اسلام کا فلسفہ حج، مقاصد، حکمتیں اور تقاضے

Falsafa Hajj, Riaz Aleemi, Qurbani, Dhul hijjah


تحریر:ڈاکٹر محمد ریاض علیمی

ارکان اسلام کا پانچواں رکن حج ہے جو ہر صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ حج عالمِ اسلام کا عظیم، پُر وقار اور روح پرور اجتماع ہے، حج قربِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں حج کے کثیر فضائل وارد ہیں ۔ حج کرنے والے کا حج اگر قبول ہوجائے تو اس کی جزا جنت ہے، چنانچہ ارشاد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔ (بخاری: ۱۷۷۳) حج کرنے والے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ وہ اس طرح ہوجاتا ہے جیسا پیدائش کے وقت تھا یعنی جس طرح پیدائش کے وقت اس کے ذمے کوئی گناہ نہیں تھا، اسی طرح حج کے ارکان کو کما حقہ ادا کرنے کے بعد بھی اسے یہ فضیلت مل جاتی ہے کہ اس کے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے حج کیا اور رفث (فحش کلام) اور فسق نہیں کیا تو وہ گناہوں سے پاک ہوکر ایسے لوٹتا ہے جیسے کہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔ (بخاری: ۱۵۲۱) نماز، روزہ صرف بدنی عبادتیں ہیں اور زکوٰة صرف مالی عبادت ہے، لیکن حج کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بدنی اور مالی دونوں طرح کی عبادت کا مجموعہ ہے، جس طرح فریضہ حج کی ادائیگی میں مال خرچ ہوتا ہے اسی طرح بدنی قوت بھی صرف ہوتی ہے۔ حج دینی و دنیوی دونوں فوائد کا مجموعہ ہے۔

شریعت اسلامیہ کے تمام احکامات جام حکمت سے لبریز ہیں۔ احکام اسلام میں مصالح، فوائدِ دینی اور دنیاوی پوشیدہ ہیں کیونکہ ان کا مقرر کرنے والا خدائے حکیم ہے اور ”فعل الحکیم لایخلو من الحکمة“ یعنی حکیم کا فعل حکمت سے خا لی نہیں ہوتا، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام احکام کی باریکیاں، حکمتیں، مقاصد اور اسرار و رموز ہر شخص پر آشکارا ہوں اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جو احکام کی حکمتیں ظاہر ہوچکی ہیں وہ بھی جامع اور حتمی ہوں۔ بعض احکام ایسے ہیں جن کا علم اللہ رب العزت نے اپنے بندوں میں سے انبیائے کرام پر اور راسخین فی العلم کے درجہ پر فائز ہونے والے بعض اولیائے کرام پر واضح کیے ہیں اور بعض احکام ایسے ہیں جن کے فوائد بے شمار ہیں اور تقریباً ہر ذی علم شخص بقدر توفیق الٰہی ان میں سے چند باریکیوں کو سمجھ لیتا ہے۔ حج کے مصالح، اسرار، حکمتیں اور فوائد جو علماءو اولیائے کرام کے افادات سے معلوم ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔

شبلی نعمانی لکھتے ہیں: حج کے دو حروف ہیں۔ پہلا حاءاور دوسرا جیم۔ حاءسے مراد حِلم اور جیم سے مراد جرم ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ گویا بندہ کہتا ہے”اے میرے رب ! میں تیرے حلم اور تیری رحمت کی امید لے کر تیری بارگاہ میں اپنے جرم کے ساتھ حاضر ہوا ہوں اگر تو بھی میرے جرم نہ بخشے گا تو کون بخشے گا؟“ امام المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے افعال حج کی حکمتوں اور مناسکِ حج کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ”حج کے تمام افعال میں کئی حکمتیں اور راز ہیں جن کی تعریف کرنے سے ہر زبان عاجز ہے۔“ شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ حج کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔”ہر ایک سلطنت اس بات کو ضروری خیال کرتی ہے کہ سال بھر میں کوئی ایسا موقع تلاش کیا جائے جس تقریب سے وہ اپنی رعایا کا جائزہ لے تاکہ سرکش باغی افراد اور مطیع افراد متمیز ہوں۔ حج کی پُر وقار تقریب بعینہ اس قسم کی ایک تقریب ہے جس سے مخلص اور منافق میں تمیز ہوجاتی ہے اور دینِ حق کی شان و شوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ مختلف بلاد و ممالک کے مسلمان ایک دوسرے کے حال سے واقف ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی معلومات سے استفادہ کرتے ہیں۔ بغیر میل جول کے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ مومنین کے دلوں میں آئمہ ملت کی یاد اور ان کی اتباع اور ان کے نقش قدم پر چلنے کا جذ بہ پیدا ہوتا ہے۔“ (ملخصاً از حجة اللہ البالغة)

اسلام کا ایک منشاءیہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت پیدا ہو۔ تمام ممالک کے مسلمانوں کو ملت واحد بنا دیا جائے چنانچہ اسی غرض سے حج کے نام سے ایک ایسی عبادت فرض کی گئی جس کی ادائیگی کے لیے مسلمان اپنے قیمتی جان و مال کو خیر باد کہہ کر ایک اللہ کے حکم پر اطراف و اکناف سے ایک ہی لباس میں اپنے رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ تمام عالم اسلام میں رابطہ دینی کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف قوموں، مختلف نسلوں، مختلف زبانوں، مختلف رنگوں اور مختلف ممالک کے مسلمانوں کو دین واحد کی وحدت پر قائم رکھنے کے لیے حج فرض کیا گیا۔ اس سے مسلمانوں کو ایک جگہ جمع ہوکر امورِ سیا ست و تجارت وغیرہ سب کاموں میں مشورہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ حج ہے۔ حج ہی کی بدولت باہمی تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ عام مسلمان جو اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود دور دراز ممالک سے سفر کر کے یہاں جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے ملتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آشنا ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کے غم سے واقف ہوتے ہیں جس سے ان میں باہمی تعاون اور اتحاد کی روح پیدا ہوتی ہے۔

مساوات بھی اسلام کا ایک اہم اصول ہے۔ حج کے اسرار و رموز میں یہ بھی ہے کہ تمام مسلمان ایک ہی لباس میں بلا تمیز و تخصیص شاہ و گدا، آقا و غلام سب ایک ہی حالت میں ایک ہی جگہ خدائے واحد کے دربار میں حاضر ہوں اور رنگ و نسل کے امتیازی تفرقے ختم ہو جائیں۔ جب امیر و غریب، حُکام اور عوام ایک لباس، ایک صورت، ایک حالت، ایک میدان میں کھلے آسمان تلے رب ذوالجلال کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو پوری وسعت اور ہمہ گیری کے ساتھ مساوات کا اظہار ہوتا ہے۔ کسی کے لیے کوئی مراعات نہیں ہوتیں اور نہ ہی کسی اور شخص کے لیے کوئی خاص مقام و مرتبہ ہوتا ہے۔ سوائے تقویٰ کی بناءپر کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہوتی۔ مسلمانوں کے زوال اور امن و سلامتی کے عدم استحکام کی اصل وجہ اپنے آپ کو نسل پرستی اور علاقائی طبقات میں تقسیم کرنا ہے۔ اتحاد کی دولت سے محروم ہونا بھی دنیا میں مغلوب ہونے کا سبب ہے۔ حج جیسی عظیم عبادت نسل پرستی اور علاقائی طبقات کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

حج کے رکنِ اعظم وقوفِ عرفہ میں میدان حشر کی مشابہت بھی ہے۔ جس طرح حج کے موقعے پر مسلمان عرفہ کے میدان میں کھلے آسمان تلے جمع ہوتے ہیں، اسی طرح میدان حشر میں بھی کھلے آسمان تلے اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے۔ حج کو قیامت سے بھی مشابہت ہے، جس طرح بندہ اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بے سرو سامان صرف دو کپڑوں میں اپنے بدن کو ڈھانپ کر اپنے گھر والوں کی مدد سے دور ہوتا ہے۔ اسی طرح بروز قیامت میدان حشر میں بھی نفسا نفسی کے عالم میں اپنے رب کے حضور حساب دینے کے لیے کھڑا ہوگا۔ عرفات کا اجتماع میدان حشر کا نمونہ ہے، احرام کا لباس کفن سے مشابہ ہے۔ حج کا اہم مقصد آخرت کی یاد دہانی بھی ہے۔ فلسفہ حج کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے وحدت امت انتہائی ضروری ہے۔ حج جیسی عظیم عبادت مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے وحدت کا تقاضا کرتی ہے۔ نسلی تفاخر اور امتیاز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسلمانوں کو وحدت کی عظیم مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ حدیث کے مطابق تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جب جسم کے کسی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم درد سے کراہتا ہے۔ اس مثال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان اپنے اندر وہ کیفیت اور جذبہ پیدا کریں کہ جب کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف پہنچے تو اسے بھی اس کی تکلیف کا بھرپور احساس ہو۔ حج جیسی عظیم عبادت کو ایک رسم سمجھنے کے بجائے اس اہمیت اور اس کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کے مقاصد حاصل کر نے کی ضرورت ہے۔ اللہ رب العزت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کوئی تبصرے نہیں