ادب و صحافت کا اعزاز۔۔۔ ادریس ناز

Idrees Naz


تحریر: صدام ساگر

ہر فنکار اپنے عروج کی معراج پر ہوتا ہے، ایسے ہی جدید لہجے اور کئی منفرد حوالوں سے اپنی شناخت رکھنے والے ادریس ناز کا شمار عصرِ حاضر کے اُن پڑھے لکھے ہنر مند لوگوں میں ہوتا ہیں جو تخلیقی اور علمی صلاحیتوں سے مالا مال ہو۔ ادریس ناز خوبصورت لب و لہجے کے نہ صرف شاعر ہے بلکہ بے باک کالم نگار، مقالہ نگار، افسانہ نگار، فلم رائٹر، تجزیہ کار، ہدایتکار، تجزیہ کار، کمپیئر اور مایہ ناز صحافی کے طور پر ادب و صحافت میں اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں روایت کی پاسداری بھی ہے اور اُردو شاعری پر بدلتے ہوئے رجحانات کی بازگشت بھی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات زیادہ نہیں لیکن بلندی فکر کی دعوت جا بجا موجود ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں احساس کی جس طرح سے ترجمانی کی گئی ہے اُسے ہم روایتی اور جدید غزل کے درمیان پل کا نام دے سکتے ہیں۔ وہ غزل، نظم کے علاوہ حمد و نعت اور مناقب بھی بہت سلیقہ مندی کے ساتھ کہتے ہیں۔ عشقِ محمد میں سرشار ہو کر معراج النبی اور حضور کی پیدائش کے بابرکت دن کے حوالے سے غالب کی زمین میں کہی گئی نعت سے دو شعر ملاحظہ کیجیے:

دہن کھلا ہی تھا آقا ترے بیاں کے لیے
”کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے“
زمیں کی گود میں کھیلے ہیں صاحبِ معراج
زمین رشک کا باعث ہے آسماں کے لیے

اسی کا مقطع دیکھیے:

زباں کو ناز میں رکھتا ہوں باوضو ہر دم
وضو ہے اسمِ محمد مری زباں کے لیے

ادریس ناز اپنی بات کہنے کا ڈھنگ بڑے وثوق سے کرنا جانتے ہیں، وہ اپنے محسوسات اور خیالات کو بڑی عمدگی سے بیان کرتے ہیں، وہ ایک صاحبِ مطالعہ اور محبت پرور آدمی ہے۔ ان کے لفظوں میں صاف گوئی بھی ہے اور چاشنی بھی۔ ان کی شخصیت کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ کوئی بھی بات دل میں نہیں رکھتے بلکہ دوسروں کے منہ پر برملا اُس کا اظہار کر دیتے ہیں چاہے کسی کو اچھی لگے یا بُری۔ ادریس ناز کئی کتابوں کے خالق بھی ہیں جن میں ”گل نو شگفتہ“ (شعری مجموعہ)، ”سب راہیں میری ہیں“ (نثری نظمیں)، ”سُرے راگ راگنیوں اور ٹھاٹھوں کا بیان“ (علم موسیقی پر مستند ترین تحقیق)، ”ناز برداریاں“ (منتخب کالم)، ”شاعر اور شاعری کے اصل مقام کا تعین (مقالہ خصوصی)، ”چھٹی“ (افسانے)، ”راکھ میں دبی چنگاریاں“ (معاشرتی مسائل پر سلگتے مضامین)، ”تاریاں دی لوئے“ (پنجابی شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ ان کا یہ شعر دیکھیے جو ان کی شخصیت، فکر اور فن کا خلاصہ ہے۔

پہلے پہل بضد تھا مری دوستی پہ وہ
پھر خود ہی ہٹ گیا مرا معیار دیکھ کر

ان کے کام کا معیار اور دوستی کا معیار ایک جیسا ہے۔ اُن کے کلام کی خوبیاں اُن کی پُر کشش شخصیت کو اور بھی چار چاند لگا دیتی ہیں۔ وہ خوابوں کی دنیا میں نہیں رہتے بلکہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں دیر نہیں کرتے۔ اُن کے اندر ایک سچا اور سنجیدہ تخلیق کار موجود ہیں۔ اُن کی شعری اور نثری تحاریر میں فکری پختگی نمایاں ہے۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے ہمیشہ اپنی صلاحیتوں اور ریاضت پر بھروسہ کیا جس کا صلہ اللہ نے اُنہیں پذیرائی اور عزت کی صوت میں عطا کیا۔ جس پر وہ آج نہ صرف خود پر فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اس پزیرائی اور وقار کو اپنے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتے۔ اس حوالے اُن کا یہ شعر دیکھیے۔

لاحق تھی ہم کو فِکر طلوعِ سحر کی ناز
ظلمت کے رُخ سے پردے ہٹاتے چلے گئے

میں نے اپنے تجزیاتی مطالعہ کے دوران محسوس کیا کہ ادریس ناز کی شاعری اور کالم دونوں اصناف جغرافیائی سرحدوں میں اسیر نہیں بلکہ ایک ہمہ گیرت اور اجتماعی فکر و نظر ان کے ہاں ملتا ہے جو انہیں آفاقیت سے ہمکنار کرتے ہیں، محبت ہو یا سیاست، معاشرے ہو کہ معاشیات، سب کچھ جیتی جاگتی زندگی سے ماخوذ ہے۔ محض تصوراتی یا ماورائی نہیں اور یہ اسلوب انہیں ادبی صحافتی حلقوں میں نمایاں اور ممتاز کرتے ہیں۔ یہ سب ان کے والدین کی دُعاؤں کا ثمر ہیں کہ وہ آج کامیابیوں کی منزلیں طے کرتے چلے جا رہے ہیں۔ انہیں اپنی ماں سے اس قدر محبت ہے کہ جس کا اندازہ آپ ان اس شعر سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔

پیٹ بھر کھا کے میں جب سو نہ گیا بستر پر
حلق سے نیچے مری ماں کے نوالا نہ گیا

ادریس ناز کئی عرصے تک ”ناز برداریاں“ کے نام سے روزنامہ پاکستان لاہور میں لکھتے رہیں ۔ وہ موجودہ عہد میں صحافت کے امام مجیب الرحمن شامی سے متاثر نظر آتے ہیں اور شامی صاحب بھی ان کی قلمی اور فنی صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں گوجرانوالہ کے بہت سے چہرے خود کو بابائے گوجرانوالہ، بابائے تقریبات جیسے خطابات سے اپنے منہ آپ منہ مٹھو بنے ہوئے ہیں مگر سب جانتے ہیں کس کا کتنا کام اور کتنا نام ہیں۔ 



گوجرانوالہ شہر کی موجودہ ادبی ،صحافتی فضا کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ادریس ناز جیسا سایہ دار پیڑ دور دور تک نظر نہیں آتا کہ جس کے دامن میں شاعری، کالم نگاری، تجزیہ کاری، افسانہ نگاری، نظامت کاری، ہدایتکاری ،گلوکاری اور صحافتی، علمی کئی کلیاں کھلتے ہیں جس کی تروتازگی اور خوشبو خزاں آنے پر بھی کبھی نہیں ختم ہوتی۔ ایسے خوبیوں کی بدولت ادریس ناز ابو الفن کے لقب کا مستحق ہے جو نہیں مانتے اُن کے لیے ابو اثر حفیظ جالندھری کا یہ شعر کافی ہو گا۔

حفیظ اہلِ زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

ادریس ناز آج کل وہ اپنا ایک ذاتی نیوز چینل ایف ایم 4k کے نام سے چلا رہے ہیں جس پر ان کا مقبول پروگرام ”ناز برداریاں“ ہفتے میں تین بار دیکھنے کو ملتا ہے۔ ادریس ناز کی شخصیت ایک ادارے کی حامل ہے۔ ان کے پاس بیٹھ جائیں تو آپ کو علم کا ایک خزانہ ملے گا جسے ڈھونڈنا نہیں پڑتا بس محبت سے تراشنا پڑتا ہے۔ ان جیسا فنکار صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا ہمارے درمیان موجود ہونا کسی نعمت سے کم نہیں۔ آخر میں ان اشعار کے سوا اور کیا کہوں۔

سب سے اعلیٰ جو، افکار کہاں سے لاؤں؟
تیرے معیار کے اشعار کہاں سے لاؤں؟
لوحِ رُخسار پہ تقدیر جو لکھ بیٹھا ہے
ناز جیسا کوئی فنکار کہاں سے لاؤں؟

٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں