”پاکستانی ادب کے معمار“ پروفیسر جلیل عالی



تحریر: صدام ساگر

کیا کیا دلوں کا خوف چھپانا پڑا ہمیں
خود ڈر گئے تو سب کو ڈرانا پڑا ہمیں
عالی انا پہ سانحے کیا کیا گزر گئے
کس کس کی سمت ہاتھ بڑھانا پڑا ہمیں

جلیل عالی زبان و بیان اور اسلوبِ تازہ کے ساتھ عمیق مشاہدات، نازک احساسات، تلخ و شیریں تجربات اور شدتِ جذبات کو شعری قالب میں ڈھالنے پر مکمل دسترس رکھتے ہیں۔ وہ شعری آہنگ میں انفرادیت کے حامل ہیں اور اپنے ہم عصر شعراءمیں منفرد اور ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام ” پاکستانی ادب کے معمار“ سیریز کے تحت پروفیسر جلیل عالی کی شخصیت اور فن پر زیر نظرکتاب خاور اعجازکی علمی و تحقیقی کاوشوں کا نتیجہ ہے جو یقینا عالی صاحب کے فن کو سمجھنے میں ایک بنیادی وسیلے کی حیثیت رکھتی ہے۔ خاور اعجاز خود بھی ایک باکمال شخصیت کے مالک اور عمدہ شاعر و نثر نگار ہیں جو ادب پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جن کی پروفیسر جلیل عالی کے ساتھ قربت بہت دیرینہ ہے۔

جلیل عالی کا تعلق آرائیں برادری سے ہے، ان کے آبا و اجداد کا پیشہ بھی زمینداری تھا۔ قیامِ پاکستان کے وقت وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کی مشکلات جھیلتے ہوئے لاہور سے گوجرانوالہ کے ایک گاؤں چھچھر والی میں قیام پذیر ہوئے۔ ان کی پیدائش ہندوستان کے ایک قصبہ ” ویرو کے“ میں ہوئی۔

جلیل عالی تہذیب کا شاعر ہے۔ میری نظر میں تہذیب کا شاعر اس کو کہا جاتا ہے جس میں الفاظ کا چناؤ کا سلیقہ ہو، احترام آدمیت اس کا خاصہ ہو، معاشرتی اقدار کی پاسداری کا ضامن ہو، تہذیب و تمدن کے آداب سے واقفیت خاص ہو اور یہ تمام خوبیاں جلیل عالی کی ذات اور شاعری میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی انہیں ”جلیل القدر انسان“ کا لقب دیتے ہوئے رقم طراز ہے کہ ” جلیل عالی ایک جلیل القدر انسان، شاعر اور دانشور ہے۔ تخلیقی دیانت اور استقامت جس کا شعار ہے۔ درویشی اور دلیری اُس کے وجود میں وجد کرتی ہے۔ دلیری اور دلبری میں صرف ایک نقطے کا فرق ہے، اُس نے یہ فرق بھی مٹا دیا ہے وہ پاکستان کے اُن چند لوگوں میں سے ایک ہے جو سرمایہ افتخار ہوتے ہیں، جن کے نزدیک سازو سامان سے بڑھ کر انسان کی قدر و منزلت ہوتی ہے۔

عالی صاحب موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔ انہیں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی راگ اور گیت بڑے شوق سے سننا پسند ہے۔ ایک تقریب میں جب عالیٰ صاحب سے موسیقی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ”موسیقی تو آفاقی زبان ہے اور اعلیٰ تر معیار کلاسیکی کا ہی ہے۔ گاتے تو سبھی ہیں مگر شعر کی روح، الفاظ کے مفہوم اور اُن کی جگہوں کا خیال رکھ کر گانا کوئی کوئی جانتا ہے اور خاں صاحب (حامد علی خاں) کلاسیکی موسیقی میں ایک بڑا نام تو ہیں ہی، غزل کی گائیکی میں بھی ایک منفرد اور معتبر مقام رکھتے ہیں۔“ یاد رہے کہ اس موسیقی کی محفل میں اُستاد حامد علی خاں نے جلیل عالی کی ایک غزل رچاؤ سے گائی تھی جس کا مطلع کچھ یوں تھا کہ:

منزل منزل ساتھ صدا کا تیرا میرا
جھلمل جھلمل شوق ستارا تیرا میرا

ان کی ادبی زندگی کا آغاز تو دسویں جماعت کی الوداعی تقریب کے لیے ایک نظم لکھنے سے ہُوا۔ جس کا مصرع کچھ یوں تھا کہ ”الوداع اے دوستو، یاروں کے یارو الوادع۔“ مگر جلد ہی ان کا شوق افسانہ نویسی کی جانب مڑ گیا، لیکن جلد ہی وہ شاعری کی طرف پلٹ آئے۔ آزاد، پابند اور معریٰ نظمیں بھی لکھیں۔ قطعات بھی لکھے، ماہیے بھی کہے، حمد و نعت اور سلام میں بھی پیچھے نہیں رہے۔ مختلف موضوعات پر مضامین اور تنقید بھی لکھی لیکن ان سب جہتوں کے باوجود غزل ہی اُن کا من پسند صنفِ ادب اور اولین ترجیح رہی۔ اس مضمون کے دوران میں نے چند سوالات پوچھے جن کے جوابات دیتے ہوئے انہوں نے کہا ”انٹرمیڈیٹ میں عاصی سے عالی تخلص کیا۔ میں اُس وقت جمیل الدین عالی کے نام سے واقف نہیں تھا۔ زندگی جیت نہیں ہار سہی پھرکیا ہے، چار دن کچھ تو کشا کش میں مزہ آئے گا، انٹر کے زمانے میں کسی سے نہیں اصلاح لی بلکہ شاعر دوستوں کی صحبت اور مطالعے سے سیکھا۔“ ان کی تصانیف میں ”خواب دریچہ“ (غزلیات)، ”شوق ستارہ“ (نظم وغزل)، ”عرضِ ہنر سے آگے“ (نظم و غزل) ان کتب کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اسے 2005 اور 2007 میں رائٹرزگلڈ ایوارڈ اور احمد ندیم قاسمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ ان کے کلام پر مبنی انتخاب خاور اعجاز کا ”لفظ مختصر سے مرے“ اور”ایک لہر سی بھی“ (غزلیات)، ”دن بدلتے نہیں“ (نظمیں)، ”عشق دے ہور حساب“ (پنجابی کلام)، ”شعری دانش کی دُھن میں“ (تنقیدی مضامین)، ”نور نہایا رستہ“، ”قلبیہ“ اور ”ایک لہر ایسی بھی“ جیسی شعری تصانیف اشاعت پذیر ہو کر کائناتِ ادب پر اپنی کرنیں بکھیر رہی ہیں۔ انہیں ادبی خدمات کے اعتراف میں بہت سے ادبی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں جن میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے ”تمغہ امتیاز“ برائے ادب 2016 شامل ہیں۔ ان کی شخصیت و فن پر بہت سے ایم فل کے مقالہ جات اور ادبی جرائد کے خصوصی نمبر شامل ہیں۔

جلیل عالی کی شاعری، فن و شخصیت اور موضوعات کو ایک مضمون میں قلمبند کرنا یقینا ناممکن ہے، اس لیے آخر میں”پاکستانی ادب کے معمار“ سیریز میں ”پروفیسر جلیل عالی شخصیت اور فن“ جس کے ابتدائیہ میں خاور اعجاز ”میری خوش قسمتی ہے کہ اکادمی ادبیات نے جلیل عالی پر کتاب مرتب کرنے کے لیے میرا انتخاب کیا۔ میں نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ عالی کی نمایاں ادبی جہات پر اپنی بھرپور صلاحیتوں کیساتھ سیر حاصل تبصرہ کر سکوں۔ مجھے اندازہ ہے کہ ڈھائی سو سے کچھ اوپر صفحات تحریر کر لینے کے بعد بھی عالی کی شخصیت کے بعض گوشوں کا احاطہ نہیں ہو پایا۔ میرے خیال میں اُن کی مکمل ادبی سرگرمیوں کو سمیٹنے کے لیے لگ بھگ اتنے ہی صفحات مزید درکار ہوں گے جو ممکن ہے اس کام کی اشاعت کے مرحلے میں حائل ہو جائیں، سو عالی کی تخلیقی ذات کے باقی ماندہ اجزا پر روشنی ڈالنے کے مرحلے کو آئندہ کسی مناسب موقع کے لیے محفوظ خیال کیجیے۔“ جبکہ اس کتاب کا پیش نامہ پروفیسر ڈاکٹر یوسف خشک نے لکھا جو اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین تھے جبکہ اب موجودہ اکادمی ادبیات کی ذمہ داریاں محترمہ ڈاکٹر نجیبہ عارف بڑے احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ اس خوبصورت کتاب پر میں خاور اعجاز اور اس کتاب کی تدوین،تزئین و آرائش اور طباعت پر اکادمی ادبیات پاکستان کی کاوشوں کو ڈھیروں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بقول شاعر:

لوگ اُن کو جلیل کہتے ہیں
مَیں نے عالی جناب لکھا ہے

1 تبصرہ: