پنجابی ادب و صحافت کا سچا سیوک کار...مدثر اقبال بٹ
تحریر: صدام ساگر
کچھ لوگ خداداد صلاحیتوں
کے مالک ہوتے ہیں وہ اپنے موجودہ عہد کی ترجمانی کرتے ہوئے کچھ ایسا کر گزرنے کا عزم
رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ بہت مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں جو تمام تر مخالفتوں اور دشواریوں
کے باوجود اپنے ارادے اور عزم میں مستقل مزاجی کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ اُن کے اقدام،
فیصلے آنے والا وقت ثابت کرتا ہے کہ وہ کتنے درست اور بروقت تھے۔ بقول : ج ک
تم اپنے ارادے کی بابت بتاؤ |
زمانے کی چھوڑو زمانہ کدھر ہے |
مدثر اقبال بٹ کا شمار بھی
ایسی ہی صاف گو شخصیات میں ہوتا ہے، جو اپنے مضبوط ارادے اور عزم کی بدولت ایک باہمت
اور حوصلہ مند انسان دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان بھر کے اہلِ قلم اُنہیں قدر کی نگاہ
سے دیکھتے ہیں۔ ان کا پنجابی ادب و صحافت میں بڑا مقام ہے۔ اُنہیں قدرت نے جس عزت،
شہرت اور عظمت سے نوازا ہے وہ نیک نامی بہت کم اشخاص کو نصیب ہوتی ہے۔ اتنی دولت، شہرت،
عزت اور محبت پانے پر بہت سے افراد خود غرض، مطلب پرست اور مغرور ہوجاتے ہیں اور خود
کو خدا سمجھنے لگتے ہیں۔ بقول نظیر صدیقی کہ:
ہر شخص بن گیا ہے خدا تیرے شہر میں |
کس کس کے در پہ مانگیں دُعا تیرے شہر میں |
اسی غزل کا ایک اور شعر ملاحظہ
کیجیے:
اپنوں پہ اعتماد نہ غیروں پہ اعتماد |
یہ کیسی چل پڑی ہے ہوا تیرے شہر میں |
مدثر اقبال بٹ اپنی ذات میں
صوفی شکل و صورت کے اعتبار سے عجز و انکساری کا پیکر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کتابوں سے
زیادہ انسانوں کو پڑھنا اور اُن پر اعتماد کرنا جانتے ہیں مگر ایسے میں وہ اپنے دوست
اور دشمن کی پہچان بھی خوب رکھتے ہیں۔ مدثر اقبال بٹ پنجابی ادب و صحافت کا مان ، پنجاب
کی شان اور ماں بولی کی پہچان اور پنجابی سے محبت کرنے والوں کی جان ہے۔ پنجابی ادبِ
عالیہ ان کے مزاجِ شاعرانہ کا حصہ بھی ہے۔ کیونکہ شاعری کی روح ان کے مزاج میں رچ بس
گئی ہے۔ ان کا پنجابی کا اولین شعری مجموعہ ”کوری جھجر“ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ ان کی شاعری انسان اور ان کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، یعنی ان کی شاعری کا مرکز
و محور انسان اور انسان کی زندگی ہے۔ جس میں مظاہرِ فطرت کے تمام عکس بہت واضح اور
صاف نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے حسین شاد لکھتے ہیں کہ ”مدثر اقبال دی شاعری سچی مچی
کوری جھجر دے خشبو دار پانی ورگی سینے چہ ٹھنڈا پاندی اندر دے موسماں اُتے چھڑکا کر
دی اے۔ کوری جھجر دے ٹھنڈے مٹھے پانی دا تسیں وی مزہ چکھو۔“
مدثر اقبال بٹ ،صراطِ مستقیم پر چلنے اور کلمہ حق کی صدا بلند کرنے والے صحافی ہیں۔ وہ ایک کامیاب اور زبردست کمپیئر بھی ہیں، ان کا جراتِ اظہار، بے تکلفانہ اور دوستانہ سٹائل سب اہلِ دانش کو اپنا گرویدہ بنا دیتا ہے۔ سچائی کا یہ چشمہ جب میرے محبوب کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی تک پہنچتا ہے تو وہ لکھتے ہیں کہ ”مدثر دی شاعری پڑھ کے انج لگدا اے جیویں ”کوری جھجر“ چوں پانی دا اک ”پیالہ“ کڈھ کے پی لیا ہووے مٹی دے نال مدثر اقبال دی محبت، اوہدی شاعری وچوں پُھٹ پُھٹ کے دل وچ اُتر جاندی اے انسان وی تے مٹی دا بنیا ہویا اے۔ بھاویں بدن دی خشبو دا کوئی جواب نہیں پر مٹی خشبو توں ودھ کوئی ہور خشبو پیدا نہیں ہوئی لگدا اے کہ مدثر مٹی وچ قلم ڈبو کے شاعری کیتی اے میں اوہدی خدمت وچ اُردو دے دو شعر پیش کرناں، ملنا یار اُس جانی کا، کھلنا رات کی رانی کا، نرمی اُس کی باتوں کی، چشمہ ٹھنڈے پانی کا۔“
”کوری جھجر“ میں شامل غزلوں میں زندگی
کی قوت، عصری حقیقتوں کا ادراک، اپنی تہذیبی یادداشت، مذہبی روحانیت ، وطن سے محبت
کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔ اُن کی شاعری زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل، عہدِ حاضر کے سیاسی
و سماجی حالات اور ایک عام آدمی کے دکھ درد کی ترجمان ہے۔ یہی دُکھ درد اک عام آدمی
کو بہت خاص آدمی بنا دیتا ہے، ایسے میں راشد حسن رانا کا ماننا ہے کہ ”مدثر اقبال ہوراں
دیاں اکثر غزلاں وچ تہانوں زندگی سماج تے محبتاں دی تباہی واضح طور تے دکھائی دیوے
گی۔ بلاشبہ مدثر اقبال بہت چنگے خیالاں تے ڈوہنگی سوچاں والے شاعر نیں، جے کر اوہ اپنی
تخلیقی قوت نوں ہور ٹائم دین تے پنجابی شاعری نوں اک ہور خوبصورت تے طاقت ور آواز مل
جاوے گی۔“
اس کتاب پر لکھنے والے دیگر
اہلِ دانش میں ڈاکٹر یونس احقر، قائم نقوی، اختر شمار اور اکرم شیخ شامل ہیں۔ جبکہ
اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنے بہشتی ما پیاں دے ناں منسوب کیا ہے۔ پنجابی ورثے کے محافظ مدثر اقبال بٹ کی پنجابی ادب و ثقافت کے ساتھ کئی صدیاں پُرانی وابستگی ہے۔ اس
دوران انھوں نے کئی پنجابی کے اخبارات و رسائل اور دیگر پنجابی اداروں کی بنیاد رکھی۔
آج کے دور میں انھیں پنجابی صحافت کا ”امام“ کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہو گا۔ مدثر اقبال
بٹ نے جہاں پنجابی ادب کے لیے بھرپور جدوجہد کی وہاں انھوں نے اُردو ادب و صحافت میں
بھی اپنا نام پیدا کیا۔ مدثر اقبال اپنے نام اور کام کی بدولت بہت بلند اور روشن دکھائی
دیتے ہیں۔ عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر جان کاشمیری انھیں پنجابی صحافت میں مسلسل جدوجہد
پر ”ڈاکٹر مدثر اقبال بٹ“ کہہ کر مخاطب ہوتے ہیں اور بہت سے اہلِ دانش پنجاب یونیورسٹی
سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ انھیں پنجابی ادب و صحافت میں اپنی قلمی خدمات سرانجام
دینے پر ”ڈاکٹریٹ“ کی اعزازی ڈگری سے نوازا جائے۔ بٹ صاحب کے متعلق بہت سی یادیں اور
باتیں ایک مضمون میں قلم بند کرنا مشکل ہوگا ۔ آخر میں جان کاشمیری کے ان اشعار کے
سوا اور کیا کہا جائے۔
صرف خاموش محبت کے نہیں ہیں قائل |
لمحہ لمحہ تری عظمت کی قسم کھاتے ہیں |
خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیں گے ہم |
اے وطن! تیری حفاظت کی قسم کھاتے ہیں |
٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں