وقت کے قاضی کا فیصلہ



17 ستمبر 2023 کو ان آنکھوں نے کیسا دل کش اور دل فریب منظر دیکھا کہ جس شخص کو اس کی حق گوئی اور حق پرستی کی وجہ سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے روکنے کے لیے ریاست پاکستان نے اپنا پورا زور لگا دیا اور اسے کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس تک دائر کر دیا گیا، وقت کے قاضی نے اسے اس ملک کا چیف جسٹس بنا دیا۔ اسے اس عہدے سے محروم رکھنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے لیکن ایسا کرنے والوں کو شاید یہ پتا نہیں تھا کہ اس ساری کائنات کا بھی ایک بہت ہی پاور فل قاضی موجود ہے جس کے فیصلوں کے آگے تمام دنیا کے تمام طاقتور حکمرانوں کے فیصلے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ملک کے مقتدر حلقوں نے اپنی تمام تر کوششیں قاضی فائز عیسیٰ کو چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لیے صرف کر دیں، اسے کسی بھی بڑے اہم مقدمے کی سماعت کے لیے کسی بھی بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ کئی سالوں تک یہ ظلم اس ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ڈھٹائی کے ساتھ ہوتا رہا۔ دیکھنے والے دیکھتے رہے لیکن کسی نے اس مظلوم شخص کا ساتھ نہیں دیا، وہ اگر آج چیف جسٹس نہ بنتا تو بھی یہ لوگ خاموش تماشائی بنے رہتے۔ کسی میں بھی حق اور سچ کا ساتھ دینے کی ہمت نہ ہوتی۔ یہ اس قوم کا المیہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ مظلوم اور محروم شخص کا ساتھ دینے سے کتراتی رہتی ہے۔ اسے ڈر اور خوف لگا رہتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ بھی کہیں ظالموں کے عتاب کا شکار نہ ہوجائیں۔ چوبیس کروڑ افراد پر مشتمل اس قوم میں سے ایک شخص بھی قاضی فائز عیسیٰ کا ساتھ نبھانے کے لیے میدان میں نہیں نکلا۔ وہ آج ان کے چیف جسٹس بن جانے پر مسرت اور خوشی کا اظہار تو ضرور کر رہا ہے لیکن اسے اور اس کی بیوی کو جب جھوٹے ریفرنس کے ذریعے عدالتوں میں رگڑا جا رہا تھا تو کسی نے بھی ایسے وقت میں ان کے لیے زبان حق سے ایک لفظ بھی نہیں بلند کیا۔ وہ اکیلا ہی وقت کے فرعونوں سے لڑتا رہا اور بالآخر خداوند کریم کی مدد سے سرخرو ہوا۔ اس کے خلاف ریفرنس دائر کرنے والوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچا کہ وہ اتنا بڑا قدم کس بنیاد پر اُٹھا رہے ہیں۔ ایک نیک سیرت اور صاف ستھرے شخص کو اس کے کن ناکردہ گناہوں کی سزا دینے جا رہے ہیں۔ اُنہیں تھوڑی دیر کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ آخرت میں خدا کی عدالت میں وہ اپنے اس عمل کی صفائی میں کیا توجیہات اور دلائل پیش کریں گے۔ بیانوں کی حد تک تو وہ خود کو بہت ہی پارسا اور زاہد بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن عملاً وہ اپنے مفاد کی خاطر ہر غلط اور ناجائز کام بھی کر جاتے ہیں۔ صدر پاکستان کے اتنے بڑے منصب پر ہوتے ہوئے بھی وہ کسی بے گناہ شخص کو یوں رسوا اور بدنام کرنے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں کرتے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کا گناہ کیا تھا؟ یہی نا کہ اس نے فیض آباد دھرنا کیس میں ایک غیر جانبدارانہ اور دلیرانہ فیصلہ صادر کیا تھا۔ اس فیصلے پر گرچہ آج تک عمل در آمد نہیں ہوسکا لیکن فیصلہ لکھنے کے جرم کی پاداش میں جسٹس فائز عیسیٰ اور اُن کے اہل خانہ کوکئی مہینوں تک کرب اور ابتلا میں ضرور مبتلا کر دیا گیا۔

فیض آباد دھرنا کیس میں جسٹس فائز عیسیٰ کا فیصلہ کیا تھا۔ اس میں ایسی کونسی بات تھی جو ناجائز اور بے بنیاد لکھی گئی تھی۔ جتھے لاکر اپنی بات منوانے کے اس طریقے کے خلاف اُنہوں نے جو کچھ بھی لکھا تھا وہ غلط اور بے جا نہیں تھا۔ اس فیصلے سے کن لوگوں کے مفادات کو زک پہنچتی تھی وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جنہوں نے یہ دھرنا آرگنائز کروایا تھا اور جو اس کے پس پردہ اصل محرک تھے وہی فائز عیسیٰ کے اس فیصلے سے سخت برہم اور نالاں تھے، کیونکہ اس فیصلے میں اُن کے چہرے بے نقاب ہو رہے تھے۔ فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنانے میں بھی ان کا کردار واضح اور صاف دکھائی دیتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج جب سارا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے اور وہ تمام کردار اپنے اپنے عہدوں سے فارغ بھی ہوچکے ہیں لیکن ہم میں سے کسی میں بھی اتنی ہمت اور جرات نہیں ہے کہ وہ کھل کر اُن کا نام بھی لے سکیں۔ فائز عیسیٰ کے اس فیصلے کے خلاف جن جن لوگوں نے نظرثانی کی درخواست دائر کی ہوئی تھی وہ آج منظر نامہ بدل جانے پر اپنی اُن درخواستوں سے لاتعلق تو ضرور ہوچکے ہیں لیکن پس پردہ کرداروں کا نام لیتے ہوئے آج اُن کی زبانیں بھی لکنت کا شکار ہو جاتی ہے۔

خدا کی عظمت اور طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی ہورہا ہے کہ چار سال تک نظرثانی کی درخواستوں پر کسی بھی سابقہ چیف جسٹس کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان کو سن کر فائز عیسیٰ صاحب کے فیصلے کو مکمل طور رد کردیتے، مگر اُن کا یہ طرز عمل بھی فائز عیسیٰ کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ وہ آج چیف جسٹس بن کر خود ہی اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواستوں کو سن رہے ہیں، لہذا اب اس فیصلے کو مکمل طور پر رد کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں رہا۔ جسٹس فائز عیسیٰ انتہائی مدبرانہ انداز میں ساری پٹیشنیں نمٹا رہے ہیں۔ اُن کے پاس وقت بہت کم ہے اور مقدمات بہت بڑے بڑے ہیں اور بہت اہم بھی ہیں۔ اُن سب کو صرف تیرہ مہینوں میں سن لینا اور اُن پر فیصلہ سنا دینا شاید ہی ممکن ہوسکے، لیکن وہ پھر بھی کوشش کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مقدمات نمٹا سکیں۔ قوم کو اُن سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ اُن کی خوبی یہ ہے کہ وہ سپریم کورٹ کا وقار بھی بحال کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ وہ صرف مخصوص نظریات اور خیالات رکھنے والے ججوں کو بینچز کا حصہ نہیں بنارہے بلکہ کوشش کررہے ہیں کہ جانبداری اور کسی فریق کی حمایت والا تاثر بھی زائل ہوسکے اور ساتھ ہی ساتھ انصاف ہوتا ہوا بھی دکھائی دے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے عوام بھی عدالتی کارروائیاں براہ راست دیکھ سکیں تاکہ معلوم ہو پائے کہ ہماری عدالتیں کس طرح کام کرتی ہیں۔ کون کتنا سچ بولتا ہے اور کون کتنا لیت ولعل سے کام لے رہا ہوتا ہے۔ کون عدالتوں کا وقت ضائع کرتا ہے اور کون اپنے موکل کے لیے جھوٹ اور فریب سے کام لیتا ہے۔ براہ راست کارروائی دکھانے سے وہی لوگ خوفزدہ ہیں جو آج تک عدالتوں کو گمراہ بھی کرتے رہے اور اس کا وقت بھی ضائع کرتے رہے۔ جناب فائز عیسیٰ نے ایک اور اچھی روایت یہ ڈالنے کو کوشش کی ہے کہ اب کسی کو سماعت ٹالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سماعت کے لیے نئی تاریخیں لینے کا رواج ختم کیا جائے گا۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ مقدمات جلد سے جلد نمٹائے جاسکیں گے اور زیر التوا کیسوں کی بھر مار کا بھی خاتمہ ہو پائے گا۔ وہ قانونی اور آئینی اہمیت کے مقدمات کے لیے فل بینچ بٹھانے کے زبردست حامی ہیں۔ اس طرح یکطرفہ اور جانبدارانہ فیصلوں کا تاثر بھی زائل ہو پائے گا اور ایسے فیصلوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ بھی از خود ختم ہوجائے گی۔ سابقہ سالوں میں ہماری عدالتوں میں کئی ایسے متنازع فیصلے ہوئے جن پر عمل درآمد کروانے میں خود عدلیہ کو بھی مشکلات کا سامنا رہا، جس کی وجہ سے اس کی اپنی عزت اور توقیر بھی متاثر ہوئی اور اس پر حرف بھی آیا۔ جب عدالتوں پر سے لوگوں کا یقین اور اعتماد ہی مجروح ہوجائے تو پھر اس کی عزت و توقیر کہاں قائم رہ سکتی ہے۔ اس وقت وطن عزیز کے ہر ادارے کا وقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ہر ادارہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہم نے آج بھی اپنی اصلاح نہیں کی تو پھر شاید ہی کبھی ممکن ہو پائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں شاید یہ آخری موقعہ دیا ہے کہ ہم اپنے حالات سدھار سکیں۔ اگر خود کوئی قدم اُٹھا نہیں سکتے تو کم از کم اُن قوتوں کا ساتھ ضرور دیں جو یہ ذمہ داری نبھانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے سے کم ازکم کسی ایک ادارے کی اصلاح کی کوئی اُمید بنی ہے، ہمیں اس امید کو بر لانے میں مکمل تعاون اور ساتھ دینا ہوگا۔ اس کے بعد معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں، وہی ہمارا حامی و ناصر ہوگا۔ انشاءاللہ

کوئی تبصرے نہیں