پاکستان کا تجارتی خسارہ، وجوہات و تدارک



سال 2021-22 میں پاکستان کا تجارتی خسارہ تقریباً 50 ارب ڈالر تھا یعنی برآمدات 31 ارب ڈالر اور درآمدات 80 ارب ڈالر کی تھیں۔ آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری آمدن 30 ارب ڈالر تھی اور ہمیں 80 ارب ڈالر ادا کرنے تھے۔ یہ صورتحال تقریباً ہر سال ہمیں پیش آتی ہے اور ڈالر کا عدم توازن ہمیں بھاری قرضوں کی طرف دھکیل دیتا ہے جس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور قرض حاصل کرنے کے لیے اس کی تمام شرائط ماننی پڑتی ہیں۔ آج کی بحث میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ اس گھمبیر صورتحال کی اصل وجہ کیا ہے۔ ہمارا توازن ادائیگی ہمیشہ کیوں خراب رہتا ہے۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آج کی یہ بحث عام قارئین کرام کے لیے ہے۔ میری یہ کوشش ہے کہ عام پاکستانی یہ جان لے کہ ہم اس منحوس شکنجے میں کیوں دھنسے ہوئے ہیں۔ کیا اس کی وجہ وہی ہے جو ہمیں بتائی جاتی ہے یا کچھ اور ہے۔ نیز اس صورتحال سے نکلنے کی کوئی سبیل ہے یا نہیں۔ سب سے پہلے ہم اپنی درآمدات اور برآمدات کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں درآمدات جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ سال 2021-22 میں پاکستان کی درآمدات 80 ارب ڈالر سے زائد تھیں جبکہ برآمدات صرف 31 ارب ڈالر رہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی ملک کی درآمدات کا برآمدات سے زیادہ ہو نا کیا واقعی نقصان دہ ہوتا ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ درآمدات کس نوعیت کی ہیں۔ ہم عموماً درآمدات کو 2 بڑی کیٹگریز میں تقسیم کرتے ہیں۔ اشیاءصرف اور اشیاءسرمایہ کاری۔ اشیاءصرف سے مراد وہ تمام اشیاءجن کا تعلق کھانا پینا، پہننا، ذاتی استعمال یا اشیاءتعیش سے ہے۔ یعنی وہ تمام اشیاءجن کو ڈالر خرچ کر کے ہم درآمد کرتے ہیں اور ان کو استعمال کر کے ختم کر دیتے ہیں۔ دوسری قسم کی درآمدات کا تعلق سرمایہ کاری سے ہے۔ یعنی کارخانوں کی مشینری، زرعی مشینری، ٹرانسپورٹ، اور کاروباری استعمال کے آلات جیسے کہ کمپیوٹر وغیرہ۔

صاف ظاہر ہے کہ دوسری قسم کی درآمدات ملک میں سرمایہ کاری بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔ ملک میں کارخانے لگتے ہیں زرعی پیداوار بڑھتی ہے۔ درآمدات کے نعم البدل پیدا ہوتے ہیں، روزگار بڑھتا ہے اور ملکی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔اگر کسی ملک کی درآمدات میں زیادہ حصہ اشیاءصرف کا ہے تو ہمیں ہر سال ان درآمدات کے لیے زر مبادلہ چاہیے ہوگا اور یہ سلسلہ بہت عرصہ چلتا رہے گا۔ یوں ملکی زرمبادلہ پر بوجھ برقرار رہے گا۔ اگر ملکی درآمدات کا زیادہ حصہ اشیاءسرمایہ کاری ہوگا تو اس کا زر مبادلہ پر بوجھ بہت عارضی ہوگا۔ جیسے جیسے یہ درآمدات اپنی پیداوار شروع کریں گی ویسے ویسے ملکی درآمدات میں کمی آنا شروع ہو جائے گی اور ملک خود کفالت کی طرف چل پڑے گا۔ اور خوشحالی بڑھنا شروع ہو جائے گی۔ تو ظاہر ہوا اگر کسی ملک کا توازن ادائیگی اس لیے خراب ہے کہ اس کی درآمدات کا بڑا حصہ اشیاءصرف پر مشتمل ہے تو اس ملک کا توازن ادائیگی ہمیشہ خراب رہے گا اور اس قسم کی درآمدات ملک کی معاشی حالت کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔ اور اگر کسی ملک کا توازن ادائیگی اس لیے خراب ہے کہ وہ بڑی مقدار میں اشیاء سرمایہ کاری درآمد کر رہا ہے تو یہ صورتحال عارضی ہو گی۔ اس طرح کی درآمدات ملک کی معاشی حالت کے لیے اچھی ہو گی۔اب ہم پاکستان کی درآمدات کا جائزہ لیتے ہیں۔


پاکستانی درآمدات برائے سال 2021-22

گروپ ارب روپے کل درآمد کا فی صد
غذائی اجناس 9.1 11.37
مشینری 10.92 13.64
ٹرانسپورٹ 4.45 5.56
پٹرولیم مصنوعات 23.30 29.10
ٹیکسٹائل مصنوعات 4.80 5.99
زرعی مصنوعات 14.00 17.48
دھاتی مصنوعات 6.50 8.12
متفرق مصنوعات 7.00 8.74
کل درآمدات 80.07 100.00

 سال 22-21 میں ہماری درآمدات تقریباً 80 ارب ڈالر کی تھیں۔ اس میں تقریباً 10 ارب ڈالر کی اشیاءخورونوش تھیں۔ اور تقریباً 37 ارب ڈالر کی درآمدات اس خام مال پر مشتمل تھیں جو اشیاء صرف بنانے کے کام آتا ہے۔

 پاکستانی برآمدات:

پاکستانی برآمدات سال 22-2021 میں تقریباً 31 ارب ڈالر کی تھیں ان کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل (19 ارب ڈالر) پر مشتمل ہے اور باقی زرعی اشیاءیا نیم مکمل کا ہے اور پاکستان ان تمام اشیاءکی پیداوار میں خود کفیل ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ تمام چیزیں پاکستان میں ہی پیدا ہوتی ہیں یا بنائی جاتی ہیں تو پاکستان ان کی پیداوار میں اضافہ کر کے اپنی برآمدات بڑھا کیوں نہیں لیتا؟ اصل میں ہماری پیداوار کی بین الاقوامی منڈی میں بہت زیادہ طلب نہیں ہے۔ طلب بڑھانے کے لیے ہمیں اپنی پراڈکٹس کی قیمتوں کو بہت کم رکھنا پڑتا ہے۔ اب ہم اس کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔

حکومت پاکستان اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے کافی کوشش کرتی ہے اور اس میں روپے کی قدر کو کم کرنا بھی شامل ہے۔ مگر اس کے باوجود ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ ہم آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی برآمدات بڑھانے کا سبب کیسے بنتی ہے۔ جب بھی کوئی ملک اپنے پیسے کی قدر میں کمی کرتا ہے تو اس ملک کی اشیاء دوسرے ملک کے باشندوں کے لیے سستی ہو جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شرٹ کی قیمت 100 روپے ہے اور ایک ڈالر 100 روپے میں ملتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس شرٹ کی قیمت غیر ملکی باشندوں کے لیے ایک ڈالر ہو گی۔ اب اگر روپے کی قدر کم ہو جائے اور ڈالر 200 روپے کا ہو جائے تو وہی شرٹ اب غیر ملکی باشندوں کو آدھے ڈالر میں دستیاب ہو گی۔ یوں ہماری پراڈکٹ غیر ملکیوں کے لیے سستی ہو جائے گی اور ان کی طلب بڑھ جائے گی۔ اسی طرح سے جب ڈالر مہنگا ہو گا تو غیر ملکی پراڈکٹس ہمارے لیے مہنگی ہو جائیں گی۔ مثلاً جب ڈالر 100 روپے کے برابر تھا تو اس وقت جو چیز ایک ڈالر کی تھی وہ ہمیں 100 روپے میں دستیاب تھی۔ اب ڈالر 200 ہو نے پر وہی چیز دو سو روپے میں ملے گی۔ یوں وہ چیز ہمارے لیے مہنگی ہو جانے کی وجہ سے اس کی طلب کم ہو جائے گی۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے دو سال میں ڈالر ایک سو روپے سے بڑھ کر تین سو روپے ہو گیا۔ کیا وجہ ہے کہ ہماری درآمدات کم نہیں ہوتیں اور ہماری برآمدات زیادہ نہیں ہوتیں؟

دراصل ہم جو بھی اشیاءاستعمال کرتے ہیں وہ دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایسی اشیاءجن کی طلب غیر لچکدار ہوتی ہے۔ یعنی ایسی اشیاءجن کے بنانے کی مہارت کم ملکوں کے پاس ہو یا وہ چیزیں جو کم ممالک میں پیدا ہوتی ہوں یا وہ ہماری زندگی کا ضروری حصہ ہوں۔ ایسی چیزوں کی قیمت میں جتنا بھی اضافہ ہو جائے ان کی طلب میں بہت کم فرق پڑتا ہے۔

اور کچھ اشیاءایسی ہوتی ہیں جن کی طلب لچکدار ہوتی ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کے بنانے والے بہت زیادہ ہوں یا ان کی پیداوار بہت سارے ممالک میں ہو رہی ہو یا اس کے بہت زیادہ نعم البدل موجود ہوں۔ ان اشیاءکی قیمت یا تو بہت کم ہوتی ہے یامعمولی سی کمی بیشی ان کی طلب کو تبدیل کر دیتی ہے۔

اب اگر ہم اپنی برآمدات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوا کہ ان میں زیادہ تر اشیاءایسی ہیں جو یا تو زیادہ ممالک میں پیدا ہوتی ہیں یا پیداواری مہارت کے لحاظ سے غیر معیاری ہیں۔ اس لیے ان کی قیمت بھی کم ہے اور ان کو سخت مقابلے کا بھی سامنا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر باسمتی چاول۔ پاکستان میں اعلیٰ قسم کا باسمتی چاول پیدا ہو تا ہے۔ یہی چاول انڈیا میں بھی پیدا ہو تا ہے۔ انڈیا کی زرعی ٹیکنالوجی پاکستان سے زیادہ بہتر ہو نے کی وجہ اس کی فی ایکڑ لاگت پاکستان کی نسبت آدھی ہے اور پیداوار تقریباً دوگنی۔ دوسرا انڈیا کا کوالٹی کنٹرول پاکستان سے بہت بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا باسمتی چاول ہم سے کم ریٹ پر برآمد کرتا ہے اور بین الاقوامی منڈی میں انڈین چاول کی طلب زیادہ اور پاکستانی چاول کی طلب کم رہتی ہے۔ زرعی اجناس کی طرح پاکستان کی دوسری برآمدات کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ سب سے بڑھ کر پاکستانی برآمدی اشیاءمیں جدید ٹیکنالوجی کی کمی اور معیاری نہ ہو نا بھی شامل ہے۔ لہٰذا پاکستان کو عالمی سطح پر گاہک ڈھونڈنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔دوسری طرف پاکستان کی زیادہ تر درآمدات کم لچکدار ہیں۔ جیسا کہ پیٹرولیم مصنوعات، خوردنی تیل، جدید مشینری، یا ایسا خام مال جو ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتا۔ اب یہ صورتحال تو واضح ہو گئی کہ ہماری درآمدات زیادہ تر اشیاءصرف پر مشتمل ہیں اور قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں۔ اور ہماری برآمدات غیر معیاری یا لچکدار اشیاءپر مشتمل ہیں جن میں بہت زیادہ اضافہ کافی مشکل ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ صورتحال ہمیشہ رہے گی یا اس میں بہتری کی توقع ہو سکتی ہے۔ اس کا جواب ہاں میں بھی ہے اور نہیں بھی۔ اگر ہم اپنی درآمدات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو تا ہے کہ اس میں تقریباً 15 ارب ڈالر کی اشیا صرف زرعی اجناس ہیں۔ اور یہ زرعی اجناس ایسی ہیں جو ہمارے ملک میں بھی آسانی سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کی پیداوار صرف تین سے چار مہینے میں مکمل ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر گندم۔ اس کا پیداواری دورانیہ تقریباً 100 دن بنتا ہے۔ مکئی اور سورج مکھی 70 سے 80 دن، سویا بین، کینولا وغیرہ بھی 100سے 125 دن بنتا ہے۔ گویا ان تمام فصلوں میں خود کفالت ایک سال میں حاصل کی جا سکتی ہے اور اس بات کا بھی چانس ہے کہ ہم ان اشیاءکو برآمد کر کے اپنی برآمدی آمدن بھی بڑھا لیں۔ تو سوال پیدا ہو تا ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟

تو اس کا بہت واضح جواب ہے حکومتی نااہلی یا حکومت کی عدم دلچسپی۔ مثال کے طور پر انڈیا میں 22 زرعی اجناس پر حکومت امدادی قیمت مقرر کرتی ہے۔ انڈیا میں امدادی قیمت مقرر کرنے کا طریقہ کار بہت واضح ہے۔ یعنی کسی بھی جنس کی لاگت کا ڈیڑھ گنا۔ لاگت میں کسان کی مزدوری بھی شامل کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر گندم کی پیداواری لاگت 100 روپے کلو ہو تو امدادی قیمت 150 روپے کلو ہو گی۔ پاکستان میں کہنے کو تو 24 زرعی اجناس کی امدادی قیمت مقرر ہوتی ہے مگر صرف چار اشیا، گندم، چاول، گنا اور کپاس کی قیمت عمومی طور پر مقرر کی جاتی ہے۔ مزید پیداواری لاگت کا کوئی فارمولا نہیں۔ امدادی قیمت کے نفاذ کا حال یہ ہے کہ اگر زیادہ پیداوار حاصل ہو جائے تو مارکیٹ میں ان کا کوئی خریدار نہیں ملتا۔ مثال کے طور پر جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ انڈیا میں پیداواری لاگت پاکستان کی نسبت آدھی اور پیداوار دوگنی ہے۔ اس کے باوجود اس سال انڈیا میں کپاس کی امدادی قیمت پاکستانی روپے میں 9300 روپے فی من ہے اور پاکستان میں امدادی قیمت 8500 روپے ہے۔ اس دفعہ پیداوار زیادہ ہو نے کی وجہ سے مارکیٹ میں کپاس کی قیمت 5500 روپے من چل رہی ہے۔ ہمارا کسان غریب ہے اس نے ادھار پر بیج اور کھاد وغیرہ خریدی ہوتی ہے لہٰذا اس کے پاس کم قیمت میں کپاس بیچنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ اگلے سال یہی کسان کپاس کی کاشت سے تائب ہو جائے گا اور ملک میں کپاس کی کمی ہو جائے گی۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہماری گورنمنٹ اپنے ملک کے کسان کی دوست بننے کی بجائے دوسرے ملکوں کے کسانوں کی دوست کیوں ہے۔ اور دوسرے ملکوں سے یہ اجناس درآمد کر کے دوسرے ملکوں کے کسانوں کی معاشی خوشحالی کا سبب کیوں بن رہی ہے۔

حکومت کی زرعی پالیسی غیر فعال ہونے کے ساتھ ساتھ پیداوار کی لاگت کا صحیح تعین نہ ہونا اور پاکستانی صارفین کے لیے کسی زرعی جنس کی قیمت کا تعین نہ کرنا بھی بہت بڑی ناکامی ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی زرعی جنس کی ایک سے زیادہ پراڈکٹس بن سکتی ہیں۔ ان میں کوئی پراڈکٹ گھریلو صارفین کے استعمال میں آتی ہے اور کوئی پراڈکٹ کمرشل استعمال میں۔ مثال کے طور پر گندم کا آٹا گھریلو صارفین کے استعمال میں اور میدہ سوجی کمرشل استعمال میں آتا ہے۔ صاف ظاہر ہے گھریلو استعمال کی قیمت کم اور کمرشل استعمال کی قیمت زیادہ ہونا چاہیے۔

انڈیا میں گندم کی امدادی قیمت تقریباً 70 روپے فی کلوگرام ہے۔ آٹا 25 سے 30 روپے کلو جبکہ میدہ سوجی 70 سے 80 روپے کلو مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ قیمت کا فرق حکومتی سبسڈی سے پورا ہو تا ہے۔ پاکستان میں گندم کی امدادی قیمت 100 روپے کلو ہے۔ گھریلو استعمال کا آٹا 150 روپے اور سوجی میدہ 180 سے 200 روپے کلو ہے۔ گویا کسی بھی پراڈکٹ کی پیداواری لاگت کا تعین نہ کرنے کی اہلیت سرمایہ کار کو بے انتہا منافع کمانے کا موقع فراہم کر رہی ہے۔ نتیجتاً ہمارے ملک میں کسان دشمن پالیسیوں اور سرمایہ کاروں کے بے لگام مفاد کو تحفظ دینے سے نہ صرف ملکی پیداوار کم ہے بلکہ مہنگائی بھی زیادہ ہے۔

ایک بات ثابت ہو گئی کہ ہماری درآمدات کا بڑا حصّہ ان اشیاءپر مشتمل ہے جو ہمارے ملک میں پیدا ہو سکتی ہیں۔ مگر حکومت کی عدم توجہی یا ناکام پالیسی کی وجہ سے ہم ان میں خود کفیل نہیں ہو رہے۔ اگر حکومت اس طرف توجہ دے تو ہماری درآمدات کا کافی بڑا حصہ کم ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ برآمدات بھی بڑھانے کا سبب بن جائے۔

اب ہم اپنی بین الاقوامی تجارت کے دوسرے حصے یعنی برآمدات کی طرف آتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے جانا کہ ہماری برآمدات کا بڑا حصہ زرعی اجناس یا نیم مکمل پراڈکٹس پر مشتمل ہے اور ان کی مارکیٹ میں طلب کم ہونے کے ساتھ قیمت بھی کم لگتی ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم انڈسٹری کو کیوں فروغ نہیں دیتے کہ ہماری برآمدات اعلیٰ ٹیکنالوجی کی حامل ہوں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا ملک صنعتی انقلاب کا موقع کھو چکا ہے۔ کسی بھی ملک میں انڈسٹری لگانے کے لیے پیسے کے علاوہ اور بھی بہت سارے عوامل درکار ہوتے ہیں۔ کیوں کہ پیسے سے آپ کارخانہ تو لگا سکتے ہیں مگر اس کو کامیاب کرنے کے لیے اور بھی اعلیٰ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک صنعتکار کارخانہ لگانے کے بعد مارکیٹ کی صورتحال پر نظر رکھتا ہے، لیبر، خام مال کے مسائل اور حکومتی پالیسیوں کا سامنا کرتا ہے۔ ملکی و غیر ملکی مقابلے کا سامنا کرتا ہے۔ تب کہیں  جا کر وہ منافع کمانے کے قابل ہو تا ہے۔ یعنی دیکھا جائے تو یہ الگ طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں صنعتکار کے خلاف ایک ماحول بنا دیا گیا ان کو عوام دشمن بتایا گیا۔ کبھی اس بات کو اجاگر نہیں کیا کہ ایک صنعتکار جب کوئی کارخانہ لگاتا ہے تو وہ ہزاروں لوگوں کے روزگار کا باعث بنتا ہے لہٰذا ایسے لوگ بہت قابل احترام ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے مزدور دوستی کی آڑ میں کبھی 22 خاندانوں کا نعرہ لگایا تو کبھی صنعت قومیانے کی پالیسسز پر عمل کیا گیا۔ نتیجتاً زیادہ تر صنعتکار ملک سے چلے گئے اور جو باقی بچے وہ صنعتکار کی بجائے سرمایہ کار ہیں۔ سرمایہ کار آسان سرمایہ کاری کا رسیا ہو تا ہے ہمارے ملک میں بھی پچھلے پچیس تیس سالوں میں ہم نے آسان آمدن کی طرف توجہ دی۔ اس وقت ہمارے سرمایہ کار یا تو ہاؤسنگ سوسائٹیز میں دلچسپی رکھتے ہیں یا اشیاءصرف کے کارخانے بنانے میں۔ جہاں ان کو کسی مقابلے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ مثلاً آٹے کی مل لگا لی، یا چینی کی مل۔ ایسی انڈسٹری برآمدات کے بڑھانے میں معاون ثابت نہیں ہوتی۔ میرے خیال میں ایسے ملک میں جہاں صنعتکار کو عوام دشمن اور اس کو تنگ کرنے کے لیے 20 سے 22 حکومتی محکمے موجود ہوں وہاں صنعت نہیں لگ سکتی۔ لہذا آیندہ دس سے پندرہ سال تک میں اپنی برآمدات میں صنعت کا کوئی قابل ذکر حصہ نہیں دیکھتا۔ ایسی صورت میں ہم اپنی برآمدات کو کس طرح بڑھائیں۔ میرے خیال میں صنعت کی بجائے خدمات کا شعبہ اس میں قابل ذکر رول ادا کر سکتا ہے۔ یعنی آئی ٹی کا شعبہ یا ترسیلات زر بڑھانے کے لیے زیادہ ورکرز کا بیرون ملک بھیجنا۔ یہ دونوں شعبے قلیل مدت میں پاکستان کی برآمدات میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں