کوئی کہکشاں نہیں ہے

Shehnaz Shoro


تحریر: شہناز شورو

 شادی کے نام پر ہونے والے ثقافتی قتل کی شکار بچی کی تصویر کے پاس ڈاکٹر انوار نے مجھے بین کرتے دیکھا تو لکھا۔

اب شہناز  اس پر ایک کہانی لکھے گی۔

میں اس بچی کی بند آنکھوں، چُپ ہونٹوں اور پیلے زرد ہاتھوں پر حنا سے لکھی موت کی تحریر دیکھ کر پوچھتی ہوں، بتائیے ڈاکٹر انوار صاحب کتنی کہانیاں لکھوں؟ کیا کوئی ایسی کہانی بھی ہوگی جسے سُن کر یہ معصوم یخ بستہ لاش پھر سے جاگ جائے، اس کے سرد ہونٹ پھر سے بولنے لگیں اور زمانہ محبت کے قابل ہو جائے۔

عجیب دور ہے کہ جس میں بےہودہ الفاظ اور غلیظ گالیوں کو شاعری کا نام دے کر، نشیں کو ہیرو بنا کر برین واشڈ جمِ غفیر کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔

اور یہ کسی ایک مُلک یا اسٹیٹ کا المیہ نہیں ہے۔ پوری دنیا اس کرب ناک صورتحال سے نبردآزما ہے، امن کے خواب دیکھنے والے انسانوں کے خوابوں کی تعبیر یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں بھی انسان جنگی عزائم پر تاحال قابو نہیں پا سکا ۔ اب تک یورپ جیسے متمدن خطے میں جنگ جاری ہے، اسے کیا نام دیا جائے۔

 تہذیب شاعروں کا خواب ہے۔ امن فقط ماؤں کی لوری ہے اور جنگ زدہ علاقوں میں زندگی ایک آنسو سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

یہ ہے داستاں خود ساختہ تہذیب کے علمبرداروں کی!

 جنگی جنون میں مبتلا حکمران سیکڑوں ممالک کو تہس نہس کر کے ان کے معدنیات، وسائل اور اثاثے لوٹ کر اپنے مُلکوں میں ویلفیئر، تعمیر و خوشحالی اور ترقی کی تصاویر دکھا کر تیسری دنیا کے باشندوں کو بےوقوف بناتے ہیں۔ یہی وہ ممالک ہیں جو اقوامِ متحدہ کا ناٹک کھیلتے ہیں اور مجرموں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وطن کے دفاع کے لیے لڑتے دہشت گرد اور یلغار کرتے ہیرو۔ ان کے ہاتھوں تباہ شدہ ممالک کے غیور عوام کے پٹاخے بم، ان کے بم پٹاخے۔ یہ لوگ ہمیں ٹیبل ٹاکس کی افادیت پر لیکچر دیتے ہیں۔ یہ ہمیں امن اور تہذیب سکھانے کے دعوے دار ہیں۔

ڈاکٹر اقبال نے برسوں پہلے کہا تھا۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ ہوگا، ناپائیدار ہوگا

1 تبصرہ: