تنقیدی شعور کے حامل قلمکار صدام ساگر کے نام، ایک شام

Sadam Sagar


رپورٹ۔ بلال احمد چوہدری

موجودہ عہد میں بہت سی ایسی شخصیات موجود ہیں جو اپنے قلمی اور تخلیقی کام کی بدولت علم و آگہی کے چراغ روشن کیے ہوئے ہیں، جن میں سے صدام ساگر کا شمار ایسے قلم کاروں میں ہوتا ہے، جن کی قومی اخبارات و رسائل میں چھپنے والی تحریریں پڑھ کر ایک غیر جانب دار ناقد یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ لکھ سکتا ہے کہ صدام ساگر نے اپنی عمر سے بڑھ کر معیاری ادب تخلیق کیا ہے۔ صدام ساگر کا تعلق گوجرانوالہ جیسی زرخیز مٹی سے ہے جہاں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان، عبدالحمید عدم اور ن۔م راشد جیسی بے شمار ہستیوں نے جنم لیا۔ صدام ساگر متعدد خوبیوں کے مالک ہیں، ان کے دو عدد شعری مجموعے ”بھلیاں راہواں“ اور ”روشن کرنیں“ کے نام سے قارئینِ سخن سے داد وتحسین کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ گزشتہ سات برسوں سے وہ ایک ادبی مجلہ ”نوائے ادب“ انٹرنیشنل بھی بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ چند روز قبل تنظیم بقائے ثقافت پاکستان اور ایف ایم نیوز کے اشتراک سے ان کی شخصیت اور فن کے اعتراف میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس کی نظامت کے فرائض ممتاز شاعر اور کالم نگار ادریس ناز نے سرانجام دیے۔ صدام ساگر کے نام ایک شام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے شروع ہُوا جس کی سعادت قاری عبداللہ معظم نے حاصل کی۔ نعت کے لیے مزمل احمد وصال نے خواجہ آفتاب عالم کا لکھا ہُوا نعتیہ کلام پیش کیا۔

Sadam Sagar


صدام ساگر کے نام ایک شام میں اظہار خیال کے لیے بہت سی خوبیوں کے مالک خواجہ آفتاب عالم ایڈووکیٹ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ”مختصر عرصہ میں بڑی شہرت پانے والا، خوبصورت، خوب سیرت، خوب رو صدام ساگر تجھے سلام۔ شاعر جس فضا اور ماحول میں سانس لیتا ہے اُس کے اثرات اُس کے فن پر بھی مرتب ہوتے ہیں یہ کمال ساگر کو بھی حاصل ہُوا ہے جو معمولی سی بات کا بھی اظہار کرتا ہے تو بھی اُس لطف کے ساتھ کہ اس میں جدت پیدا ہو جاتی ہے اور ذہن سامع بے اختیارانہ طور پر اس سے لطف اُٹھاتا ہے۔ پھر وہ اس سلسلے میں جب انہونی کو ہونی اور ہونی کو انہونی ثابت کر جاتا ہے تو عجب سماں پیدا ہو جاتا ہے۔ اپنی غزل میں صدام ساگر ایک شاعر اور بہترین آرٹسٹ نظر آتے ہیں، انہوں نے کالم نگاری میں ملک گیر شہرت پائی ہے اتنے مختصر عرصہ میں شاید ہی یہ اعزاز کسی کے حصہ میں آئے۔

اس پُروقار تقریب کو چار چاند لگانے کے لیے گوجرانوالہ کے معروف قانون دان عمران حیدر نقوی نے صدام ساگر کی شخصیت اور فن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ”صدام ساگر بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں، یہ نوجوان ایک ہمہ جہت شخصیت ہے، شاعر ہے، نثر نگار ہے، کالم نویس ہے، ایک ادبی رسالے نوائے ادب کا مدیر ہے اور نجانے کیا کیا ہے۔ جب ان کو بطور شاعر دیکھتے ہیں تو بہت سادگی کے ساتھ بہت بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔“ صدام ساگر کی شاعری اور کالم نگاری میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں وہ اپنی روز مرہ زندگی میں جن حقائق کو دیکھتے ہیں اُن کی حقیقت کو بڑے معصومانہ انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔

حقیقت پہ مبنی ہیں کردار سارے
مرے پاس جھوٹی کہانی نہیں ہے

 انہوں نے نوائے وقت کے محبوب کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کی تحریروں سے متاثر ہو کر کالم نگاری کا سفر اختیار کیا۔ صدام ساگر کے کام کی شہرت اور ان کی نثر نگاری کا ڈنکا گوجرانوالہ سے دوسرے شہروں تک بجتا ہُوا پاکستان کی سرحدوں سے باہر بھی سنائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر امین جان نے صدام ساگر کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا:

کوئی بھی کر نہ پایا جو کیا، صدام ساگر نے
نیا انداز کالم کو دیا، صدام ساگر نے
ادیبوں، شاعروں، کالم نویسوں، رہنماؤں پر
سبھی پہ لکھ کے پہنچا قلم کی انتہاؤں پر
زمانے بھر نے کان اپنے دھرے اس کی صداؤں پر
ہر ادبی گھاٹ کا پانی پیا، صدام ساگر نے
نیا انداز کالم کو دیا، صدام ساگر نے

اس خوبصورت خراجِ تحسین کے بعد پنجابی کے مقبول شاعر قیصر محمود گورائیہ، شاعرِ درویش شریف فیاض وزیر آبادی اور گوجرانوالہ کی خواتین شاعرات میں منفرد مقام حاصل کرنے والی شاعرہ عصمت نذیر سمیت سب نے اپنی محبت کا اظہار منظومات کی صورت میں کیا۔ ڈائریکٹر آرٹس کونسل گوجرانوالہ اسد احمد نے بھی خصوصی شرکت کی، منفرد اسلوب کے مزاح نگار ڈاکٹر سعید اقبال سعدی نے لاہور مشاعرے میں شرکت کے باعث صدام ساگر کی خوش اخلاقی، فرمانبرداری اور کامیابی پر ایک قابلِ تعریف جملہ کہا ”با ادب با مراد۔“ جبکہ ڈاکٹر عمران اعظم رضا پنجاب پولیس میں ایک قابلِ فخر اور ایماندار آفیسر بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر اپنے فرائض بڑے احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔ صدام ساگر کے نام ایک شام میں انہوں نے اپنی والہانہ محبت میں ایک طویل مضمون لکھا جو اس تقریب میں وقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں صدام ساگر کے شعری مجموعے روشن کرنیں پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی۔ ان کے بعد صاحبِ شام صدام ساگر کو بڑے خوبصورت انداز میں بلایا گیا جس پر انہوں نے ناز آفرین شاعر ادریس ناز اور تنظیم بقائے ثقافت کے چیئرمین چوہدری اشرف مجید سمیت تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ”اس تقریب میں مجھ خاکسار کی شخصیت اور فن کے حوالے جو کچھ بھی مجھے اور آپ سب کو سننے کو ملا وہ یقیناً ان تمام دوستوں کے دل کی آواز اور حقیقی محبتوں کا ثبوت ہیں، یہی سب دوست میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں، جن کے خوشبودار لہجے سے ادا ہونے والی باتیں مجھے ہر پل توانا رکھے گی۔“ صدام ساگر نے اپنے مختصر اظہار خیال کے بعد چند غزلوں کے پھول اپنے دوستوں میں پیش کیے۔

Sadam Sagar


گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والی اس شاندار تقریب کی صدارت اُستاد صحافی، روزنامہ پاکستان کے گروپ ایڈیٹر اور پاکستان ٹیلی وژن سمیت دیگر چینلز پر بطور تجزیہ کار، بے باک اور صاف گو انسان ایثار رانا نے گوجرانوالہ کے دوستوں کی محبتوں کو سراہتے ہوئے صدام ساگر کو زندگی کے نئے راستوں پر ثابت قدم رہنے، قلم کا سچا سپاہی بننے، شخصیات پر ادبی کالم اور خاکے لکھنے کے علاوہ دیگر موضوعات پر قلم اُٹھانے کی طرف متوجہ کیا، مزید انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ”ساگر اگر اچھا صحافی بننا ہے یا کالم نگار تو قلم کی حرمت پر مر مٹنا ہوگا، اس ملک کے فرعونوں کا ڈٹ کر مقابلہ صاف گوئی سے کرنا ہوگا، جس دن تم اس مٹی کا قرض اُتارنے میں کامیاب ہو گئے اُس دن تم بڑے کالم نگار بن جاؤں گے۔“ ایثار صاحب کی ان سبق آموز باتوں سے یقینا صدام ساگر بہت کچھ سیکھ کر روشن پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ ان سے قبل لاہور سے تشریف لائے مہمان سید افراز علی نازش نے صدام ساگر کے روشن مستقبل میں کامیابیوں کے لیے دُعاؤں کا تحفہ پیش کیا۔ تنقیدی شعور کے حامل، مقبول شاعر صدام ساگر کے نام ایک شام گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والی بہت سی شاموں میں ایک ایسی خوبصورت اور کامیاب شام کو بشیر بدر کے اس خیال کی مانند کامیاب تصور کیا جائے گا۔

نہ اُداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے

1 تبصرہ: