تازگی بھر جاتی ہے۔
آب ایسی بھی کوئی دل کے نگینے میں ہو |
حمد مکے میں کہوں نعت مدینے میں ہو |
صرف الفاظ سے توصیف نہیں ہو سکتی |
کچھ نہ کچھ عشقِ محمد بھی تو سینے میں ہو |
جان کاشمیری کے نعتیہ اشعار میں روانی اور برجستگی بدرجہ
اتم پائی جاتی ہے۔ جس میں الفاظ کا دروبست خاص اہتمام کیا گیا ہے،وہ جس خوبصورت انداز
سے غزل کہتے ہیں اُس سے بھی زیادہ ہنر مندی کے ساتھ نعت کہتے ہیں۔ ان کے اس شعری مجموعہ
میں ۴۳
حمدوں اور ۸۳
عدد
نعتوں کے علاوہ ایک قطعہ اور چند نعتیہ فردیات شامل ہیں۔اس نعتیہ مجموعہ میں شامل کلام
کی انفرادیت یہ ہے کہ اسے تاریخ ادب میں پہلی بار بعنوان ترتیب دیا گیا ہے۔ان کی تمام
حمدونعت میں محاسنِ کلام کا خاص خیال رکھا گیا ہے اس لیے معانی سے قطع نظر،فنی پہلو
سے بھی ان کی حمدیں اور نعتیں،نعتیہ ادب کا ایک بیش بہا خزینہ ہیں۔
دل میرا بن گیا ہے انوار کا خزینہ |
اک آنکھ میں ہے مکہ اک آنکھ میں مدینہ |
”سرمایہ نجات“ کے
شاعر نے بعض حمدونعت کو نہایت سحر آفریں تجربے بھی کیے ہیں اور نعت کے مخصوص غزلیہ
پیٹرن میں رہ کر بعض جدتیں کی ہیں جن سے حمدونعت کے صوتی حُسن اور موسیقیت میں گراں
قدر اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ موصوف نے اس پہلو سے نئی ردیفوں کیساتھ ساتھ ایسے ہم قافیے
استعمال کرتے نظر آتے ہیں جس میں عام قاری کے بس کی بات نہیں۔ کیونکہ اُردو نعت میں یہ
تجربہ اس سے قبل میری نظر سے نہیں گزرا۔مثلاََ ایک حمد میں ردیف ”تیری کیا بات ہے“جسے
فشاں،جہاں جیسے عام فہم قافیوں کے ساتھ ڈبل ردیف میں استعمال کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک
اور حمد میں ردیف ”خیر الٰہی“ کو بھی دو بارخو،عدو اور رفو جیسے مشکل ترین قافیوں کے
ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
بندہ بند کینہ خُو ہے خیرالٰہی، خیر الٰہی |
جاؤں کہاں میں شہرِ عدو ہے خیر الٰہی، خیرالٰہی |
زخم بند کے بھر بھی گئے ہیں ڈوبنے والے تَر بھی گئے ہیں |
روح میں لیکن کارِ رفو ہے خیر الٰہی، خیرالٰہی |
مدحِ رسول میں لکھی ہوئی جن نعتوں میں ردیفوں کا استعمال
کیا ہے وہ تمام تر ردیفیں اُردو ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے۔”سرمایہ نجات“ کو انہوں
نے سرمایہ فکر کی بدولت ایک ایسا رنگ دیا ہے جو آج سے پہلے کئی نظر نہیں آتا۔ ان کے
نزدیک نعت وہ جذبہ رنگین ہے جو دل سے تپش، آنسوؤں سے روانی،نگاہوں سے کیف،روح سے بالیدگی
اور قلم سے پرِہُما کی جنبش سے کام لیا گیا ہے کیونکہ نعت لکھی نہیں جاتی بلکہ روح
القدس کی تائید سے وجود میں آتی ہے، تب جا کر ایسے اشعار وجود پاتے ہیں۔
حرف کاغذ پہ اُتاروں تو فرشتے چومیں |
یہ قرینہ بھی عقیدت کے قرینے میں ہو |
کہنے کو اور بھی بہت سی باتیں ہیں مگر جان کاشمیری کی عظیم
حمدونعت کے چند ردیفوں کے گوشوں کو اپنی استعادات کے مطابق اُجاگر کر سکاہوں ورنہ اس
پر تو ایک مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔مختصراََ کہوں گا کہ اگر نعت گو شعرا کے لیے منشور
نام کی کوئی شے ہو سکتی ہے تو وہ جان کاشمیری کا نعتیہ مجموعہ ”سرمایہ نجات“ہر ملت
مسلمہ کے فرد کے لیے ایک تحفہ ہے،کیونکہ”سرمایہ نجات“ میں شامل حمدونعت جیسا کلام کہنے
کے لیے جس گداز،اپنے عہدِ موجود کے جس شعور، جس احساسِ توازن،جس فکر ِ سلیم، جس وسعت
مطالعہ اور جس قادرالکلامی کی ضرورت ہے وہ ہر ایک اہل ِ سخن میں نہیں جو ان کے ہاں
موجود ہیں۔
بات کو مشاہدات سے آراستہ وپیراستہ کر کے دلیل کے ساتھ سمجھانے
کے کامیاب تجربات کے نمونے ان کے نعتیہ کلام میں کثرت سے میسر ہیں اور میری دعا ہے
کہ ان کا یہ کام ان کے لیے محشرمیں سرمایہ نجات ثابت ہوں۔
سرمایہ نجات ہے اللہ نبی کی بات |
داصل ایک بات ہے اللہ نبی کی بات |
اے جان جب بھی سوچا یہ کہنا پڑا مجھے |
ہر مرکزِ صفات ہے اللہ نبی کی بات |
کوئی تبصرے نہیں