اتحاد، فکری یکسوئی اور ایمانداری نے چین کو ایک عظیم ملک بنایا

(عوامی جمہوریہ چین کے قومی دن پر خصوصی تحریر)

 یکم اکتوبر کو ساری دنیا میں چین کا قومی دن انتہائی احترام سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1949 میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی پی سی) کے چیئرمین مازے تنگ کی طرف سے چین کو سرمایہ داری اور سامراجیت سے آزاد کرانے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ دن چین کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے، یکم اکتوبر سے چینی قوم کی ترقی اور استحکام کا وہ سفر شروع ہوا جس کی بنیاد پر آج چین دنیا کا ایک اہم ترین ملک بن چکا ہے، جس وقت چین کا انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، اُس وقت چین کی اقتصادی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی لیکن چیئرمین ماؤزے تنگ کی ولولہ انگیز قیادت میں چین نے اقتصادیات کے ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی کی ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے چین کی ترقی ایک ماڈل کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ اس وقت چین کی اکانومی امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے لیکن ماہرین اقتصادیات کی پیش گوئی ہے کہ آئندہ برسوں میں چین کی اکانومی نمبر ایک ہوجائے گی۔ چین کی غیر معمولی اقتصادی ترقی کا راز صرف یہ ہے کہ پوری قوم کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے زیر قیادت متحد ہے۔ ملک کی ترقی سے متعلق تمام فیصلے عوام کی خواہشات کے مطابق کیے جاتے ہیں جس میں کمیونسٹ پارٹی کا اہم رول ہوتا ہے۔

چین نے ہر شعبے میں حیرت انگیز ترقی اچانک حاصل نہیں کی ہے بلکہ اس کو حاصل کرنے میں چین کے عوام، فوج اور اس کی مخلص سیاسی قیادت نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں تب جا کر ترقی کا سورج چین کی سرزمین پر طلوع ہوا ہے۔ اتحاد، فکری یکسوئی اور ایمانداری کے بنیادی اصولوں نے چین کو نہ صرف اقتصادی اعتبار سے ایک عظیم ملک بنا دیا ہے بلکہ دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کو اپنا کر دنیا میں مختلف معاشی افکار کے ہوتے ہوئے دنیا کو امن اور ترقی کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ چین نے ترقی اور استحکام کی جو منازل طے کی ہیں اس کی پہلی مشعل ماؤزے تنگ نے روشن کی تھی اور اب یہ مشعل صدر شی جن پنگ کے ہاتھ میں ہے۔

یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس انقلاب کو مازے تنگ نے 1949میں بپا کر کے چین کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا تو اس میں ان کو چو این لائی اور ڈینگ جیسے کامریڈز ملے تھے کہ جو ان نظریات کو عملی جامہ پہنانے میں صدق دل سے کام کرتے تھے۔ چین اپنی نظریاتی اور محب وطن قیادت کے طفیل دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا گیا حتیٰ کہ آج شی جی پنگ کی شکل میں مدبر اور ذہن لیڈر میسر ہے۔ صدر شی جی پنگ اسی صدی کے وسط تک چین کو خوشحال، طاقتور، جمہوری ہم آہنگی کا حامل، جدید اور خوبصورت سوشلسٹ ملک بنانے کا عزم رکھتے ہیں، وہ چین کو ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جو جامع قومی طاقت اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کے لحاظ سے دنیا میں سر فہرست ہو۔ شی جی پنگ کے مطابق سنہ دو ہزار پینتیس تک چین میں بنیادی طور پر جدید سوشل ازم کی تکمیل کی جائے گی۔ قومی معیشت، سائنسی اور تکنیکی طاقت تیزی سے ترقی کرے گی۔ ثقافتی لحاظ سے ترقی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ قانون کی بنیاد پر ملک، حکومت اور معاشرے کی جامع تعمیر کی جائے گی۔ ملک کے حکمران نظام اور انتظامی صلاحیت کی جدید کاری کی تکمیل کی جائے گی۔



عظیم قوموں کے باہمت اور باصلاحیت لوگ ہمیشہ محنت سے ترقی کے قائل رہے ہیں۔ وہ محنت سے آگے بڑھنے کو ہی اپنا وتیرہ بنائے رکھتے ہیں۔ کسی بھی فرد، ادارے یا ملک کی ترقی کے کچھ رہنما اصول ہوتے ہیں۔ یہ چند اصول اگر کسی بھی قوم میں ہوں تو اس ملک کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ چین کی معاشی ترقی کے پیچھے سالہا سال کی جدوجہد اور آگے بڑھنے کی سوچ کا اثر ہے۔ چین میں معاشی و معاشرتی استحکام کے تین مراحل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں معاشرتی بدلاؤ لایا گیا اور باہمی تفریق کی جڑیں کاٹی گئیں۔ چین نے ایسے انسانی سرمایہ کی تیاری پر توجہ دی جن کا دل و دماغ چین کی فلاح و بہبود سے جڑ گیا۔ دوسرے مرحلے میں بڑھتی معاشرتی ضروریات اور وسائل کی کمی سے نمٹنے پر توجہ دی گئی۔ اس مقصد کے لیے چین نے انڈسٹری اور زراعت کو جدید خطوط پر استوار کیا اور لوکل گورنمنٹ کو اختیارات منتقل کیے تاکہ وہ اہداف کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے بروقت فیصلے کرسکیں۔ آخری مرحلے میں چین نے غربت کے مکمل خاتمے پر کام کیا۔ عوام کو مالی امداد فراہم کرنے کے بجائے روزگار کے مواقع فراہم کیے، غربت و بے روزگاری کو مٹانے کے لیے کثیر المقاصد اہداف رکھے۔ چین کی معیشت تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے معیار کے مطابق 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکل چکی ہے۔ چین کی بین الاقوامی سطح پر تیزی سے ترقی کے بارے میں چین کے صدر مملکت شی جن پنگ نے کہا کہ ”چین اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ دیگر ممالک کیلئے اپنا دروازہ کھولنا ہی ایک ملک کی ترقی کا راز ہے۔“ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو صدر شی جن پنگ کا تخلیق کیا ہوا منصوبہ ہے اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ امن و خوشحالی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے اقتصادی تعاون اور آزاد تجارتی معاہدوں کی ضرورت ہے جبکہ ”بیلٹ اینڈ روڈ“ فورم تمام ملکوں کو یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ منصوبہ زمینی سڑک اور ریل کے ذریعے چین کو ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ جوڑتے ہوئے یورپ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس منصوبے کی خوبصورت بات یہ ہے کہ چین اس منصوبے میں ترقی پذیر ممالک کو شامل کررہا ہے تاکہ انہیں بھی ترقی کے مناسب مواقع فراہم ہو سکیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق یہ منصوبہ دنیا کی دو تہائی آبادی کو ملائے گا جس میں کم از کم ایک تہائی مجموعی ملکی پیداوار بھی شامل ہے۔

چین کے قومی دن کے حوالے سے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک ایسی مثالی دوستی ہے جو دونوں ملکوں کے لیے ہر سطح پر ترقی کا سبب بن رہی ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات 1951 میں قائم ہوئے اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے ان تعلقات کو مزید مضبوط و مستحکم کیا۔ چیئرمین  ماؤذاتی طور پر پاکستان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے ایک جرنیل جن  باؤ سے کہا تھا کہ ”پاکستان سے خصوصی تعلقات کو فروغ دیا جائے کیونکہ پاکستان چین کےلئے مغربی ممالک کے لیے ایک کھڑکی ثابت ہوگی۔“ چیئرمین  ماؤ کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔

چین کے ساتھ پاکستان کا تعلق بہت گہرا اور مضبوط ہے اور چین کئی اہم مواقع پر یہ ثابت کر چکا ہے کہ وہ پاکستان کا ایسا دوست ہے جس پر واقعی اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان اور چین، محبت اور دوستی کے لازوال رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دیرپا، گہرے اور مضبوط برادرانہ تعلقات باہمی اعتماد، بھروسہ اور عزت کی بنیادوں پر استوار ہیں جن پر بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی اثر انداز نہیں ہو سکیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مزید نکھار پیدا ہوا ہے۔ چین کی دوستی بلا شبہ پاکستان کا عظیم سفارتی ورثہ ہے جس پر ہر پاکستانی کو فخر ہے۔

کوئی تبصرے نہیں