الوداع! ہستی مل ہستی
تحریر: ندیم صدیقی، ممبئی
ہستی مل ہستی کا نام شعر و ادب کا سچا ذوق رکھنے والوں کے لیے انجان نہیں وہ اسی ممبئی میں نصف صدی سے شاعری اور کویتا کے گہنے بنا رہے تھے، جگجیت سنگھ اور پنکج ادھاس جیسے گلوکاروں نے ان کا کلام گایا اور ہستی ہی کا نام نہیں پھیلایا بلکہ خود بھی بھی نامور ہوئے۔ ممبئی ہی میں گزشتہ 24 جون کو یہ صاحب ِ ہستی۔۔۔ نیست ہوگیا۔
ہستی مل ہستی راجستھان کے
ادئے پور سے قریب ’آمیٹ‘ نامی قصبے میں 11 مارچ 1946 کو پیدا ہوئے تھے، وہ ہندی غزل
کے شاعر کہے گئے ہر چند کہ شاعر کسی زبان کا اسیر نہیں ہوتا البتہ جس زبان سے اس کا
آبائی رشتہ ہو تو اس کا جھکاؤاس
زبان یا اس بھاشا کی طرف ہونا ایک فطری امر ہے۔ ہستی جیسے راجستھانی شخص کا ہندی سے
تعلق اسی نوعیت کا رہا کوئی پچاس برس تک انہوں نے شاعری کی اور جن لفظیات میں وہ شعر
کہتے تھے وہ ہمارے عصری معاشرے کی عام زبان کے لفظیات ہیں مگر ان کا نام اور تخلص کچھ
اور گواہی دیتا ہے کہ ہستی جیسا لفظ جس زبان سے تعلق رکھتا ہے یعنی اردو کا کوئی شاعر’ہستی‘
جیسے تخلص کا حامل ہمارے ناقص علم میں نہیں ہے۔ کسی وقت اسی ہندوستان میں جسے اب یوگی
اور مودی کا ہندوستان کہا جا رہا ہے، فارسی سرکار دربار کی زبان ہوتی تھی، شاید نئی
نسل کے لوگ نہ جانتے ہوں کہ شیوا جی مہاراج کا تمام سرکاری کام کاج فارسی ہی میں ہوتا
تھا، مہاراشٹر کے ایک بڑے وِدوان سیتو مادھوراﺅ پاگڑی، جو اپنی مادری زبان مراٹھی کے
تو عالِم تھے ہی مگر وہ فارسی پر بھی اتنا ہی عبور رکھتے تھے، مہاراشٹر سرکار کی ایما
پر انہوں نے شیوا جی مہاراج کے تمام سرکاری دستاویز کو فارسی زبان سے مراٹھی میں منتقل
( ترجمہ) کیا تھا۔ کہنا یہ ہے کہ ہماری نئی نسل جو، اب اردو کے عام لفظ سے بھی نا آشنا
ہے وہ فارسی کے لفظ ’ہستی‘ سے کتنی باخبر ہوگی اس کا اندازہ کوئی بھی کر سکتا ہے۔ بہرحال
یہ تو ثابت ہوگیا کہ جس زمانے کے راجستھان میں ’ہستی‘ پیدا ہوئے تھے اس دور کے ہندو
والدین اپنی اولاد کا نام ’ ہستی مل‘ رکھنے میں کسی تامل میں نہیں پڑتے تھے اور لفظ
تو لفظ ہوتا ہے وہ ہندو مسلمان کہاں ہوتا ہے یہ تو ہماری عقیدت اور ہمارا تعصب اسے
ہندو مسلمان بناتا ہے، لفظ نور ہو یا پرکاش یہ تیرگی اور اندھیرے کے دشمن ہوتے ہیں۔
ہستی مل ہستی نے دوہے بھی
کہے مگر وہ غزل کے شیدائی تھے بلکہ وہ اردو شاعری کے فن کے بھی قائل تھے، ہستی باقاعدہ
عروض سے واقف تھے یا نہیں مگر اپنی شاعری میں ایک وزن ضرور رکھتے تھے۔ وہ ہندی رسم
الخط میں سہ ماہی ’یوگین کاوِیہ‘ نام کا ایک رسالہ بھی اپنے جیب ِ خاص سے شائع کرتے
تھے۔ ہستی کا ایک شعری مجموعہ ’نئے پرندے‘ اردو رسم الخط میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
ہستی، گہنوں کا کاروبار کرتے
تھے اور ان کی شاعری کے گہنوں نے انھیں خوب خوب مالامال کیا وہ مشہور شاعر سدرشن فاخر
کے عزیز دوستوں میں شامل تھے۔
گزشتہ برس سوشل میڈیا پر
ہستی کا ایک شعر ہماری نظر سے گزرا۔
شاعری ہے سرمایہ خوش نصیب لوگوں کا |
بانس کی ہر اِک ٹہنی بانسری نہیں ہوتی |
ہم نے فون پر انھیں داد دِی
تو ادھر سے ہستی کا ’آداب‘ ہم نے سنا۔
ہستی کو کئی اعزاز دِیے گئے
جس میں مہاراشٹر ہندی ساہتیہ اکادمی کا موقر ’رام منوہر ترپاٹھی ایوارڈ‘ بھی شامل ہے۔
ہستی جیسے شاعر کا نِدھن
اس دور میں کہ جس میں ساہتیہ و ادب ایک عجب کشمکش سے گزر رہا ہے اور جو تمام ہستیوں
کا ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے ہم انھیں پوری شردھا اور محبت و عقیدت کے ساتھ الوداع
کہتے ہیں ان کا دیہہ یعنی جسد یہاں سے دوسری دنیا میں چلا گیا ہے مگر وہ اپنی آتما
کو اپنی روح کو اپنے شعروں، دوہوں میں ایسے منتقل کر گئے ہیں کہ انھیں بھلایا نہیں
جاسکے گا۔ ایک شاعر کی، ایک کوی کی یہ ایسی وِجیتا اور فتح ہے، جس پر زمانے کی گردش
خاک تو ڈال سکتی ہے مگر اس کی قدر و قیمت کو ماند نہیں کر سکتی۔
سچا شاعر اپنے دور اپنے سماج
کی ہر ہر حرکت پر متفکر ( چِنتِت) رہتا ہے، ہستی کی یہ فکر ہم سب کی ہستی کے لیے بھی
کیسی چِنتا بن گئی ہے، ذرا پڑھیے تو:
بیٹھتے جب ہیں وہ کھلونے بنانے کے لیے |
ان سے بن جاتے ہیں ہتھیار، یہ قصہ کیا ہے؟ |
ہستی کی نظر اور تفکرکس قدرگہرا
رہا ہوگا کہ وہ صرف پھول پتیوں ہی پر نگاہ نہیں رکھتے اور سوچتے تھے، بلکہ ان کی بینائی
زمین کے اندر تک دیکھتی تھی، ہستی کے اس شعر پر ہم ان کی خبرکو تمام کرتے ہیں۔
اس کا سایہ گھنا نہیں ہوتا |
جس کی گہری جڑیں نہیں ہوتیں |
کوئی تبصرے نہیں