نواب بہادر یار جنگ کی79ویں برسی، ایک پروقار تقریب



)رپورٹ:مسعود اصغر کمالی(

قائد اعظم کے پرخلوص ساتھی لسان الامت نواب بہادر یار جنگ ایک سچے مسلمان، مفسر قرآن، عاشق رسولﷺ، مصلح قوم، تحریک پاکستان کے عظیم رہبر و رہنما کی 79 ویں برسی کے موقع پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد بہادر یار جنگ اکادمی کے احمد علی ہال میں کیا گیا۔

نواب بہادر یار جنگ کی رحلت پر قائد اعظم نے ان الفاظ میں آپ کو شاندار خراج تحسین پیش کیا کہ ” نواب بہادر یار جنگ میرے عزیز دوست تھے اور ان کی موت میرے لیے ایک جاں گداز صدمہ ہے۔ نواب مرحوم مومن صادق تھے اور اسلام کے بہت بڑے داعی انہوں نے اسلام اور مسلمانوں ہند کی زریں خدمات انجام دیں تاریخ ان کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی وہ ہمارے لیے قدرت کا بیش بہا عطیہ تھے۔

تقریب کی صدارت ڈاکٹر جعفر احمد نے کی، تعارفی کلمات ڈاکٹر سید وسیم الدین صدر اکادمی نے ادا کیے۔ ممتاز محقق محمد حمزہ فاروقی پروفیسر سلیم مغل ڈاکٹر پروفیسر ثمر سلطانہ نے اظہار خیال کیا۔

نواب بہادر یار جنگ ارادے کے پکے، مخلص، خدا ترس مجاہد اسلام تھے انہی خوبیوں کا کرشمہ تھا کہ انتہائی قلیل مدت میں مصلح قوم اور مسلمانان ہند کے رہبر و رہنما بن گئے، کوئی بھی مذہبی و قومی مجلس آپ کے بغیر نا مکمل رہتی جبکہ آپ نواب تھے اور نواب کے حوالے سے جو تاثر ذہن میں ابھرتا، آپ اس کے بالکل برعکس تھے۔ آپ بڑی دل نشین تقریر فرماتے۔ جامعہ علی گڑھ میں ان کی پہلی تقریر حیدرآباد دکن میں مسلمانوں کی سیاسی حیثیت اور دعویٰ ہائے اقتدار پر تھی دوران خطاب تاثیر کا دریا بہتا رہا اور ہر سامع اس بات پر متفق ہوگیا کہ یہ دعویٰ بالکل درست ہے، انھوں بخوبی اس کا دفاع کیا جس کی بڑی تحسین کی گئی۔ کٹھن سے کٹھن حالات میں مجمع کو قابو میں رکھنے والا شعلہ بیاں مقرر اور لیڈر اگر بہادر یار جنگ کو کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ آپ میں خاکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔



بہادر یار جنگ کی تقاریر میں فصاحت و بلاغت اور بدائع کے جواہر نمایاں تھے، آپ کی نثر شاعری کا نمونہ تھی۔ آپ کی تقاریر اسلامی تاریخ کی معلومات اقبال کے اشعار مولانا ابوالکلام کے الفاظ پر مشتمل ہوتی، اقبال کا بیشتر کلام آپ کے حافظے کے خزانے میں محفوظ تھا جسے وہ اپنی تقاریر میں بہت دل نشیں انداز میں شامل کرتے۔ مسلم لیگ اور اتحاد بین المسلمین کے جلسے آپ کی خطابت کے بغیر ادھورے تصور کیے جاتے۔ مرحوم کا ایک موضوع مذہب آمیز سیاست بھی ہوتا، ان پر منافقت پر مبنی دینی سیاست کا راز آشکار ہوچکا تھا یہی وجہ ہے کہ اگر بہادر یار جنگ نہ ہوتے تو حیدرآباد دکن کے نظم و نسق کا کچھ اور ہی نقشہ ہوگیا ہوتا اور تاریخ شاہد ہے کہ یہ مرحوم کا بہت بڑا فکری کارنامہ ہے، جس کی بناءپر آپ نے تکلیفیں بھی اٹھائیں، آپ پر پابندیاں بھی عائد ہوئیں مگر آپ نے ایثار کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا، یہاں تک کہ اپنے منصب سے بھی دستبردار ہونا منظور کیا، مگر دین ملک و ملت پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کیا اور آپ کی ہی بدولت اتحاد المسلمین نے ملت کی آواز کا رتبہ پایا۔

فجر کی نماز کے بعد نو بجے تک مسجد میں درس قرآن دیتے۔ اقبالیات کا شغف اتنا کہ ہفتے میں ایک دن اقبال کی کتابوں پر بھی درس ہوتا۔ آپ 1905 میں پیدا ہوئے، سدوزئی پٹھان تھے، آپ کے آبا و اجداد پہلے جے پور میں وارد ہوئے پھر حیدرآباد دکن میں آکر آباد ہوئے۔ آپ جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے جو انقلاب انگیز ہوتے ہیں۔25جون 1944 کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ مرحوم کی پر اثر گفتگو ہمیشہ علمی اور دینوی ہوتی۔ ریاست حیدرآباد دکن نے قیام پاکستان سے تعمیر پاکستان میں سماجی طور پر فلاحی طور پر ہی نہیں بلکہ مالی طور پر بھی اپنا زبردست کردار نبھایا جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ فن خطابت پر مرحوم رول ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔



تقریب کے اختتام پر نواب بہادر یار جنگ کی دعا شرکا محفل کو سنوائی گئی، بعدازاں اکادمی کے معتمد عمومی سید صبیح حسینی اور اراکین مجلس نظما نے مہمانان گرامی میں اکادمی کی تازہ مطبوعات تقسیم کیں۔ اختتامیہ تشکرانہ کلمات حمید بوزی نے ادا کیے، سید عبد الباسط نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

کوئی تبصرے نہیں