ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف منفی پروپیگنڈا
1958 میں ملک میں مارشل لا لگانے والے ایوب خان نے 1964 میں بنیادی جمہوریت کے تحت ہونے والے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی لیکن عوام نے ان انتخابات کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کو دھاندلی زدہ کہا۔ آمر ایوب خان کے خلاف نفرت کی ایک وجہ معاہدہ تاشقند بھی تھا جس میں روس کی دعوت پر بھارت اور پاکستان کے مذاکرات ہوئے اور عوامی ردعمل یہ تھا کہ صدر ایوب نے میدان میں جیتی ہوئی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار کر سیکڑوں شہیدوں کا خون رائیگاں کردیا۔
یہ نفرت اس وقت مزید بڑھ
گئی جب تاشقند کے مذاکرات کی تصاویر منظر عام پر آئیں جس میں اس وقت کے وزیر خارجہ
ذوالفقار علی بھٹو کو مذاکرات میں علیحدہ تاثرات کے ساتھ دیکھا اور یہ خبریں عام ہوئیں
کہ وزیر خارجہ کا ان مذاکرات میں کوئی حصہ نہیں تھا اور پورے مذاکرات آمر ایوب نے ہی
کیے تھے۔ عوام کا ردعمل مزید سخت ہو گیا جب بھٹو نے تاشقند سے واپسی پر وزارت خارجہ
سے استعفیٰ دے دیا اور ملک سے بھی چلے گئے اور یورپ کے ملک جرمنی میں قیام پذیر ہوگئے
، وہیں پر پاکستانی سفارت خانے کے فرسٹ سیکریٹری جے۔اے رحیم سے ان کی ملاقاتیں ہوئی۔
جے۔اے رحیم نے ان کو مشورہ دیا کہ پاکستان میں بائیں بازو کی ایک نئی سیاسی پارٹی بنا
دی جائے۔ بھٹو نے جرمنی سے پاکستان میں اپنے دوستوں سے مشورے کیے اور چند ماہ بعد جب
وہ پاکستان واپس آئے تو ان کی مقبولیت کا عوام میں بے پناہ اضافہ ہو چکا تھا۔
پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے نئی پارٹی کا منشور
پیش کیا جسے عام فہم زبان میں روٹی، کپڑا اور مکان کہا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پیپلز پارٹی
نے ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز بھی کردیا ساتھ ہی پارٹی کے جنرل سیکریٹری نے آیندہ
صدارتی انتخاب میں ذوالفقار علی بھٹو کو پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نام
بھی پیش کردیا اور اب جنگ کھل کر لڑی جانے لگی، پی پی پی کی مقبولیت ہر گزرتے دن کے
بعد بڑھتی جا رہی تھی، پارٹی میں مشہور نام شامل ہونے لگے جس میں مزدور لیڈر مختار
رعنا اور طفیل عباس کے نام نمایاں تھے۔ بابائے کسان کی شہرت رکھنے والے شیخ رشید بھی
پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے اس کے ساتھ بائیں بازو کی جماعت این ایس ایف پیپلز پارٹی
میں شامل ہوگئی بلکہ ذوالفقار علی بھٹو نے این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد
کو آگے بڑھایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے طلبا سے خطاب کیا اور وہیں پر بھٹو کے مغربی پاکستان
کے دوروں کا اعلان بھی ہوا لیکن اس کی نوبت نہ آ سکی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار
کر لیا گیا لیکن جو کچھ ایوب خان چاہتا تھا نہ ہو سکا جیل میں ہونے کے باوجود اس کی
مقبولیت بڑھتی چلی گئی، اسی دوران ایک اور واقعہ ہوا، صدر ایوب کی طبیعت اس قدر خراب
ہوئی کہ انھوں نے صدارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا لیکن انھوں نے زیادتی یہ کی کہ اپنے ہی
بنائے ہوئے آئین کو قدموں تلے روند کر اقتدار اس وقت کے آرمی چیف کے حوالے کیا جبکہ
1964 کے آئین کے تحت انھیں اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنا تھا یعنی
1958 کا مارشل لا جاری رکھا۔
یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا
اور اقتدار سنبھالتے ہی ون یونٹ ختم کردیا اور مغربی پاکستان کے چار صوبے بنا دیے۔
شیخ مجیب اپنے زمانہ طالب علمی کے سیاسی میدان میں قدم رکھ چکے تھے اور اپنے زمانہ
طالب علمی میں عوامی لیگ کے طلبا تنظیم میں خاصے سرگرم تھے۔ پھر جب حسین شہید کو ایوب
خان نے اپڈو کی فہرست میں شامل کیا اور وہ پاکستان کو چھوڑ کر لبنان چلے گئے تو شیخ
مجیب نے خود کو عوامی لیگ کا صدر بنوا دیا۔ ایک چھوٹے واقع سے شیخ مجیب کی مغربی پاکستان
سے نفرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب شیخ مجیب مغربی پاکستان کے دورے پر آئے اور
اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے تو انھوں نے جہاز سے اترتے ہی ایئرپورٹ کی زمین پر ہاتھ
پھیرا اور کہا ”اس میں سے مجھے پٹ سن کی خوشبو آ رہی ہے۔“ پٹ سن جو اس وقت مشرقی پاکستان
میں اگائی جاتی تھی اور پاکستان کی برآمدات میں اس کا بڑا حصہ ہوتا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن
کہنا چاہتا تھا کہ پٹ سن سے کمائی ہوئی دولت سے اسلام آباد بنایا گیا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے واحد سیاسی سیاست کار
تھے جنھیں معاملات کی سنجیدگی کا اندازہ ہوچکا تھا۔ وہ مغربی پاکستان میں انتخابات
میں کامیابی حاصل کر چکے تھے۔ وہ 23 مارچ یعنی یوم پاکستان سے قبل شیخ مجیب سے مذاکرات
کے لیے پیپلز پارٹی کا اعلیٰ سطح کے وفد کے ساتھ ڈھاکہ پہنچ گئے ان کا قیام ڈھاکہ کے
انٹر کانٹی نینٹل میں تھا۔ مشہور ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض بھی شامل تھے جنھوں نے
ڈھاکہ میں ہی اپنی مشہور زمانہ نظم ”ہم کے ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد“ اس نظم
کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں ایک انٹرویو پر یہ کہا گیا کہ 23 مارچ کو ڈھاکہ کے ہر مکان
اور دکان پر بنگلہ دیش کے پرچم تھے اور ہم ہوٹل میں تھے اور کھڑکی سے ڈھاکہ کا یہ منظر
دیکھ رہے تھے۔
1970 میں انتخابات ہوئے اور مشرقی
پاکستان کی دو کے علاوہ تمام نشستیں عوامی لیگ کے حصے میں آئیں۔ بھٹو 23 مارچ کے بعد
بھی ڈھاکہ میں رہے۔ انتخابات میں واضح اکثریت کی وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی کے علاوہ
ہر جماعت نے عوامی لیگ کے امیدوار کے حق میں دستبردار کر رہے تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی
بھاشانی گروپ عوامی لیگ کے بعد دوسری بڑی جماعت سمجھی جاتی تھی لیکن اپنے امیدواروں
کو دستبردار کرنے میں اس نے پہل کی اور جماعت اسلامی کے تمام امیدواروں بہ مشکل اپنی
ضمانتیں بچا سکے اور محبت کا زم زم بہہ رہا ہے بالکل غلط ثابت ہوا۔ جماعت اسلامی نے
عوامی لیگ کے خلاف الشمس اور البدر تشکیل دیے۔ جنھوں نے مشرقی پاکستان میں فوج کا بھرپور
ساتھ دیا۔
شیخ مجیب کو ایک بار پھر
گرفتار کیا گیا۔ اس بار ان پر بغاوت کا کیس بنایا گیا۔ شیخ مجیب نے اپنی گرفتاری کسی
قسم کی مزاحمت کے بغیر دے دی۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر کمال بھی گرفتار کیے گئے۔ ان دونوں
کو بغاوت کے جرم میں گرفتار کرکے اسلام آباد لایا گیا۔ اس دوران عوامی لیگ میں مجیب
کے بعد سب سے بڑا لیڈر لایا گیا۔ پیچھے جانے والا ملا تاج الدین گرفتاری سے بچ کر انڈیا
فرار ہو گیا۔ انڈیا نے مکتی باہنی کی تشکیل کی ساتھ ہی اس نے اس وقت کی انڈیا کی وزیر
اعظم اندرا گاندھی سے ملاقاتیں کیں اور انھیں مکتی باہنی کی ٹریننگ دینے پر راضی کرنے
کی کوشش کی، بالآخر انھیں اس پر تیار کر لیا، جب مکتی باہنی کی ٹریننگ مکمل ہوگئی تو
انڈیا نے پاکستان پر حملہ کر دیا جس میں انڈین فوج ان کے پیچھے تھی مکتی باہنی اولین
صفوں میں تھی۔
پاکستان نے ان کی بھرپور
مزاحمت کی۔ بھٹو نے برسر اقتدار آتے ہی مشرقی پاکستان پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت
محسوس کی اور ٹکا خان کو مشرقی پاکستان کا کمانڈر مقرر کیا اور ساتھ ہی سلامتی کونسل
میں فوری جنگ بندی کی قرارداد پیش کرنی چاہی مگر اس سے پہلے پولینڈ نے جنگ بندی کی
قرارداد پیش کردی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جو پاکستان کے وفد کی قیادت کر رہے تھے انھوں
نے اس قرارداد کی بھرپور مخالفت کی اور ساتھ ہی اس ایشو پر پرجوش تقریر کی۔ جس کا اختتام
ان الفاظ کے ساتھ ہوا کہ میرا ملک خون میں نہا رہا ہے میں اس خون آلود ملک کی نمایندگی
کر رہا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ سلامتی کونسل سے واک آؤٹ کرگئے بھٹو پاکستان لوٹ آئے اور
اپنے فرائض ادا کرنے شروع کر دیے لیکن دائیں بازو کے ترجمان اپنے جھوٹے پروپیگنڈے میں
اپنے مضامین لکھتے رہے کہ بھٹو اگر پولینڈ کی مخالفت نہ کرتا تو سیکڑوں نوجوانوں کی
جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو نے جنگ بندی قرارداد پھاڑ کر پاکستان
کو دنیا میں تنہا کر دیا یہ منفی پروپیگنڈا اس وقت تک جاری رہا جب تک سیکریٹری خارجہ
عزیز احمد کی کتاب سامنے نہ آئی۔
عزیز احمد نے اپنی کتاب میں
لکھا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پولینڈ کی قرارداد نہیں پھاڑی تھی بلکہ اپنے وہ نوٹس
پھاڑے تھے جو رات بھر جاگ کر پولینڈ کی قرارداد کی مخالفت کے لیے تیار کیے گئے تھے
لیکن جماعت اسلامی کی پروپیگنڈا مشینری پروپیگنڈا کرتی رہی اور ان کے جنرل سیکریٹری
لیاقت بلوچ نے یہاں تک کہہ دیا کہ جماعت اسلامی کی بنیاد سید مودودی نے علامہ اقبال
کے کہنے پر رکھی تھی۔ جھوٹ بولو تو بڑا جھوٹ بولو، اسے بار بار دہراتے رہو تاکہ لوگوں
کو یہ جھوٹ سچ لگنے لگے۔ حالاں کہ سید مودودی اس وقت حیدرآباد دکن میں تھے اور علامہ
اقبال اپنے علاج کے سلسلے میں کشمیر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
کوئی تبصرے نہیں