”ردِ عمل“ کے خوبصورت تخیل کا شاعر.... اکمل حنیف



تحریر: صدام ساگر

میری سانسوں میں چھپے ہر کرب کا
دے رہی ہے بانسری ردِ عمل
جو زمانے نے دیا اکمل مجھے
ہے اُسی کا شاعری ردِ عمل

 شاعری میں تخلیل کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کیوں کہ تخیل کے لیے ضروری نہیں کہ کسی نئی بات یا نئے خیال کو پیش کیا جائے بلکہ شاعر پرانی بات سے بھی کوئی نئی بات وجود میں لا سکتا ہے اور پرانے خیال کو جدید انداز میں پیش کر سکتا ہے اور شاعر اگر نئی بات یا انوکھا خیال پیش کر سکتا ہے تو اُس کی یہ ادا سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہے۔ جدید لب و لہجے کے شاعر اکمل حنیف کے شعری اسلوب کے ردِ عمل میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں نئی بات بھی کی ہے اور منفرد خیالات کو بھی پیش کیا ہے اور پرانی بات سے نئی بات کہنے کا ڈھنگ بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ہر شاعر کی طرح ان کی شاعری کا بنیادی موضوع بھی محبت ٹھہرا ہے۔ یہ محبت چاہے ماں باپ سے ہو، بہن بھائیوں سے، بیوی بچوں سے یا دنیا کی کسی بھی چیز سے ہو، یہ محبت انہیں انمول اور ہر عام و خاص میں ممتاز بنا دیتی ہے۔

ملوگ لوگوں سے ضرورت کے سبب ملتے ہیں
ایک ہم ہیں جو محبت کے سبب ملتے ہیں

محبت کے علاوہ بھی اکمل حنیف کی شاعری میں بہت سے پھول کھلتے ہیں جن کی خوشبو بھی الگ ہے اور رنگ بھی۔ وہ سیدھی سچی بات کرنے پر یقین رکھنے اور بے یقینی کے اس عالم میں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایسے معاشرے کا فرد ہے جہاں آنکھوں دیکھے حقائق پر آواز اُٹھانا گناہ یا جرم سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ ہمت، حوصلہ اور جرات سے آگے بڑھتے ہوئے ایسے لوگوں کی نفی کرتے ان جھوٹے مکار چہروں کا پردہ چاک کرنے میں دیر نہیں لگاتے، ان کے بعض اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمت ہارنے والے انسان نہیں اور نہ ہی کسی ظالم اور حاکم کے آگے سر جھکانے والے ہیں، ان کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ معاشرے کے اندر تمام خامیوں کا خاتمہ کیا جائے، ایسے عناصر کو پکڑا جائے جن کی وجہ سے معاشرے کا امن برباد ہوا، اُن کی شاعری میں معاشرے کا دکھ جا بجا دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ معاشرے میں انسانی قدروں کی پامالی پر ردِ عمل نہ صرف دیتا ہے بلکہ خود بھی اس ردِ عمل کی تعظیم کرتا ہے۔ فرحت عباس شاہ کے بقول ”اکمل حنیف کا ردِ عمل شاعری میں ڈھلتے ہوئے احتجاج کی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے اور یہ یقینا اس لیے ہے کہ وہ زندہ شاعر ہے ورنہ مردہ انسان ہو یا شاعر کبھی رد عمل دینے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔

بھول جاتا ہوں مسائل میں زمانے کے سبھی
اک غنیمت ہیں مرے دوست پرا نے والے

اسی غزل سے مزید دو اشعار ملاحظہ کیجیے:

میں غلط تھا جو تمہیں یار سمجھنے لگا تھا
ورنہ سب رنگ تھے تم میں بھی زمانے والے
کر چکے باپ کی تدفین ملازم گھر کے
سوچتے رہ گئے پردیس سے آنے والے

                کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ بہت سی چیزوں کا ردِ عمل فوری طور پر ہمارے سامنے آ جاتا ہے تو بعض چیزوں کا ردِ عمل کے لیے غور و فکر کرتے ہوئے اُن کے نتائج تک پہنچنے تک کئی مہینے،کئی سال لگ جاتے ہیں۔

 زیر ِ نظر اکمل حنیف کا اولین شعری مجموعہ ”ردِ عمل“ جس کے مطالعہ سے ہمیں ہر اُس چھوٹی سی چھوٹی بات کا ردِ عمل فوری مل جاتا ہے۔ باکمال شاعر، منفرد تنقید نگار نوید صادق اپنے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ”اکمل حنیف کا شعری سفر اپنی پوری آب و تاب سے جاری ہے، ان کے ہاں شعری وفور دیکھنے لائق ہے، ان کے اشعار قاری کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں اور مجھے پورا یقین ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کے تجربات و مشاہدات میں وسعت در آئے گی، ان کے شعری عقائد مزید پختگی کے حامل ہوں گے، اپنے قاری سے ان کا رشتہ مزید مضبوط ہو گا۔“ اس شعری مجموعے میں دیگر اہل دانش کی آراءبھی شامل ہیں جن میں نذیر قیصر، عباس تابش اور رائے عابد علی شامل ہیں۔

اکمل حنیف کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں کم عمری میں ہی فوک میوزک سننا پسند تھا، جب اکرم راہی اپنے عروج پر تھا تب انہیں اکرم راہی اور عطاءاللہ عیسیٰ خیلوی کے غمگین گانے سننا، اشکوں سے آنکھوں کو بھگونا، دل دھڑکنے کا سبب یاد آنا، کسی روٹھے کو منانا، کسی کی یاد میں کھو جانا، ساری رات تاروں سے باتیں کرنا، دن کی روشنی میں برگد کی ٹھنڈی چھاں ڈھونڈنا، ہر کسی سے دردِ دل چھپا کر چہرے پہ مسکان سجائے لوگوں سے ملنا سب اچھا لگتا تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود ہجر نہ ہونے کے باوجود بھی ہجر کی کیفیت میں مبتلا ہو کر غمگین ہونا ان کے اندر چھپے حساس انسان کا ردِ عمل تھا، جو ہمیں ان کے بعض اشعار میں نظر آتا ہے۔

سہولت دو مجھے دیوار کی تم
میں اپنے غم سنانا چاہتا ہوں

........

شامیں اُداس ہیں مری، دن بھی اُداس ہیں
موسم کسی کے ہجر کا دل میں ٹھہر گیا

........

جب تک یہ ترے رنج کے سائے نہیں جاتے
خوشیوں کے دیے ہم سے جلائے نہیں جاتے

........

ترے رتبے سے چھوٹے ہیں، بجا ہے
میاں! دل کے مگر چھوٹے نہیں ہیں

اکمل حنیف ایک شوخ چنچل مزاج آدمی دکھائی دیتا ہے لیکن ان کی طبیعت کو آج بھی غمگین شاعری اچھی لگتی ہے، اُس کے دل میں کئی چراغ دوسروں کی خوشی کے لیے روشن ہیں۔ وہ باہر کے سدا بہار موسم کی طرح اپنے اندر کے موسم کو زیادہ دیر اُداس نہیں رہنے دیتا، ان کے نزدیک اکرم راہی کے غمگین گیت سننا ایس ایم صادق کے لازوال گیت ہیں جنہوں نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ خود ایم اے صادق لکھنا شروع کر دیا، یوں ان کے شاعری میں پہلے روحانی اُستاد ایس ایم صادق ہی ٹھہرے، انہوں نے ساتویں کلاس میں چودہ سال کی کم عمری میں پہلا شعر اُردو میں کہا اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک جاری و ساری ہے۔ میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے باقاعدہ شعری کی اصلاح کے لیے کسی دوست کے توسط سے اے غفار پاشا مرحوم کی شاگردی اختیار کی اور علمِ عروض سیکھنے اُردو زبان میں نئے سرے سے شعر کہنے لگے۔

 ان کا اُردو سے زیادہ پنجابی کی طرف رحجان رہا اس طرح حلقہ احباب میں ان کی بطور پنجابی شاعر شناخت ہونے لگی۔ 1999 سے بورے والا میں اپنی پنجابی شاعری کے جھنڈے گاڑنے والا اکمل حنیف آخر کار 2005 میں ایم کام کی ڈگری کے سلسلے میں اولیاءکی سر زمین ملتان چلا آیا پھر یہاں سے شہر لاہور آگئے جہاں جاب، شادی اور خود کو سیٹل کرنے میں اتنے مگن ہوگئے کہ شاعری کی آمد ہوتی بھی تو مصروفیت کی وجہ سے کچھ نہ لکھ پاتے، رفتہ رفتہ شاعری سے دور ہوتے چلے گئے کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ ”شاعر لوگ اچھے نہیں ہوتے اس لیے مجھے اس قبیلے کا حصہ نہیں بننا۔

 چودہ سال شاعری سے دوری کے بعد اکمل حنیف اپنے دوست سجاد احمد سجاد کے مشورے پر دوبارہ شعر کہنے کی طرف راغب ہوئے۔ لاہور میں ان کا زیادہ تر وقت اپنے بزرگوں کی سرپرستی میں گزرا، جن کی صحبت سے انہوں نے تہذیب و تمدن اور زندگی کے وہ تمام گُر سیکھے جن کی بدولت وہ آج ایک کامیاب زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اے غفار پاشا مرحوم کی تربیت نے انہیں علمِ عروض پر اس قدر گرفت عطا کی کہ اب شعر وزن میں کہنا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔

آپ کا ہے فیض پاشا مجھ میں جاری آج بھی
لفظ آ جاتے ہیں خود ہی بحر کے اوزان پر

کوئی بھی انسان ماں کے پیٹ سے سیکھ کر تھوڑی آتا ہے، سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ اکمل حنیف فیس بُک اور واٹس اپ پر مختلف اردو گروپ میں شمولیت کے باعث اردو زبان میں شعر کہنے کی طرف رجوع ہوئے، لکھتے لکھتے آخر کار ”ردِ عمل“ کی صورت میں ان کا اردو شعری مجموعہ مکمل ہو کر اپنے قارئین اور اہلِ دانش کے ہاتھوں میں ہے۔ اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ”میرے اللہ کا سب سے بڑا کرم ہے مجھ پر، آج جو کچھ بھی ہو اپنے والدین کی دُعاں سے ہوں۔ میری نوے فیصد شاعری کی پہلی سامع میری شریکِ حیات جس نے زندگی کے سفر کے ساتھ ساتھ میرے ادبی سفر میں بھی میرا بھرپور ساتھ دیا۔ “اس کتاب کا انتساب والدین، شریک حیات اور بچوں کے نام ہیں۔

تھکن کافور ہو جاتی ہے دن بھر کی
مرے بچو! تمہارے مسکرانے سے

ردِ عمل“ میں باپ کے حوالے سے ایک شعر جو ذاتی طور پر مجھے بہت پسند ہے:

چھوٹے بچے خوش تھے مہماں دیکھ کر
گھر میں رکھا تھا جنازہ باپ کا

ردِ عمل“ اس سال کے بہترین اُردو کے شعری مجموعوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں ایک حمد، ایک نعت اور منقبت کے علاوہ غزلیں اور سات عدد موضوعاتی غزلیں جبکہ شہر ِ لاہور کے حوالے سے فردیات شامل ہیں۔ ان اشعار میں اکمل حنیف کی شہر لاہور سے ایک خاص محبت اور وابستگی کا اظہار ملتا ہے، جس کی تہذیب، تمدن اور روایات سے انہوں نے عشق کیا تھا، یہ اشعار ہمارے عہد میں تہذیبی تصورات، تمدنی اقدار اور شائستگی کی روایت کے زوال کا نوحہ بھی ہیں۔

جسے کبھی ہو نہ پائی لاہور سے محبت
گکرے گا پھر خاک وہ کسی اور سے محبت

مزید چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

کاٹ ڈالو مری شاخوں کو مگر دھیان رہے
تم نے اک عمر گزاری ہے مرے سائے میں

........

اپنے بچوں سے بڑھ کے پالے ہیں
میں نے اکمل نبی کی آل کے دُکھ

........

جس سے جیسا بھی تعلق ہو نبھائے اکمل
گھر میں دشمن کی بھی تصویر لگائی اُس نے

کوئی تبصرے نہیں