اکادمی ادبیات کے زیر اہتمام عالمی یوم خواتین کے موقع پر مشاعرے کا انعقاد
کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ) اکادمی ادبیات پاکستان کراچی
کے زیر اہتمام ”8 مارچ عالمی یوم خواتین کے موقع پر مشاعرہ“ منعقد ہوا جس کی صدارت
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔ جبکہ مہمانان خصوصی ڈاکٹر سحر امداد اور ڈاکٹر تنویر انجم تھیں۔
اس موقع پر اپنے صدارتی خطاب میں معروف شاعرہ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ ہم اکیسویں
صدی میں جی رہے ہیں۔ تادم تحریر دنیا بھر میں سو سے زائد دفعہ یہ دن منایا جا چکا ہے۔
اس دن کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو امریکہ کی ان خواتین کو ضرور یاد کیا جاتا ہے جنھوں
نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی اور اس تحریک کا آغاز کیا۔ 8 مارچ 1907 میں نیو یارک
کی لباس سازی کی صنعت سے وابستہ سیکڑوں کارکن عورتوں نے مردوں کے مساوی حقوق اور بہتر
حالات کار کے لیے زبردست مظاہرہ کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ دس گھنٹے کام کے عوض اچھی
تنخو او دی جائے۔ پولیس نے ان خواتین پر لاٹھی چارج کیا اور کئی عورتوں کو گرفتار کر
کے جیل میں بھیج دیا۔ اگلے ہی سال 8 مارچ کے دن نیو یارک میں ہی کچھ اور خواتین نے
ووٹ کے حق، اپنے حقوق اور بچوں کی جبری مشکلات کے خاتمے کے لئے مظاہرہ کیا۔ اس جلوس
پر بھی لاٹھی چارج کیا گیا۔
1910 میں سوشلسٹ خواتین کی عالمی کا نفرنس کے موقع پر 17 ممالک
سے ایک سو سے زائد خواتین نے شرکت کی کانفرنس میں مشترکہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ
8 مارچ کو ہر سال ور کنگ خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا۔ مہمان خاص ڈاکٹر
سحر امداد نے کہا کہ پہلی بار ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ میں خواتن کا عالمی دن
منایا گیا۔ ابتدا میں اس دن کو ورکنگ وومن ڈے کی مناسبت سے منایا جاتا تھا۔ 1975 میں
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام عالمی سطح پر خواتین کا سال منایا گی اور طے ہوا کہ ہر سال
عالمی سطح پر خواتین کا ایک دن منایا جائے گا جس کے دو سال بعد یعنی 1977 میں اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی منظوری دے دی اور اقوام متحدہ کے تمام رکن
ممالک کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ روایتی اقدار کے تحت ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے
دن کے طور پر منائیں۔
عورت ماں ہے، بیٹی ہے، بہن
ہے لیکن ان سب رشتوں سے بڑھ کر وہ ایک انسان بھی ہے۔ مذکورہ تمام کردار وہ ہیں جو معاشرے
کے مرد نے اس کی جھولی میں ڈالے ہیں اور ازل سے عورت بھی خوشی خوشی ان تمام رشتوں اور
کرداروں کو نہ صرف قبول کرتی آئی ہے بلکہ ان کے مطابق خود کو ڈھالتی بھی رہی ہے۔ لیکن
کہیں نہ کہیں یہ سوال دب کر رہ جاتا ہے کہ بحیثیت انسان وہ کیا چاہتی ہے؟ عموماً ایک
عورت کی زندگی کا سفر سفر بیٹی سے بیوی بننے اور پھر بیوی سے ماں بننے تک ہی محدود
ہوتا ہے لیکن اس سفر میں بھی اسے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے، اپنے فرائض تو نبھاتی رہتی
ہے لیکن اپنے حقوق سے دستبردار یا تو خود سے ہو جاتی ہے یا پھر معاشرہ اسے کر دیتا
ہے۔ ڈاکٹر تنویر انجم نے کہا کہ ہر سال آج کے دن کو خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا
جاتا ہے۔حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ سال میں ایک دن منانے سے ہم عورتوں کو ان کے تمام
حقوق دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ اس دن کو منانے سے نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں
کو بھی اس بات کا شعور آتا ہے کہ انھوں نے خواتین کے حقوق کا کس طرح سے خیال رکھنا
ہے؟ آج سے کچھ عرصہ قبل پاکستان میں اس کا بالکل شعور نہیں تھا۔ جب عورتیں اس دن ریلیاں
نکالنے کے لیے سڑکوں پر نکلتیں تو پولیس انھیں ڈنڈے مار کر بھگا دیتی تھی لیکن اب ایسا
نہیں ہے۔ پاکستان میں ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے خواتین کے حقوق
کے لیے قانون سازی میں کسی حد تک بہتری آئی ہے حالانکہ ابھی بھی مزید قانون سازی، پہلے
سے موجود قواتین میں بہتری اور ان کو معاشرے پر عملی طور پر نافذ کرنے کی بہت زیادہ
ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب ویمن ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس ایکٹ بھی 2012 میں منظور
ہوا اور اس کے تحت تمام اداروں میں کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ضابطہ
اخلاق وجود میں آیا جس کے تحت ہر سرکاری و نجی ادارے، جہاں خواتین کام کر رہی ہوں وہاں
تین رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے نگراں اعزازی پروگرامز ڈاکٹر
شیر مہرانی نے کہا کہ البتہ اس کی کچھ شقوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن
تنقید کرنے والے یہ نہیں جانتے کہ بے شمار عورتیں ایسی ہیں جو اپنے شوہر سے مار پیٹ
کے نتیجے میں اپنا ذہنی توازن کھو بیٹتی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شکایت پر انھیں
یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے گھریلو معاملات کو گھر میں رہتے ہوئے حل کریں۔ پاکستان
میں عملی طور پر خواتین کے حقوق کے لیے سنجیدگی سے کام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ عورتوں
کے بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن پر بات تو کی جاتی ہے حکومت بھی بہت دعوے کرتی ہے لیکن
اگر حقائق کو دیکھا جائے تو خواتین ہر لحاظ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمیں معاشرے کے
اندر خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے معاشرے کو بتانا
ہوگا کہ اب ہمیں خواتین کو ان کا بنیادی مقام دیناہوگا۔ جن شاعرات نے شرکت کی اور اپنی
شاعری پیش کی ان میں ڈاکٹر تنویر انجم، ناصرہ زبیری، پروفیسر سابھیا سانگی، یاسمین
چانڈیو، ڈاکٹر عابدہ گانگھرو، ڈاکٹر نزہت عباسی، ریحانہ احسان، ہما بیگ، حمیدہ کشش،
روبینہ تحسین بینا، ثروت سلطانہ، ہما طاہر، ڈاکٹر آمنہ، سومر، سندھو پیرزادہ، ہما اعظمی،
حمیرا ثروت صدیقی اور عطیہ احمد شامل تھیں۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر آمنہ سومرونے ادا
کیے۔ اقبال احمد اکادمی ادبیات کراچی کی جانب سے شکریہ ادا کیا گیا۔
Good tajzia
جواب دیںحذف کریں