ڈاکٹر حسن منظر اور لیو ٹالسٹائی
ایک نشست، گفتگو اور مکالمہ
ایسا ادیب جو لوگوں سے اس
لیے ملنا پسند نہیں کرتا کہ دوسرے افراد و ادیب اس کے پائے کے نہیں اس ادیب کے ادیب
ہونے میں ڈاؤٹ ہے یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے وہ اپنے پیشے سے مخلص نہیں!
میں صبح اٹھتا ہوں نماز اور
قرآن مجید کی تلاوت ”زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں بس قرآن پڑھا لکھا ہوں“ اور ان دنوں
مختلف تفاسیر پڑھتا ہوں پھر یہ اخبارات وغیرہ۔
میں نے زیادہ تر وہی کتابیں
مکمل پڑھیں جو مانگی ہوئی تھیں کہ انھیں واپس لوٹانا تھا جو خود خریدیں وہ اس لیے نہیں
پڑھ سکا کہ اپنی ہی ہیں، اب درمیان میں سے کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ لیتا ہوں کسی کتاب
کو مکمل کرنے کا ارادہ نہیں ہے اور طبیعت بھی!
نہیں! میرا پوتا تو نہیں
ہے اور بچوں، پوتیوں میں سے بھی کوئی اس جانب نہیں گیا ہے، دو بہنیں اس (ادب) جانب
کچھ مبذول ہیں والد صاحب کو انگلش لٹریچر بہت پسند تھا۔
(مسکراتے ہوئے) مجھے نہیں پتا میرے بعد میری کتابوں
کا کیا ہوگا!
ادبی حلقوں میں کم دکھتا
ہوں، میں نے ٹالسٹائی سے 3 چیزیں سیکھی ہیں جو کہ وہ زور دیتا ہے یعنی اس کا ایک کردار
ان تین چیزوں کو انسانی دشمن سمجھتا ہے۔
(1) غصہ: وہ غصہ نہیں جو کوئی
باپ اپنے بیٹے کو غلط کام سے روکنے کے لیے کرتا ہے بلکہ وہ غصہ جس میں آپ اپنا آپ کھو
دیتے ہیں۔
(2) لسٹ/ lust: وہ نہیں جو بیوی کو شوہر سے ہے۔
(3) بھوک: حد سے زیادہ کی طلب۔
ٹالسٹائی کے نزدیک یہ تین
چیزیں انسان کو ذلیل کرواتی ہیں۔ اسی طرح تین چیزیں/ اصول میرے ہیں، جس کی میں دعا
مانگتا ہوں کہ خدا مجھے اس سے بچائے۔
(1) شہرت (2) عزت کی لالچ کہ
مجھے کوئی بڑا رتبہ ملے اور لوگ جھک کر سلام کریں (3) دولت۔
میرا خیال ہے کہ کسی بھی
ادب میں لیو ٹالسٹائی کے ”جنگ اور امن“ کے پائے کا ناول نہیں ہے وہ اپنی جگہ ہے وہ
چیز کچھ ایسی ہے کہ جس کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر سوچا گیا ہے کہ اگر ایک آدمی نے رامائن،
مہا بھارت لکھی ہے جیسا کہ ایک آدمی کو اس کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک
آدمی کا کام نہیں ہے لیکن ٹالسٹائی کا ”جنگ اور امن“ پڑھتے ہوئے مجھے ہمیشہ تعجب ہوا
کہ یہ آدمی تھا یا کیا تھا؟ جس نے یہ لکھا اور 17 مرتبہ لکھا اور مطمئن نہیں ہوتا تھا،
میرا خیال ہے اتنی محنت سے کسی نے نہیں لکھا میرے لیے بڑا ناول یہی ہے۔
میں نے خود وقت نکال کر کوئی
کہانی افسانہ ایک دفعہ لکھا ہے زیادہ سے زیادہ یہ کیا ہے کہ کسی کتاب کے بعض حصے دوبارہ
لکھے ہیں کبھی ایک حصہ لکھا تو 50 سال کے بعد اس کا باقی حصہ لکھا، ایک دو تو ایسے
ہیں جنہیں 30، 40 برس پہلے شروع کیا تھا اور اب ان کے لیے کوشش کر رہا ہوں اور دعائیں
مانگتا ہوں کہ اس کے لیے مجھے زندہ مت رکھ لیکن اگر ہے زندگی تو اے اللہ اسے پورا کروا
دے کیونکہ اتنی محنت میں نہیں کر سکتا کوئی نہیں کر سکتا جتنی ٹالسٹائی نے اپنے ”جنگ
و امن“ کے لیے کی۔ گورکی، پریم چند جیسے تین چار مل کر ایسا ناول لکھ سکتے ہیں۔
ایک چیز میں آپ کو بتاؤں!
جب لوگ کسی ادیب کے بارے میں لکھتے ہیں تو اپنی پسند کا جو پوائنٹ ہے، اسے لاتے ہیں
اجاگر کرتے ہیں دوسرا پہلو بھول جاتے ہیں جیسے کہ لوگوں نے لکھا ہے کہ ٹالسٹائی عورتوں
کی آزادی کے خواہاں تھے وغیرہ! نہیں، بلکہ ایک مقام آتا ہے جہاں وہ اپنے ناول ڈرامہ نام (Kreutzer Sonata) میں اس تک کے مخالف ہو جاتے ہیں کہ ہاسپٹل میں لڑکیاں نرسیں
نہیں ہونی چاہئیں یعنی مردوں کے ہسپتال میں مرد ڈاکٹرز اور عورتوں میں عورتیں نرسیں۔
ٹالسٹائی آخری عمر میں مسلمان
ہو چکے تھے! آپ لوگ اگر ٹالسٹائی کے اوپر کام کریں آذربائیجان سے خط و کتابت کریں تو
آپ کو وہاں سے بہت کچھ مل سکتا ہے کیونکہ عیسائی دنیا میں بہت کچھ چھپایا گیا ہے، اسی
طرح لیو ٹالسٹائی کی ایک کتاب تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر وہ چھپ کر کہاں گئی؟
وہ ملتی نہیں ہے! یہ ایک ایسا کام ہے جس کی ذمہ داری لے لی جائے تو آپ ٹالسٹائی کو
بہتر طور پر جان سکتے ہیں۔
یعنی کہ (ٹالسٹائی) انسان
تھے فرشتہ نہیں تھے ان کی خوبی یہ تھی کہ اپنی روزی خود پیدا کرنا چاہتے تھے حالانکہ
بڑے زمین دار تھے انہوں نے موچی کا کام بھی کیا، ان کے بنائے جوتے کسی نے پہنے ہی نہیں
پھر ایک دن اینا کرینینا کی طرح اختتام میں نکل گئے اور بس!
نوٹ: مذکورہ باتیں محترم
ڈاکٹر حسن منظر صاحب (ستارہ امتیاز) کی جانب سے فقط جوابات ہیں سوالات ہمارے نا سمجھ
طالب علم ذہن کے مطابق تھے، اسی لیے انہیں ہٹا دیا ہے!
٭....٭....٭
آپ کا جو سوال تھا: آیا ایسا
ادیب جسے لوگوں سے ملنا پسند نہیں بہ وجہ ان امور کے کہ ملنے والا فرد ان کے برابر
کا یا ادبی نہیں ہے! اس حوالے مجھے ایک شعر یاد ہے آپ اسے محفوظ کرلیں:
ملیے اس شخص سے جو آدم ہووے
ناز اس کو کمال پر بہت کم
ہووے
ہو گرم سخن تو گرد آوے یک
خلق
خاموش رہے تو ایک عالم ہووے
(میر تقی میر: کلیات میر جلد دوم)
تھیسس کے حوالے سے جو بچے
بچیاں مجھے میسج کرتے ہیں، میں انھیں اپنے تئیں پوری کوشش کے ساتھ مواد فراہم کرتا
رہا ہوں مگر پھر بھی میرے حوالے سے وہ بہت کچھ ایسا جمع کر دیتے ہیں جس کا مجھے علم
ہی نہیں رہا ہے جیسے ایک مقالہ میرے پاس موجود ہے، جس میں میرے حوالے سے بچپن میں پیڑوں
پر چڑھنا، گلی ڈنڈا کھیلنا اور پتنگ بازی کو منسوب کیا گیا ہے اور پسندیدہ مشغلہ لکھا
گیا ہے اب اس سے میرا کیا کام؟ اسی طرح میری پہلی تنخواہ تھیسس میں 4000 روپے لکھی
گئی ہے اُس زمانے کے اعتبار سے میری پہلی تنخواہ کا چار ہزار ہونا یعنی آج کے چالیس
لاکھ بن جائیں (مسکراتے ہوئے)
چارلی چپلن کے حوالے سے میرا
کام جو مقبول ہوا اور بہت پسند بھی کیا گیا میں نے اسے بعد میں پھاڑ دیا تھا دراصل
چارلی چپلن پر پوری کتاب موجود ہے اس کتاب کے مطالعے کے بعد جو باتیں ذہن میں آئی تھیں
یا رہ گئی تھیں میں نے وہ لکھی تھیں، جو افسانے، مضامین وغیرہ میرے پروگرام پر فٹ نہیں
آتے انھیں میں ختم کر دیتا ہوں۔
اسرائیل یہ تین باتیں کسی
بھی صورت قبول و تسلیم نہیں کرتا ہے (1) کہ انھوں نے 60 یا 70 ہزار یہودی قتل کیے
(2) اس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں (3) کہ انھیں کہا جائے جہاں سے آئے ہو وہیں واپس چلے
جاؤ۔
(اس حوالے سے حسن منظر کا ایک مضمون بنام: ”انسانیت
کا تابوت“ بھی مطالعہ کیا جا سکتا ہے)
امر شاہد (بک کارنر جہلم)
سے اپنی کتاب کی اشاعت کے حوالے سے یہ معاہدہ طے پایا کہ وہ مجھے ہر کتاب کی اشاعت
پر 30 کاپیاں ارسال کریں گے۔
(پچھلا ادارہ ”نام محفوظ بہ صیغہ راز“ 10 کاپیوں
کے لیے بھی بہ مشکل راضی ہوئے تھے حالانکہ انھیں 4 دفعہ پروف ریڈنگ کر کے بارہا فائل
بنا کر بھیجنے میں مجھے کافی نقصان و دشواری بھی رہی) بہرحال اس دفعہ امر شاہد بک کارنر
جہلم سے میں نے کہا مجھے 30 کاپیوں کی ضرورت نہیں ہے البتہ آج اس کی تعداد بڑھا کر
40 کر دیں مگر ان 40 میں سے 10 کاپیاں مجھے بھیج دیں اور باقی 30 کاپیوں کی رقم یہاں
جناح ہسپتال میں بچوں کے کینسر وارڈ کو بھجوا دیں۔ ان بچوں کی چھوٹی سی دوائیاں بھی
کافی مہنگی آتی ہیں، مجھے میری کتاب سے اور کیا چاہیے بچوں کی دعا کافی ہے امر شاہد
کو بھی یہ بات پسند آئی اور وہ راضی ہوئے۔
(آپ تینوں سے بہت اچھی ملاقات اور کافی دیر خاموشی
کے بعد اچھی گفتگو رہی)
نوٹ: ہمارے تمام سوالات یہاں
جمع نہیں ہیں، مذکورہ تمام سطریں فقط مختلف سوالات کے جوابات اور باتیں ہیں جبکہ مکمل
انٹرویو جلد شائع ہو گا۔ (ان شاءاللہ)
کوئی تبصرے نہیں