جدید تر تخلیقی زاویوں کی شاعرہ، شاہدہ تبسم

Shahida Tabassum

تحریر:محمد بخش

 زندگی کا شعلہ اگرچہ آنکھ سے مستور ہے مگر دل کے نگار خانے میں جس قدر بھی روشنی ہے وہ اسی شعلے کی نمود سے ہے جسے شعور و آگہی کی تیز ہوائیں جلا بخشتی ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار کسی طرح ممکن نہیں کہ شعور و آگہی کا پیرہن زیب تن کرنے والے ہمیشہ بارش سنگ ملامت کی زد پر رہتے ہیں۔ شاہدہ تبسم کو بھی اپنے شعری سفر کے آغاز میں ہی اس حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا۔ ذرا غور فرمائیں، یہ شعر آٹھویں جماعت کی طالبہ نے کہا تھا۔

کیوں لباس شعور پہنا تھا
آئیں گے ہر طرف سے اب پتھر

 یہ شعر پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اتنی کم سنی میں لفظوں پر عبور حاصل کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ کسی خیال کا اپنی تمام تر لطافت اور حسن بیان کے ساتھ اظہار کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تخلیق کار کے وجود میں شاعری جنم جنم سے شامل ہے کیونکہ ایسے شعر کا تخلیق ہونا فطری شاعرانہ صلاحیتوں کے بغیر ممکن ہی نہیں۔

 شاہدہ تبسم کی شاعری اردو شاعری کی روایت سے جڑی ہوئی ہے۔ علامات و کنایات کا سرمایہ ان کے پاس موجود ہے جوکہ واردات قلبی اور حسن بیان کے باہمی ربط سے وجود میں آیا ہے، اسی وجہ سے ہم انھیں سخن آفریں شاعرہ کہہ سکتے ہیں:

تجھ سے بھلا نبھے گا کیا زعم یہ اختیار کا
تو ہمیں کیا بھلائے گا ہم تجھے بھول جائیں گے

٭....٭....٭

ترے ہر خواب سے کروٹ بدل کے
میں نیندوں میں سنبھلنا چاہتی ہوں

٭....٭....٭

میں سمندر سے بہت دور نکل آئی مگر
پاؤں میں ریت چلی آئی ہے کیوں پر نم سی

٭....٭....٭

کیسا عذاب تھا کہ بچھڑنے کی رسم میں
جو مڑ کے دیکھتا تھا وہ پتھر ہوا نہ تھا

شاہدہ تبسم کے فکر و فن کی پر چھائیں اپنے رنگ و نور میں بڑی منفرد سی لگتی ہے۔ شاعری ان کی شناخت کا معتبر اور مستند حوالہ بن چکی ہے۔

ان کی نئی شعری تشبیہات، نئے استعارے اور لسانی تشکیلات انھیں اپنے کئی ہم عصر شعراءاور شاعرات سے الگ کر کے ان کی شاعری کو انفرادیت عطا کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں جدت اور روایت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی جوہرکو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی غزلوں میں جو لب و لہجہ اور اسلوب اختیار کیا ہے، وہ اپنی فکری بالیدگی، دلکشی، اثر انگیزی اور جمالیاتی ذوق کے اعتبار سے بڑی توانا حیثیت رکھتا ہے، ان کی غزل کی زبان مضبوط اور لہجہ تو انا ہے، نیز نظم میں موضوعات کا تنوع بھی پایا جاتا ہے۔

ان کے ہاں ایک اضطراب اور بے چینی ہمہ وقت نظر آتی ہے اور جسے ظاہر کے انبساط سے زیادہ باطن کا دکھوں کا ادراک ہے کیونکہ یہی ادراک دل و دماغ کے لیے تخلیق کا سبب ہوتا ہے۔ اندرونی کرب کا اظہار ان کے اشعار میں نمایاں طور پر موجود ہے۔

مثال کے طور پر:

جسم تو جلتی ہوئی دھوپ کا پتھر ٹھہرا
ایک دل تھا سو ترے دکھ کا سمندر ٹھہرا

٭....٭....٭

بدن میں آگ لگی ہے تو اب گلہ کیسا
دلوں میں فصل گلابوں کی کیوں لگائی تھی

جب شاعر اپنی داخلی واردات اور خارجی کیفیات کو شعر کے پیکر میں ڈھالتا ہے تو ان کیفیات کا منبع شاعر کا اپنا وجدان ہوتا ہے۔

شاہدہ تبسم کے کلام میں یہ خصوصیات اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہیں بلکہ خارجی کیفیت کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ انھوں نے اپنی ذات میں کائنات کی وسعتوں کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے:

اپنی پہچان ڈھونڈ مت ان میں
محفلیں منزلیں نہیں ہوتیں

٭....٭....٭

میرے لیے ایک وہ اس کے لیے سب جہاں
اور بھلا منصفوں، اپنی خطا کیا کہوں

٭....٭....٭

ذرا سی دیر کا کیا آنکھ لگتا
میں جاگی تو زمانہ مختلف تھا

ان کی شاعری میں سیاسی اور سماجی شعور کا بھی بھر پور اظہار ملتا ہے بالخصوص شہر کراچی جو ہم سب کا شہر ہے، اس کی درماندگی کے حوالے سے یہ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

رہ زنداں، ستم کی دھوپ، نخل دار کے سائے
سبھی کچھ دے دیا اس شہر کو اب اور کیا دینا

٭....٭....٭

قرین جاں لیے پھرتے ہیں اندھی موت کی آہٹ
جہاں والو، ہمارے شہر والوں کو دعا دینا

٭....٭....٭

اب کے فقیہہ شہر کی پوشاک تھی نئی
تر دامنی یہ آیا ہوا پھر شباب تھا

اگر چہ شاہدہ تبسم کی شاعری میں الہڑ جذبات کا اظہار بھی کہیں کہیں نظر آتا ہے مثلا :

خوشبو سے بھری شاخ بدن ٹوٹ رہی ہے
یوں شام کے لہجے کی تھکن ٹوٹ رہی ہے

٭....٭....٭

ہے اپنی اداؤں میں کوئی دیکھے نہ دیکھے
بارش کی جھڑی خود میں مگن ٹوٹ رہی ہے
سجی ہوئی ہے دھنک آسماں پہ کس منہ سے
جو اوڑھنی کے مری رنگ سب چرا لائی

لیکن شاہدہ تبسم کی شاعری میں نسوانی جذبات کا اظہار اعلیٰ اخلاقی قدروں کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے جو ہماری مشرقی اقدار کا آئینہ ہے، جس میں محبوب سے اپنی چاہت کا اظہار حجاب کے پردے میں رہ کر کیا جاتا ہے۔ ان کے کئی اشعار میں مشرقی عورت کی مخصوص سائیکی کا اظہار موجود ہے۔ ان کے ہاں مغرب زدہ خواتین شاعرات کی طرح جذبات کا سطحی اور بے باکانہ اظہار ہمیں نہیں ملتا کیونکہ وہ حسن اظہار جو فن کے وسیلے سے پیدا ہوا ہو، وہ اپنی بھینی بھینی خوشبو سے دل و دماغ کو معطر رکھتا ہے اور حیوانی جذبوں کو شائستگی بخشتا ہے، یہی چیز سطحی لذت سے ماورا ہو کر انسانی ذہن کو بالیدگی عطا کرتی ہے اور رفعت خیال اور طمانیت قلب کا باعث بنتی ہے:

جو اب کے زلف و شانہ مختلف تھا
اس آئینے کا آنا مختلف تھا

٭....٭....٭

دیوانگی میں ہوش کہاں تھا ہمیں مگر
حرف اس پہ بھی نہ آیا کچھ ایسا حجاب تھا

٭....٭....٭

چاند بادل کو چوم آیا ہے
دیکھ کر ہاتھ مل رہی ہے شب

عورت محبت کا حسین ترین روپ سہی لیکن صبر، برداشت اور دکھ کا دوسرا نام بھی ہے۔ مرد جھوٹی انا پرستی کے محدود خول میں مقید ہے۔ سماج اس کے ذہن میں حاکمیت کا جذبہ ابھارتا ہے اور وہ چاہتے ہوئے بھی عورت کو اپنا انسان ہونے کے ناتے برابری کا حق نہیں دے سکتا۔ شاہدہ نے جہاں نرم و نازک نسوانی احساسات کا اظہار کیا ہے، وہیں اس سماجی جبر کے خلاف بھر پور احتجاج بھی کیا ہے جو عورت کے حوالے سے اس معاشرے کی عمومی روایت ہے:

میں ریزہ ریزہ تھی پر لوٹ آئی
ردا کے ساتھ لے کر سر سلامت

٭....٭....٭

آنکھ سے اک خواب تھا اشک کی صورت رواں
اور جو تعبیر سے دکھ ہے ملا کیا کہوں

٭....٭....٭

مٹی میں پیر ڈال کر گھر تو بنالیا مگر
پانی کا حوصلہ کہاں ریت کو اعتبار دے

٭....٭....٭

ستارے توڑ کے لانے کی ضد بھی اس کی تھی
اور اپنے قول سے پھرنے میں بھی وہ سچا تھا

٭....٭....٭

لہجے میں تو جذبوں کی حنا خوب سمجھی تھی
کیا بات تھی پھر کس لیے آنکھوں میں نمی تھی

٭....٭....٭

سب تھے خاموش اک کلی کو جب
پتھروں کا لباس پہنایا

شاہدہ اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی عدم مساوات کو ختم کر کے ایک مثالی سماج کی تکمیل چاہتی ہیں :

آج ہی اس نے زندگی دی ہے
آج ہی شرط لہو ہونا

٭....٭....٭

ہیں جن کے ہاتھ سب موسم انہی کو اس کا حق بھی ہے
بہاریں لوٹ کر اپنے گلستاں میں سجا دینا

ان کے کلام سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ خالق کائنات، انسان اور عصری آگہی کے حوالے سے ایک فکری رویہ بھی رکھتی ہیں جو ان کے شاعرانہ وژن اور شعور کا بین ثبوت ہے:

یہ راز کھول نہ دے تشنگی کہیں بڑھ کے
ہر ایک جرعہ زہراب کا نشہ ہے

٭....٭....٭

بچھڑ بھی جاؤں تو صحرا پکار لائیں مجھے
یہ تیرے لوگ نہیں میرا قافلہ ہے الگ

٭....٭....٭

تا چند رہے آنکھ میں آئینے کا افسوں
اس ایک نظر میں تو بہت کم میں رہی تھی

٭....٭....٭

پھر سفر کا کوئی گمان کھلا
نیند ٹوٹی تو بادبان کھلا
صرف گزری ہوئی رتیں ہی نہیں
موسموں پر نیا جہان کھلا

منافقت دوغلے پن اور ریا کاری کے وہ مناظر جواب ہنر سمجھے جاتے ہیں:

اسی بستی میں بام و در سے حاصل کیا
آدھا چہرہ بند کواڑوں کے پیچھے

٭....٭....٭

سب اپنے گھر اپنے اندر رکھتے ہیں
پورا سجتا روپ تو باہر رکھتے ہیں

٭....٭....٭

دیکھیں کے زنجیر کرے چشم منافق
ہم پر تو ہنر اس کا یہ آسان رہا تھا

٭....٭....٭

اس چہرے کے پیچھے بھی چھپا تھا کوئی چہرہ
آئینہ جسے دیکھ کے حیران رہا تھا

موجودہ دور کی تخلیقی و ادبی صورتحال کی نشاندہی اور مشاعروں کے حوالے سے دن بدن بڑھتی ہوئی گروہ بندیاں اور با ہم مناقشے :

اب ایسے پانیوں کو کیوں کہوں سمندر میں
کہ سطح آب یہ لکھی ہو جن کی گہرائی

٭....٭....٭

ہے شرط قیمت ہنر بھی اب تو ربط خاص پر
ملے گا سنگ داد بھی ہوا کے رخ کو دیکھ کر

نظم نے ہمیشہ کسی بھی سماج کو فکری رویہ دیا ہے، غزل کے شعر میں فکر کے صرف Glimpses نظر آتے ہیں جبکہ نظم اس فکر اور موضوع کو Elaborate کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اکثریت ایسے غزل گو شعراءکی ہے جو نظم میں بھی غزل کی لفظیات کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ ایک ہیئت سے دوسری ہیئت میں جاتے ہیں تو ہر ایک ہیئت کے اپنے تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں کے پیش نظر اس کی Elaboration بالکل مختلف ہوگی۔

اگر چہ شاہدہ کی غزلوں میں بھی نئی لفظیات ہیں اور ان مروجہ لفظیات کا اثر کم ہے جو عمومی طور پر غزل میں پائی جاتی ہے تاہم ان کی نظموں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی لفظیات غزل کی لفظیات سے مختلف ہیں اور ہر نظم کے پس منظر اور ان کی مخصوص کیفیت کا ناصرف بھر پور اظہار کرتی نظر آتی ہیں بلکہ گلوبل ولیج کا ایک بحیثیت فرد اور تخلیق کار ایک حصہ نظر آتی ہیں۔

جدید اردو نظم میں جو پراسراریت اور گہرائی ہے، وہ شاہدہ کے ہاں ہے۔ ہوا چپ ہے، لاشعور، کنارہ کٹ رہا ہے اور دھوپ کے زاویے، موضوعات کے تنوع کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان کے مصرعوں کی بنت میں انفرادیت کا عصر نمایاں ہے۔ ان کی نظم ”ہوا چپ ہے“ میں سماج میں پائے جانے والی گھٹن کا اظہار کچھ یوں ملتا ہے :

ہوا چپ ہے

(نجانے کب ہوائیں گنگنائیں گی درختوں میں

گھٹن آلود لمحوں اور دریچوں پر کھیلیں گی دستکیں دیں گی)

نجانے کن زمینوں میں

نجانے کن زمانوں میں

زمیں کی سانسیں اکھڑی جا رہی ہیں

اور ہوا چپ ہے

نظم ”لاشعور“ معاشرے کی مجموعی بے حسی کی علامت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں