نامور شاعر، ادیب، تجزیہ نگار اور نقاد تاج بلوچ کی یاد میں سیمینار و مشاعرہ

Taj Baloch, Academy Adabiyat, Seminar


کراچی(نمایندہ ٹیلنٹ) اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ”سوجھرو“ کے مدیر نامور شاعر ادیب، تجزیہ نگار اور نقاد تاج بلوچ کی یاد میں سیمینار و مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت مدد علی سندھی نے کی۔ مہمان خاص مختیار علی ابڑو تھے۔ اظہار خیال ڈاکٹر شیر مہرانی، شوکت اجن، اے بی لاشاری، ضیاءابڑو اور دیگر ادباءو شعراءنے کیا۔

 اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے نگران اعزازی پروگرامز ڈاکٹر شیر مہرانی نے کہا کہ تاج بلوچ نے ریڈیو پر کمپیئرنگ سے شروعات کی اور دو دہائیوں سے زیادہ ریڈیو پاکستان اور ٹیلی وژن پر نشرو اشاعت کے شعبے سے وابستہ رہا۔ ملک کے فائنانس ڈپارٹمنٹ میں ٹریژری آفیسر کے طور پر سرکاری نوکری بھی کرتے رہے مگر آدرش و اصولوں کے چکر میں وقت سے پہلے ریٹائرڈ ہوگئے۔ آج سے دو دہائیاں پہلے گل ہاسز نزد صفورا چورنگی میں میری ان سے ملاقات ہوئی تھی، ان کا گھر سالہا سال تک کراچی میں سندھی ادبا و شعرا کے لیے ادبی رونقوں، محفلوں اور محبتوں کا گڑھ بنا خدمت سرانجام دیتا رہا جہاں آئے دن نئے و پرانے ادبا، شعرا، کہانی کاروں اور افسانہ نگاروں کی کچہریاں منعقد ہوا کرتی تھیں جہاں تاج بلوچ بذاتِ خود سب کی شخصی اور ادبی خدمتیں سرانجام دیا کرتا تھا کیوں کہ اس کا خیال تھا کہ” مشقِ سخن سے اذہان کھلتے ہیں اور مذاج بدلتے ہیں۔“ شوکت اجن نے کہا کہ ادبی گھاگھ تو تھا ہی اس لیے کچھ ملاقاتوں کے بعد اس سے میری کیمسٹری جڑ گئی اور مجھے جب بھی کراچی جانا ہوتا تھا تو میں اکثر ان کی حاضری دیا کرتا تھا۔ کبھی آئی آئی چندریگر روڈ پر رمضانی بیکری کے اوپر سوجھرو میگزین کے دفتر میں یا پھر ریگل چوک والے آفس میں کیوں کہ تاج بلوچ کے تینوں ٹھکانے میرے لیے تاج بلوچ اس خیال کا حامی بھی رہا کہ ادب اور سیاست لازم و ملزوم ہیں بلکہ ادب ہی سیاست کی بنیاد ہے کیوں کہ اگر ادب میں سیاست نہ ہو تو وہ ”بے جان ادب ہوگا جو ایک ہی مقام پر ساکت ہوکر رہ جائے گا“ اس لیے تاج نے سیاست کو بھی کئی سال تک بوریا بستر بنا رکھا۔ جہاں جہاں سندھ کے حقوق اور مخلوق کے ساتھ انصاف کی بات چلی وہاں کمر باندھ کر دنگل میں اتر جاتا تھا۔

اے بی لاشاری نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران سوجھرو کا مقام ایک مکمل ادبی اور کلاسیکی رسالے جیسا رہا جو نئے لکھاریوں اور شاعروں کے لیے صرف نرسری کا کام سرانجام دیتا رہا بلکہ ان کے ادبی مستقبل اور مقام کا تعین بھی کرتا رہا تھا۔ سوجھرو میں لکھے گئے تاج بلوچ کے ایڈیٹوریلز نے بین الاقوامی ادب کو نئے ابھرنے والے سندھی ادیبوں میں متعارف کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔ سندھی ادب میں سوجھرو کے حوالے سے ایک دور ہم نے ایسا بھی دیکھا جب سندھی ادیبوں سے متعلق ان کے مقام اور اوقات کا معیار اس رسالے میں چھپنے والی تاج بلوچ کی رائے ہوا کرتی تھی۔ اس پس منظر میں نہ صرف سندھہ بلکہ دنیا بھر کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی نئی ادبی پود کا تاج بلوچ ایک ادبی استاد مانا جاتا رہا جس نے ان گنت نئے شعرا و ادبا کو آسانیاں فراہم کرکے انہیں ذوق و شوق سنبھال کر تناور ادبی برگد بننے تک سنبھالا دینے میں ایک ایسا کردار ادا کیا کہ موجودہ نسل کے بے شمار ادبی استاد جو ان کے لائق شاگرد رہے ہیں آج انہیں اپنا گرو اور ادبی باپ مانتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ تاج بلوچ گزشتہ آدھی صدی کے دوران موجودہ نسل کو ادبی راستہ دے کر آسانیاں دینے والا بہت بڑا محرک اور متحرک کردار رہا اور سندھ میں فنونِ لطیفہ سے متعلق جوانوں کی علمی، ادبی اور تہذیبی تربیت میں اس کے رسالے ”سوجھرو“ نے ایک اہم کردار ادا کیا جس کے پلیٹ فارم سے تاج بلوچ نے بے شمار کتابیں بھی چھپوائیں۔

 ضیا ابڑو نے کہا کہ تاج بلوچ کو ضمیر اور دل کی بات پر سودا کسی طور پر قبول نہیں تھا مگر ضروری نہیں تھا کہ ”اس کے بنائے ہوئے اصول دوسروں کو بھی اسی طرح قابلِ قبول ہوں“۔ لیکن یہ بات سچ ہے کہ اس کی نیت میں کھوٹ ڈھونڈنا میرے جیسے انسانوں کے لیے ہمیشہ مشکل رہا کیوں کہ اس نے سندھ کی دھرتی پر لاشوں کے انبار دیکھ کر حسن اور دلکشی نے ترانے نہیں گائے بلکہ وہ ہر دور میں اس بات کا قائل رہا کہ ”اہلِ قلم کو تماشائی کا کردار ادا کرنے کے بجائے ہمیشہ مظلوم طبقوں کا ساتھ دینا چاہیے۔“ کسی بھی سماج کے ذہین لوگ اپنے حالات کی دھڑکن سے واقف رہتے ہوئے اس کا تدارک کرنے کی کوشش میں جت جاتے ہیں۔ تاج بلوچ بھی سندھ کا عقلمند بیٹا تھا جس نے جان لیا تھا کہ وقت بڑی تیزی سے ہمارے خلاف جا رہا ہے اور ہم تاریخی عمل کی لپیٹ میں آچکے ہیں جہاں سلامتی کے راستے مسدود ہوچکے ہیں، عروسِ آزادی کی چیخیں بہت قریب سنائی دے رہی ہیں اور تاریخ میں اپنی قوم کو مرثیہ بن کر محفوظ ہونے سے بچانے کے لیے تاج جیسے لوگوں کے پاس آخری امید ان کا قلم تھا۔

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال احمد نے کہا کہ ادبی تاریخ و تنظیم سازی کا یہ استاد تاج بلوچ ایک وطن دوست انسان اور اعلیٰ پائے کا نقاد تھا جس نے عالمی ادبی و نظریات کے پس منظر میں تمام سندھی اصنافِ سخن پر مشق صنائی کی۔ ایک طرف وہ پرانے اور گھاگ قسم کے ادیبوں کی روایتی تحریروں کوی قلعی اتارنے کا ماہر و مشاق تھا جس کا گلہ اس کے ہم عصر و پیشرو ہمیشہ سے کرتے چلے آتے ہیں وہاں تاج بلوچ کی ایک حسین ترین خوبی تھی کہ وہ نوجوان اور نامعلوم ادبا کی اچھی کتابوں اور تحریروں کی دل کھول کر تعریف بھی کیا کرتا تھا۔ تاج بلوچ بس ادب میں منافقی اور بہروپی کا قائل نہیں تھا اس لیے ادبی اور شخصی طور پر بے شمار ملامتیں اپنے حصے میں سمیٹنے کے باوجود وہ اپنے تمام تنقید نگاروں سے زندگی بھر ذہنی طور پر ساہوکار، مطمئن اور ہشاش بشاش دیکھا جاتا رہا۔

 مہمان خصوصی مختیار علی ابڑو نے کہا کہ تاج بلوچ کا ادبی سفر نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط رہا۔ ان کے پہلے شعری مجموعے کا نام ”درد جو صحرا“ (درد کا صحرا) تھا، جس کے بعد نظم و نثر پر مشتمل ان کی کئی اور کتابیں شائع ہوئیں۔ آج درد کے صحرا کا وہ مسافر زندگی کے قافلے میں شامل نہیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سندھی ادب کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

اس موقعے پر صدارتی خطاب میں مدد علی سندھی نے کہا کہ سندھی کے نامور شاعر، نقاد اور مدیر تاج بلوچ بہت اچھے شاعر تو تھے ہی لیکن ان کا شمار ایسے نقادوں میں ہوتا تھا جو بہت ہی نپی تلی رائے دیتے تھے، وہ سندھی ادب کو عالمی ادب کے تناظر میں دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے اور سندھ کے نوجوان لکھاریوں کو مشورہ دیتے تھے کہ عالمی ادب کا مطالعہ کریں تاکہ ان کی تحریروں میں نکھار آ سکے۔ غیر معیاری تحریروں پر کڑی تنقید تو کرتے تھے لیکن کسی نئے لکھنے والے کی معیاری تحریر پڑھ کر دل کھول کر تعریف بھی کرتے تھے۔ بحیثیت مدیر ان کا نام بہت ہی اہم ہے۔ تاج بلوچ کا ماہنامہ ”سوجھرو“ تاریخ ساز ادبی رسالا تھا۔ تاج بلوچ نے بے شمار نئے لکھاریوں کی تحریروں کی تصحیح کر کے ان کو شائع کیا، جن میں آج کے کئی نامور ادبا و شعرا شامل ہیں۔ ادبی حلقوں اور ذاتی نشستوں میں تاج بلوچ بہت سچی اور کھری بات کرتے تھے، اس لیے کچھ لوگ ان سے نالاں بھی رہتے تھے۔

اس کے بعد مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ اس موقع پر شعراءکرام نے تاج بلوچ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ ان میں سید علی اوسط جعفری، سعد الدین سعد، عرفان علی عابدی، سید امداد جعفری، ڈاکٹر شیر مہرانی، اقبال سہوانی، محمد رفیق مغل، حامد علی سید، شجاع الزماں خان، عبدالستار رستمانی، سابھیاں سانگی، صدیق راز ایڈوکیٹ، کاوش کاظمی، روبینہ تحسین بینا، سید ضیا حیدر زیدی، محمد یوسف چشتی، ذوالفقار حیدر پرواز، وحید محسن، جاوید اقبال، میاں محمد عتیق، فرح دیبا، وفا برڑو نے اپنا کلام سنایا۔ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال احمد ڈہراج نے آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض اقبال سہوانی نے خوش اسلوبی سے سر انجام دیے۔

کوئی تبصرے نہیں