تنقیدی شعور کے حامل، محنتی قلم کار، صدام ساگر
تحریر: شاعر علی شاعر
زندگی بھر لی ہے میں نے دوستوں کی ہر دُعا |
ایسے تھوڑی یہ جہاں اپنا ہُوا ہے مہرباں |
صدام ساگر سے قلمی دوستی
ہوئی تھی، اور قلم ہی کے ذریعے قائم ہے، مجھے ایسے لوگ پسند ہیں جو اپنی زندگی میں
لکھنے پڑھنے کا ایک گراف بنا کر کام کرتے ہیں۔ صدام ساگر میں یہی خوبی ہے کہ وہ زیادہ
تر لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ میری نظر سے اُن کے ادبی مضامین، تبصرے اور کالم
گزرتے رہتے ہیں، جو قارئینِ شعروسخن، ناقدینِ فنِ شاعری اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ
ساتھ ریسرچ اسکالرز اور طالبانِ علم و ادب کو پسند آتے ہیں اور اُن سے داد و تحسین
بھی وصول کرتے ہیں۔ صدام زیادہ تر کالم نگاری پر توجہ مبذول کیے ہوئے ہیں اور اچھے
کالم لکھ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کے کالم روزنامہ سمائ، روزنامہ جہان پاکستان،
روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ پاکستان، روزنامہ خبریں اور روزنامہ ایکسپریس میں باقاعدگی
سے شائع ہو رہے ہیں۔ اُن کا ادبی کالم نگاری کا سلسلہ ”اب تک“ کے نام سے کافی مشہور
ہوگیا ہے جب کہ وہ ایک ادبی رسالے ”نوائے ادب“ کی ادارت بھی سنبھالے ہوئے ہیں اور پانچ
برس سے مسلسل شائع کر رہے ہیں۔ اُن کے کالم اور مضامین پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک
میں بھی متواتر شائع ہو رہے ہیں۔ میں نے بھی اپنے معروف ادبی رسالے ”رنگِ ادب“ میں
اُن کو شائع کیا ہے اور میرے معروف اشاعتی ادارے رنگِ ادب پبلی کیشنز، کراچی کی اکثر
مطبوعات میں بھی اُن کی نگارشات شامل ہوتی رہتی ہیں۔
صدام ساگر اپنے کام سے مخلص
ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کو قدرت لمحہ بہ لمحہ آگے قدم بڑھانے کے مواقع فراہم کر رہی
ہے اور وہ لکھتے چلے جا رہے ہیں اور دنیائے اُردو ادب میں اپنا نام پیدا کر رہے ہیں،
اور اعلیٰ مقام بنا رہے ہیں۔ اُن کی اُردو ادب پر گہری نظر ہے اور اُردو ادبِ عالیہ
اُن کی نظر سے گزرتا رہتا ہے، تبھی تو وہ کلاسک شعرا اور ادبا پر عمدہ مضامین لکھ رہے
ہیں اور اُن کے محاسنِ شعری و نثری کو مزید اُجاگر کر رہے ہیں۔ وہ اُردو کے معروف شعرا
و ادبا کے ساتھ ساتھ عہدِ حاضر کے شعرا و ادبا کو بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں، جس سے
نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو رہی ہے اور نیا ادب بھی سامنے آرہا ہے۔ اُن
کے کالم ہو یا مضامین، چاہے اخبار میں شائع ہوں یا کسی ادبی جریدے میں، خوب پڑھے جاتے
ہیں، اب تو پاکستان بھر سے اہلِ قلم صدام ساگر کو اپنی کتابیں اِس فرمائش کے ساتھ ارسال
کر رہے ہیں کہ وہ اِن پر تبصرہ لکھیں، اُن کو جو بھی کتاب موصول ہوتی ہے وہ اپنے مطالعے
کی میز پر لاتے ہیں، اُس کو مطالعے سے گزارنے کے بعد اُس پر اچھا تبصرہ لکھ کر اُس
کتاب کا حق ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ اُن کی خوش اُسلوبی اُن کی تحریروں کی زینت ہے اور
اُن کی نگارشات سے اُردو زبان و ادب کا فروغ ہو رہا ہے، کیوں کہ وہ اپنی عبارات کی
ترویج و اشاعت پر بھی توجہ دیتے ہیں۔
صدام ساگر بہ حیثیت شاعر
بھی اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ میری نظر سے اُن کی کچھ غزلیں، نظمیں، حمد و نعت اور مناقب
بھی گزرے ہیں جن سے اُن کی شاعرانہ فنکاری بھی سامنے آئی ہے، اُن کے کلام میں شعریت
کے ساتھ ساتھ غنائیت بھی ہے اور روانی و سلاست بھی، اِسی لیے اُن کی شاعری سننے والوں
کے کانوں کو بھلی لگتی اور قارئین کو متاثر کرتی ہے۔ اب تو اُن کی اِس قدر تخلیقاتِ
شعری و نثری جمع ہوگئی ہےں کہ اُن پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ یہ قدم کسی
بھی اہلِ قلم کے لیے خوشیوں بھرا ہوتا ہے کہ اُس کے فن اور شخصیت پر بات چیت بھی ہو
اور لکھا بھی جائے تاکہ ہمیشہ کے لیے کتابوں میں محفوظ ہو جائے۔
صدام ساگر کی تنقیدی نظر
بھی بہت تیز ہے، وہ نظم ہو یا نثر، ہر دو میں محاسن تو تلاش کر لیتے ہیں اور اُن کی
نظر میں معائب بھی آ جاتے ہیں، مگر یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ وہ محاسن تو بیان کر دیتے
ہیں، مگر معائب کی نشان دہی نہیں کرتے، کیوں کہ آج کل کا معاشرہ عجیب سی سوچ کا حامل
ہوگیا ہے، پہلے زمانوں میں تعمیری تنقید کرنے والے کو محسن گردانا جاتا تھا اور اُس
کا شکریہ ادا کیا جاتا تھا کہ اُس نے اُس کا نقص بتا کر اُس کی اصلاح کی ہے اور اُسے
خامیوں سے پاک کر دیا، مگر آج کا انسان خامی، غلطی یا نقص بتانے والے کا دشمن بن جاتا
ہے اور اُسے اپنا حریف تصور کرتا ہے، اِس لیے بھی تنقید میں جھول پیدا ہوگیا ہے کہ
آج کا نقاد بھی معائب بتا کر کسی سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا، بس اُس کی نظم یا نثر
کے محاسن بیان کر کے اپنی بات مکمل کر لیتا ہے۔ صدام ساگر بھی کتابوں پر تبصرے ہوں
یا شعرا و ادبا پر مضامین، سب میں یہی رویہ اختیار کرتے ہیں، اور یہی میانہ روی ہے
کہ اِس سے معاملات میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا۔
صدام ساگر نے ہمیشہ اِس بات
پر بھی توجہ دی ہے کہ کسی بھی تحریر میں توازن قائم رہے، نہ تو اِس قدر تعریف کی جائے
کہ وہ تقریظ لگے کہ جیسا کہ آج کل کے کچھ نام نہاد نقاد اپنے ممدوح کی شان میں زمین
و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں ،اور اُسے میر و غالب و اقبال کے برابر لا کھڑا کرتے
ہیں، صدام ساگر ہر گز ایسا نہیں کرتے، اور نہ ہی کسی کی نظم یا نثر میں اِس قدر نقائص
تلاش کرتے ہیں کہ وہ تنقید کی بجائے تنقیص نظر آئے، اور کسی سے دشمنی یا ادبی رقابت
نظر آئے، وہ تو ہلکے پھلکے انداز میں اپنا مدعا بیان کر دیتے ہیں، باقی قارئینِ شعروسخن
پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اُسے کیسا محسوس ہوا، کیوں کہ قاری بھی ایک نقاد ہی ہوتا ہے، وہ
قاری پر اپنی مرضی نہیں تھوپتے، لیکن اُن کی رائے اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
ان کا ایک خیال :
زباں سے کچھ نہیں میں نے کہا پھر بھی یہاں سب |
مرے کردار پر تنقید کرنے میں لگے ہیں |
ایک اور اہم بات جس کا ذکر کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ صدام ساگر کو حکومتِ پاکستان کے ادارے اکیڈمی آف لیٹرز، اسلام آباد کے ڈائریکٹر یوسف خشک نے اپنے ادارے کی معروف سیریز ” پاکستانی ادب کے معمار“ کے سلسلے کی ایک کتاب پر ایک تحقیقی نوعیت کا کام تفویض کیا تھا جو اُنھوں نے اپنی محنتِ شاقہ، باریک بینی، یکسوئی اور لگن و جستجو سے مختصر دورانیے میں پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے جو عنقریب ادارہ اکادمی ادبیات، پاکستان سے کتابی صورت میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہونے والا ہے۔ میں صدام ساگر کو اُن کی ایسی تمام کامیابیوں پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں، اور دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ....
کوئی تبصرے نہیں