بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غریب عوام

پاکستان میں مہنگائی کو سمجھنے کے لیے آپ کو صرف بیرونی وجوہات کو جیسے تیل مہنگا ہوگیا یا کوئی اور بیرونی جھٹکا آ گیا، صرف ان کو نہیں دیکھنا ہوا، آپ کو مہنگائی کے داخلی عناصر بھی سمجھنے پڑتے ہیں۔

مہنگائی بڑھنے میں ایک اہم عنصر جسے ہمیں دیکھنا ہوگا وہ ہے ”منی سپلائی“ یعنی پیسے کی رسد یا مارکیٹ میں روپے کی موجودگی۔

حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں تین سے چار ٹریلین روپے اپنی معیشت میں متعارف کروا دیے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھا جانا ضروری ہے کہ ملک کی ایگریگیٹ سپلائی (مجموعی رسد) وہ اس اضافے پر کیا ردعمل دکھاتی ہے۔ ایگریگیٹ سپلائی یعنی مجموعی رسد معیشت میں کسی بھی مصنوعات یا سروس کی طلب کو پورا کرنے کی صلاحیت کو کہا جاتا ہے۔آپ گاڑی لیں ہے یا کھانے پینے کی اشیا، معیشت کے ذریعے فراہم کردہ اشیا کو مجموعی طور پر ایگریگیٹ سپلائی کا نام دیا جاتا ہے۔ حکومت نے معیشت میں پیسے کی رسد بڑھا کر قوتِ خرید تو بڑھا دی لیکن دوسری جانب پاکستان میں اشیا کی طلب پورا کرنے کی صلاحیت کو اتنا نہیں بڑھایا جس کی وجہ سے حکومت کا یہ اقدام مہنگائی کو بڑھانے کی وجہ بنتا ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کے باعث ہر شخص پریشان ہے۔ سب کہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہونی چاہیے مگر جہاں اپنی بات آتی ہے تو ہر انسان پہلے اپنے فائدے کو مدنظر رکھتا ہے۔ دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ ہم اپنے لیے تو ایسا چاہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو جائے، لیکن دوسرے کے لیے ایسا نہیں سوچتے، ہر شخص کہتا ہے کہ میں کیا کروں، مہنگی خریدی ہوئی چیز کیسے سستی فروخت کروں؟ جس کو دیکھو کوئی نہ کوئی بہانہ کرکے مہنگائی بڑھنے کا عذر تراش رہا ہے۔ مہنگائی کرنے والے ہر شخص کے پاس کوئی نہ کوئی جواز ضرور ہوتا ہے۔

یہ حالات صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں ہیں۔ اگر ایک جانب تنخواہوں میں دس فی صد کا اضافہ ہوتا ہے تو وہیں دوسری جانب مہنگائی کی شرح میں ستر فی صد کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ لوگ اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کر پاتے۔ ہم اپنے معمولات زندگی میں تبدیلی نہیں لانا چاہتے۔ حکومت اپنا جواز دیتی ہے جبکہ عوام کی جانب سے الگ جواز دیا جاتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے مفاد میں نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید کی جارہی ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک میں جائیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہر آدمی ایک دوسرے کو اس مہنگائی کا الزام دیتا نظر آتا ہے مگر یہ کب تک چلے گا؟حکمرانوں کو یہ سوچنا پڑے گا کہ مہنگائی کے مسائل کا حل بند کمروں میں بیٹھ کر نہیں نکالا جاسکتا، نہ ہی آئی ایم ایف کی شرائط مان لینے سے ان مسائل کا حل نکلے گا۔ ساری دنیا نے مختلف ادارے بنائے، انسانی حالات کو بہتر کرنے کے لیے اداروں کو قائم کیا گیا تاہم انھی اداروں نے حالات کو بد سے بد تر کردیا۔

آئی ایم ایف کی مثال لے لیں تو وہ یہ چاہتا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ کیا بجلی کی قیمت بڑھا کر عام آدمی کے لیے مہنگائی کم کی جا سکے گی؟ کیا پاکستان میں تجارت فروغ پا سکے گی؟ کیا کارخنہ دار اپنی اشیا سستی فروخت کر سکیں گے؟ ان تمام سوالات کا جواب شاید آئی ایم ایف کے پاس بھی نہیں یا وہ جواب دینا نہیں چاہتے اور اپنی شرائط منوانے پر تلے ہوئے ہیں، جیسا کہ ایک سود خور کسی کو قرض دیتے وقت اس کی جائیداد اپنے پاس گروی رکھوا لیتا ہے اور اس شخص کی مجبوری پر نہ رحم کرتا ہے نہ ہی اس کے بارے میں سوچتا ہے۔

دوسری جانب آئی ایم ایف کو گیس کی قیمتوں میں اضافہ چاہیے۔ کیا گیس کی قیمتوں میں اضافے سے غریب لوگ جو اپنا چولہا جلا رہے ہیں، کم آمدنی کے باوجود کیا ان کا چولہا جلتا رہے گا؟ کیا آئی ایم ایف کو نہیں پتا کہ پاکستانی عوام کس غربت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟ اور ایک پاکستانی کی روز کی آمدنی اتنی ہے جس سے وہ بہت ہی مشکل سے ایک وقت کا کھانا کھا پاتا ہے۔ آئی ایم ایف یہ نہیں سوچ رہا کہ عوام اس وقت آسائشیں نہیں مانگ رہے، صرف 3 وقت کا کھانا چاہتے ہیں، اپنا اور اپنے بچوں کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں، مگر ان حالات میں وہ بھی میسر نہیں۔

آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ٹیکسز بڑھا دے، خاص طور پر جی ایس ٹی۔ ہر غریب جو 100 روپے کی چیز خریدتا ہے، اس کے اوپر18 روپے وہ ٹیکس کے لیے ادا کرتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنے گھر میں راشن کی مد میں 10 ہزار روپے کی رقم خرچ کرتا ہے، اس پر 1800روپے حکومت کو چلے جاتے ہیں۔ ٹیکس کی شرح میں صرف ایک فیصد اضافے سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، امیر غریب کے روز مرہ استعمال کی ہر چیز ان کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہے۔کیا آئی ایم ایف کو یہ نہیں پتہ ؟ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ڈالر کی خریدوفروخت کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ کیا آئی ایم ایف کے علم میں نہیں کہ جو لوگ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ صرف اس لیے تاکہ ڈالر کی قلت پیدا ہو اور پھر اس کی قیمت میں مزید اضافہ کا مطالبہ کیا جاسکے۔

یہ بات تو سچ ہے کہ ہر غیر قانونی کام قانونی طریقے سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ ہو، فاریکس ڈالر مارکیٹ ہو یا اناج کی مارکیٹ میں خریدوفروخت ہو، سب میں آج کل سٹہ بازی کرنے والے منافع خور مہنگائی کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ7 7سالوں سے ہر حکومت کے اداروں کے ساتھی بن چکے ہیں، جبھی پاکستان میں اور دیگر ملکوں میں مخصوص امیر گھرانے ہیں جو ہمیشہ امیر رہتے ہیں اور وہی گھرانے بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک اور حکومتی عہدیداروں کے ساتھی ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں مہنگائی کی بڑی وجہ بینک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں لیکن اس پر کوئی بحث نہیں کی جاتی۔ قانون کا سہارا لے کر یہ لوگوں کو خاموش کروا دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بینکاری پر سود کو ختم کرکے پاکستان میں اسلامک بینکنگ کا نظام رائج کرنے کا حکم دیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پرانی چیز پر نیا ٹیگ لگا کر فروخت کرنے والوں کی طرح ہم اس پرانے سودی نظام سے چھٹکارہ پا کر اسلامک بینکاری کی طرف گامزن ہو سکیں گے؟

مہنگائی ختم کرنے کے دعویدار جو فائیو اسٹارز ہوٹلز میں عشائیے اور مختلف تقریبات منعقد کرکے مہنگائی کو ختم کرنے کے دعوے کر رہے ہوتے ہیں، یہ سب بھی محض دکھاوا بن کر رہ گیا ہے۔ ہر ایوارڈ دینے والا آرگنائزر ایوارڈ لینے والے سے 10 ہزار سے 10 لاکھ تک کا اشتہار چاہتا ہے اور پھر اسے ایک عالیشان ہوٹل میں بلا کر وہ ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ میرا سوال انھی لوگوں سے ہے کہ جو اشتہار دے کر اپنے لیے ایوارڈ خریدتے ہیں وہ نہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں بلکہ عوام کو بھی دھوکے میں رکھ رہے ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے معیشت تبدیل کرنے کے دعویدار ماہرِ معاشیات کے چند مخصوص لوگ گزشتہ 77 سال سے حکومت میں آ کر کام کر رہے ہیں اور ہر بار یہی سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان  قرضے لینے پر مجبور ہے،آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہونے کے بعد غربت میں کمی ممکن نہیں۔

ماہرِ معاشیات اس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے مخصوص ذرائع کے مطابق ایسے منصوبے بنائے جو انسان کے کاروبار اور ملک کو کامیابی کی طرف لے کر چلے۔ ذرا سوچیے گا کہ مہنگائی ختم کرنے میں آپ نے کتنا حصہ ڈالا اور حکومت نے کتنا؟ اور ایک دوسرے پر الزام لگانا بند کردیں۔ نہ مہنگائی کا کوئی جواز بیان کریں۔ صرف مہنگائی کو ختم کریں۔ ہمیں خود چیزوں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا مہنگائی کے خلاف لڑنا ہوگا۔

کوئی تبصرے نہیں