بلدیاتی انتخابات اور پاکستان پیپلز پارٹی کی کامیابی

برصغیر میں مقامی حکومتوں کا تصور انسانی تہذیب اور تاریخ جتنا پرانا ہے۔ ایسے حکومتی نظام کی موجودگی کے آثار قدیم شہروں جیسے موہن جو دڑو، ہڑپہ میں پائے گئے ہیں۔ اس قدیم حکومتی نظام میں فیصلہ سازی کے عمل میں دلائل، بحث، وضاحتیں پیش کرنے اور دیگر واقعاتی حقائق کو جانچ کر فیصلے کرنے کا رواج تھا۔ جدید ریاستی اداروں کی بنیاد خصوصاً بلدیاتی نظام نے انگریزوں کے دور حکومت میں اپنی مکمل شکل اختیار کر لی تھی۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں، تعلیم، صحت اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔

متحدہ ہندوستان کے پرانے بلدیاتی اداروں میں پہلا مدراس، (چنائی) 1688، ممبئی 1772، اور کراچی میونسپل کمیشن 1853 میں قائم ہوا جس کا نام 1933 میں کراچی میونسپل کارپوریشن رکھا گیا۔ اس بلدیاتی نظام کو قائم ہوئے پونے دو سو سال ہو گئے ہیں۔ 1846 میں انگریزوں کے ذریعے۔ مقامی حکومتی اداروں کی ابتدائی شکل کو ”بازار انتظامیہ“ کہا جاتا تھا۔ اس نظام کے تحت ہر گاؤں، قصبے یا شہر کو بازار کا علاقہ قرار دیا جاتا تھا اور وہاں پر ٹیکس اور خرچ کرنے کے لیے مقامی منتظمین کو مقرر کیا جاتا تھا۔ حکمرانوں نے سب سے پہلے زمینداروں، جاگیرداروں اور موروثی جائیداد کی بنیاد رکھی اور ٹیکسوں کی ایک شرح بھی مقرر کی۔

پاکستان نے اب تک مقامی حکومت کے نصف درجن مختلف ماڈلز پر تجربات کیے ہیں لیکن ایک بات جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہ تمام ماڈلز زیادہ مرکزیت پر مبنی ہیں۔ یہ اختیارات اوپر سے نیچے تک درج ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ کونسلرز سے لے کر چیئرمینوں تک کے انتخابات جمہوری طریقے سے ہوتے ہیں، ریاستی اداروں کے کنٹرول اور نگرانی کی وجہ سے ان کی خود مختاری ہمیشہ یکساں نہیں رہی۔ پاکستان کے قیام کے بعد فوجی آمر ایوب خان نے سب سے پہلے 1959 میں ”بنیادی جمہوریت“ کے نام سے ایک جامع اور شفاف بلدیاتی نظام قائم کیا۔ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے چاروں صوبوں کے لیے ”پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ“ بنایا، مگر اس قانون کے تحت ان کے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہو سکے تھے۔ جنرل ضیاالحق نے ایوب خان کے نظام میں ترامیم کر کے ایک نیا ماڈل تجویز کیا اور اپنے 11 سالہ آمرانہ دور میں 4 بار بلدیاتی انتخابات کرائے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی بلدیاتی انتخابات کروا کر اپنے اقتدار میں توسیع کی۔ پاکستان میں فوجی آمروں کے ذریعے کرائے گئے تمام بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی یعنی غیر سیاسی بنیادوں پر ہوئے لیکن 2015 سے ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات کرائے جا رہے ہیں، سندھ میں بلدیاتی انتخابات دو مرحلوں میں مکمل ہوئے۔ پہلا مرحلہ 2022 میں سندھ کے 14 اضلاع میں مکمل ہوا۔ لیکن ”تباہ کن بارشوں“ کی وجہ سے دوسرا مرحلہ کئی ماہ کے لیے ملتوی کر دیا گیا، آخری مرحلہ پورے سندھ میں 15 جون 2023 کو مکمل ہوا۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے موجودہ بلدیاتی نظام میں بھی کچھ تبدیلیاں کیں، جس میں کراچی شہر کے ٹاؤنز کی تعداد کو بڑھا کر 25 ٹاؤنز کر دیا گیا، کراچی کی 7 ضلعی کونسلیں ختم کر دی گئیں، سندھ کے 6 شہروں کے سربراہان سمیت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کو میئر اور ڈپٹی میئر کا عہدہ دیا گیا۔ سندھ میں پہلی بار معذوروں اور ہیجڑوں کے لیے مخصوص نشستوں کا اضافہ کیا گیا، جس کے ساتھ کونسلرز، چیئرمین، وائس چیئرمین، میئر، ڈپٹی میئر، ضلع کونسل کے اراکین، خواتین، مزدوروں، کسانوں کی نشستوں کی مجموعی تعداد پورے صوبے میں 21 ہزار 6 سو 57 ہو چکی ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے صوبے کی ضلعی، سٹی اور ٹاؤن کمیٹیوں اور یونین کونسلوں میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ سندھ کے تمام 22 اضلاع کی ضلعی کونسلوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین، چھ شہروں کراچی، حیدر آباد، میرپور خاص، نواب شاہ، لاڑکانہ اور سکھر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے میئر، ڈپٹی میئر نے 100 فیصد کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 143 ٹاؤن کمیٹیوں میں سے 125 پر کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ میونسپل کمیٹی پیر جو گوٹھ، مٹیاری میونسپل کمیٹی، ٹاؤن کمیٹی چونڈکو، ہنگورجا، پریالو، احمد پور، ڈوکری، باڈھ، لکھی غلام شاہ سے مسلم لیگ فنکشنل (جی ڈی اے) کامیاب ہوئی ہے، چھاچھرو ٹاؤن کمیٹی پر آزاد پینل کے چیئرمین اور وائس چیئرمین، سن ٹاؤن کمیٹی پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور ننگر پارکر ٹاؤن کمیٹی پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ خانپور ضلع شکارپور میں مجلس وحدت المسلمین کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کامیاب ہو گئے۔ تاہم مختلف وجوہات کی بنا پر ٹاؤن میونسپل کارپوریشن پریٹ آباد حیدر آباد، ٹاؤن کمیٹی بلڑی شاہ کریم، میونسپل کمیٹی میہڑ، ٹاؤن کمیٹی جام نواز علی ضلع سانگھڑ اور ٹاؤن کمیٹی میرپور ساکرو ضلع ٹھٹو کے چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب نہیں ہو سکے۔ پورے سندھ میں دو ٹاؤن کمیٹیوں ہنگورنو تعلقہ سندھڑی ضلع میرپورخاص کی چیئر پرسن رخسانہ شر اور ٹاؤن کمیٹی باندھی ضلع شہید بینظیر آباد کی چئیر پرسن مرینا کو منتخب کیا گیا ہے۔ اسی طرح ضلع کاؤنسل تھرپارکر کی وائس چیئر پرسن کملا بائی بھیل جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی لیڈیز ونگ ضلع تھرپارکر کی صدر بھی ہیں، مٹھی میونسپل کمیٹی کی وائس چیئر پرسن سمترا منجانی میگھواڑ، کپرو میونسپل کمیٹی کی وائس چیئر پرسن شاہین بانو قائم خانی اور تلہار ٹاؤن کمیٹی کی وائس چیئر پرسن زاہدہ کنبھر منتخب ہوئیں، ان تمام کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔

بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے صوبے میں ضلع کونسلوں کی سب سے زیادہ تعداد 920، یونین کونسل کے چیئرمین، وائس چیئرمین، ایک ہزار ایک سو96، براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوئے۔ جنرل کونسلر 5,329 جبکہ مخصوص نشستوں سے خواتین کی تعداد 3,305 ہے۔ 1,406 نوجوان، 1,471 کسان، 1,312 اقلیتیں، 218 معذور، ہیجڑے 173، میئر اور ڈپٹی میئر 12، ٹاؤن یونین کے چیئرمین اور وائس چیئرمین 215 منتخب ہوئے، جس کی کل تعداد 15,551 ہے یعنی پاکستان پیپلز پارٹی پورے سندھ کی یونین کونسل سے لے کر شہروں میں اپنے رہنماؤں اور پارٹی کارکنوں کو بلدیاتی نظام کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ سندھ میں دوسرے نمبر پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جے ڈی اے) کے پاس کل 1,349، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پاس 1,211، آزاد کے پاس 1,034، جماعت اسلامی کے پاس 1,081،جمعیت العلماءالسلام 440، ایم کیو ایم (پاکستان) کے 79، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے 74، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 72، تحریک لبیک پاکستان کے 61، مجلس وحدت المسلمین کے 13 اراکین منتخب ہوئے۔ جبکہ 692 نشستیں ابھی بھی خالی ہیں۔ جن مین خواتین کی 150 نشستیں، کسانوں اور مزدوروں کی 28 نشستیں، اقلیتوں کی 305 نشستیں، معذوروں کی 9 نشستیں، ہیجڑوں کی 57 نشستیں، اور 10 دیگر نشستیں خالی ہیں۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سندھ یونائیٹڈ پارٹی (ایس یو پی) نے سندھ کی قوم پرست جماعتوں میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جس میں ایک سن ٹاؤن کمیٹی، 4 یونین کونسلز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین، 4 ڈسٹرکٹ کونسل ممبران، 28 جنرل کونسلرز، 14 خواتین کی مخصوص نشستیں، 7 نوجوان، 7 کسان، 8 اقلیتی، ایک معذور یعنی پورے سندھ سے کل 74 افراد کامیاب ہوئے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے ضلع کونسل پر 18 کونسلرز، یونین کونسل پر 31 چیئرمین و وائس چیئرمین، جنرل کونسلرز 230، مخصوص نشستوں پر 75 خواتین، 31 نوجوان، کسان 41، اقلیتی14 کل 440 نشستوں پر کامیابی ملی ہے دیگر جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کے صرف 3 کونسلرز، قومی عوامی تحریک پاکستان (ایاز لطیف پلیجو) کے صرف 8 کونسلرز پورے سندھ سے، ترقی پسند پارٹی (غیر رجسٹرڈ) کے رہنما عبدالفتاح سمیجو ڈہرکی ٹاؤن کمیٹی سے آزاد حیثیت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ سندھ بھر میں قوم پرست جماعتیں کسی بھی یونین کونسل میں مکمل کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔ سندھ اسمبلی کی جانب سے غیر منتخب شخص کو میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین، وائس چیئرمین منتخب کرنے اور تین ماہ کے اندر براہ راست انتخابات کے ذریعے کامیاب کرنے کی قانونی حیثیت کے بعد کراچی کے میئر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب، میرپورخاص کے ڈپٹی میئر بلند جنید، سید قاسم نوید، ٹنڈو محمد خان کے ضلعی چیئرمین جو اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر برائے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اینڈ کامرس ہیں اور ٹاؤن کمیٹی پکا چانگ کے وائس چیئرمین ظفر خاصخیلی منتخب نہیں ہوئے، ان پر سندھ ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کر دی گئی ہے۔ جس کا فیصلہ آنا باقی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں