الیکشن 2024 کا منظرنامہ

M.J Gohar

ملک کے عام انتخابات میں بظاہر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں اپنے معروف انتخابی نشان ”بلے“ سے محرومی کے بعد بحیثیت سیاسی جماعت انتخابی عمل کا حصہ نہیں رہی۔ اس کے حمایت یافتہ تمام امیدوار مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ ”بلے“ کا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار، ووٹرز اور سپورٹرز سب میں مایوسی، بے چینی، بددلی اور کامیابی کے حوالے سے ناامیدی کا پایا جانا ایک فطری بات ہے جو ناقابل فہم نہیں۔

مبصرین، تجزیہ نگار اور سیاسی ماہرین الیکشن 2024 کی غیر جانبداری، شفافیت اور منصفانہ و آزادانہ انعقاد پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن سے لے کر نگراں حکومت تک اور عدالتی فیصلوں سے لے کر پس پردہ اقدامات تک سب کا کردار تنقید کی زد میں ہے۔ ریاستی اداروں کی غیر جانبداری سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ ایک طرف پی ٹی آئی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کو اقتدار میں لا کر میاں نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بنانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) لیگ کو جلسے جلوس نکالنے کی اجازت دے دی گئی تو وہیں دوسری جانب پی ٹی آئی کے لیے اپنی الیکشن مہم جاری رکھنا دشوار بنا دیا گیا ہے۔کجا بڑے بڑے جلسے اور جلوس۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ایسے الیکشن کو شفاف، منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا الیکشن 2024 کے نتائج تمام سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول ہوں گے؟ کیا عوام کی جانب سے رد عمل نہیں آئے گا، کیا شکست خوردہ جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی کے کارکنوں، ہمدردوں اور بہی خواہوں کی جانب سے احتجاج سامنے نہیں آئے گا؟ کیا (ن) لیگ کے ”سہولت کاروں“ کو علم ہے کہ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے باوجود اپنی مدت پوری کیوں نہ کر سکے؟ ہر بار ”پنجہ آزمائی“ کیوں کرتے ہیں؟ محترم ججز اور جرنیلوں کو تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟ پھر خود ہی ”مجھے کیوں نکالا؟“ کی گردان کیوں کرتے ہیں؟ کیا ریاست کے ”ذمے داروں“ کے پاس ان سوالوں کے تسلی بخش جوابات ہیں؟ میاں صاحب اپنی افتاد طبع کے باعث اقتدار میں آ کر مخالفین کے ساتھ انتقامی سلوک کرنے کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ آج بھی اسی خیال کے حامی اور مصر ہیں، وہ سابق ججز صاحبان اور جرنیلوں کو نشان عبرت بنانے کے اشارے دے رہے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران وہ عوام کی ذہن سازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مجھے پانچ ججوں نے کیوں نکالا؟ اگر میاں صاحب نے اپنا منتقمانہ مزاج سیاست تبدیل نہ کیا تو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے باوجود وہ اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری نہیں کرسکیں گے۔

آپ انتخابی جلسوں میں (ن) لیگ کے رہنماؤں کی تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں سوائے مخالفین پر ”گولہ باری“ کے اور کچھ کام کی بات نہیں ہے۔ ماضی کے نام نہاد ”کارناموں“ کے گن گائے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور کی بخیہ دری تو بڑے زور و شور سے کر رہے ہیں لیکن شہباز حکومت کے 16 ماہ کی ”عوام دشمن“ کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے زبان پر کانٹے پڑتے ہیں۔ پوری انتخابی مہم کے دوران لیگی رہنماؤں کی تقریروں کا سارا زور مخالفین پر الزامات در الزامات اور کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ نظریے کی سیاست بھاری بوٹوں تلے دب کر دم توڑ گئی ہے۔ ایسا کیوں؟ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب ”ڈیل“ کرکے لندن سے پلٹے ہیں، اسی لیے انھیں ”ڈھیل“ دی جا رہی ہے اور جب تک ”یس سر!“ کہتے رہیں گے بات بنی رہے گی۔ جس دن انھوں نے ”نو سر!“ کہا تو پھر انھیں نئے سرے سے ”مجھے کیوں نکالا“ کا سبق دہرانا پڑے گا۔ (ن) لیگ نے ”پاکستان کو نواز دو“ کے نام سے جو منشور پیش کیا اس میں نوکریاں دینے کے علاوہ دیگر کئی بلند و بانگ دعوے کیے گئے ہیں لیکن مضمحل معیشت کے باعث ان دعوؤں پر عملدرآمد کیسے ممکن ہے۔ اس بارے میں منشور خاموش ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی اہم سیاسی قوت اور چاروں صوبوں میں ووٹ بینک رکھنے والی سیاسی جماعت ہے۔ پیپلز پارٹی نے جمہوریت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی اور سیاسی جماعت نے نہیں دیں۔ اپنے دو اہم سیاسی رہنماؤں کو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوریت کے لیے اپنی جان قربان کردی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جنرل ضیا کے دور میں کوڑے کھائے، جیلیں کاٹیں اور بے انتہا صعوبتیں برداشت کیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے ”پاکستان کھپے“ کا نعرہ لگایا۔ 2008 کے الیکشن میں  پیپلز پارٹی نے برسر اقتدار آنے کے بعد ملکی صدارت کا منصب آصف زرداری کے سپرد کر دیااور اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو دے دیے۔ پانچ سالہ جمہوری مدت پوری کر کے آئینی طریقے سے اقتدار منتقل کیا۔ آج بی بی کا بیٹا بلاول بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کر رہا ہے۔ بلاول کے لیے سب سے بڑا چیلنج پنجاب میں پی پی پی کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا ہے۔ الیکشن 24 کے حوالے سے بلاول بھٹو بھرپور مہم چلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف ان کا خاص نشانہ ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنے والے غلط فہمی کا شکار ہیں۔ طاقت کا سرچشمہ صرف عوام ہیں۔ بلاول نے بالکل درست کہا کہ ملک اس وقت ایک طرف معاشی بحران کا شکار ہے تو دوسری طرف جمہوری بحران کا شکار ہے۔سابق صدر آصف زرداری کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے، مسائل کا حل صرف سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔ بلاول زرداری نے عوام سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ مجھے وزیر اعظم بنوا دیں تو پیپلز پارٹی ملک کو سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔پیپلز پارٹی نے اپنے پارٹی منشور کا اعلان کر دیا ہے جس میں آمدنی دگنی، تین سو یونٹ مفت بجلی اور کسان کارڈ کے اجرا کا وعدہ بھی شامل ہے، لیکن معیشت کی دگرگوں صورت حال کے پیش نظر یہ ایک بڑا مشکل مرحلہ ہے۔

الیکشن 2024 کے حوالے سے جو منظر نامہ بنتا نظر آ رہا ہے اور جو تبصرے و تجزیے کیے جا رہے ہیں ان سب کے پس منظر میں کہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ الیکشن متنازع، دھاندلی زدہ، جانبدارانہ قرار پائیں گے۔ ہر ایک کے لیے نتائج تسلیم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ الیکشن خونریز اور تصادم سے بھرپور ہوں گے۔ احتجاج کا نیا راستہ کھل جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) سمیت کسی جماعت کو سادہ اکثریت بھی نہیں ملے گی۔ مخلوط حکومت بنانا پڑے گی۔ آزاد امیدواروں کی منڈی لگے گی جو پی ٹی آئی کا کڑا امتحان ہوگا۔ ریاستی اداروں بالخصوص الیکشن کمیشن کو ہدف تنقید بنایا جائے گا۔

کوئی تبصرے نہیں