قرآن کی مجالس، پیغام زندگی

Masood Kamali, Masood Asghar

ہدایت کے دائمی منشور و مومنوں کی فلاح کے نسخہ کیمیا قرآن میں رب تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ( ترجمہ) ”اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو پیدا کر کے انہیں سب چیزوں کے اسماءکا علم دیا، پھر وہ چیزیں فرشتوں کے روبرو کر دیں پھر فرمایا کہ مجھ کو ان چیزوں کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو، فرشتوں نے عرض کیا آپ تو پاک ہیں ہم کو تو وہی کچھ علم ہے جو آپ نے ہمیں سکھایا۔ بے شک! آپ بڑے علم والے، حکمت والے ہیں۔“ (سورة البقرہ)

اس آیت مبارکہ سے علم کی فضیلت اور اہمیت اور اس کے دینے والوں یعنی عالموں کے مرتبے کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی وقار کا راز بھی علم میں ہی ہے۔ حضرت آدم ؑ کو فرشتوں پر فوقیت بھی اس لیے دی گئی کہ حضرت آدم ؑ کو اللہ پاک نے وہ علم عطا فرمایا جو فرشتوں کو حاصل نہیں تھا۔ رب تعالیٰ نے نبی پاکﷺ پر جو پہلی وحی نازل فرمائی اگر اس کی حکمت پر غور کیا جائے تو اندازہ ہو کہ دین اسلام نے حصول علم کو کس قدر اہمیت دی ہے۔ (ترجمہ) ”اے پیغمبر پڑھیے اپنے رب کے نام سے جس نے مخلوقات کو پیدا کیا جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، آپ ﷺ قرآن پڑھا کیجیے اور آپﷺ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی اور انسان کو ان چیزوں کی تعلیم دی جن کو وہ نہیں جانتا تھا (سورہ علق) اور نبی پاکﷺ کو یہ ترغیب بھی دی کہ (ترجمہ) ”آپ ﷺ دعا کیجیے کہ اے میرے پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما“ (سورہ طلحہ)۔ اور اسی علم کی بدولت انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا گیا۔

جامع مسجد پیر الٰہی بخش کالونی میں ایک روحانی محفل کا انعقاد بہ سلسلہ تقسیم انعامات و اسناد مدرسہ تعلیم القرآن کیا گیا۔ یہ اس مسجد کے مدرسے کی پہلی تقسیم اسناد کی تقریب تھی جو باقاعدہ طور پر منعقدکی گئی جبکہ 48ءمیں قائم اس مرکزی مسجد کا مدرسہ غالبا 87-88کی دہائی میں قائم ہوا۔ ابتداءمیں مدرسے کے بانی مولانا عبد القیوم چترالی نے اس ذمہ داری سے کترا رہے تھے چونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کی قدر و منزلت کتنی بلند ہے اور بزرگ مولانا انتہائی عاجزی و انکساری کا پیکر تھے لیکن پھر معززین علاقہ اور اپنے قریبی ساتھیوں کے اصرار پر انھوں نے یہ ذمے داری قبول کر لی۔ اس وقت مدرسے میں چالیس بچے تھے اور آج ان کی تعداد بڑھ کر سو سے زائد ہوچکی جن میں ناظرہ کے ستر اور حفظ کے تیس بچے شامل ہیں۔ طالبات کی تعداد بھی تقریبا چالیس بیالیس ہے، مدرسے کا تدریسی عملہ تقریبا دس افراد پر مشتمل ہے جن میں معلمات کی تعداد تین ہے۔ دور حاضر میں مدرسے کی سرپرستی مولانا کے صاحبزادے مفتی عبداللہ بھائی کر رہے ہیں جوکہ مذکورہ مسجد کے امام و خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ بنوری ٹاؤن میں بھی تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی ممتاز مبلغ مفتی مطیع الرحمان تھے جنھوں نے کہا کہ قرآن کا علم ہی انسان کو اللہ کی عظمت کی پہچان کرواتا ہے، ایسی روحانی محافل کو آسمانوں تک فرشتے چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ ایسی مبارک محافل کے اختتام پر رب تعالیٰ اس میں شریک تمام بندگان خدا کے لیے فرماتے ہیں کہ بخشے بخشائے کھڑے ہوجاؤ کہ ہم نے تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا۔

 انسان کی بنیادی ضرورت علم حاصل کرنا ہے۔ قرآن کی مجالس مردہ دلوں کو زندگی بخشتی ہیں۔ قرآن کو جب دل سے سنا جائے تو قلب پر اس قدر اس کا اثر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں جو اس کی صداقت و حقانیت کی دلیل ہے کیونکہ دنیا میں اس سے زیادہ سچا کلام اور کوئی نہیں۔ چودہ سو سال گزرنے پر بھی اس میں کسی قسم کی تحریف نہ ہوسکی کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ تو رب کے پاس ہے جو آسمان سے نبی پاکﷺ کے نورانی دل پر اتارا گیا۔ رب فرماتے ہیں کہ میں نے قرآن کو بشیر و نذیر بنا کر اتارا۔ جزا و سزا والے دن انسان یہ سوچ رہا ہوگا کہ کاش قرآن کا راستہ اختیار کر لیتا جو نجات، سکون، انعامات کا راستہ ہے۔ قرآن کی تلاوت سے اللہ خود بندے کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ حفاظ کے والدین کے سر پر عزت کا تاج رکھا جائے گا، جس کی روشنی سورج سے زیادہ ہوگی روز قیامت جو اکرام سے انہیں نوازا جائے گا، اس سے دیکھ کر ہر شخص یہ خواہش کرے گا کہ کاش میں بھی حافظ ہوتا۔ قرآن کا علم حاصل کرنا ہر مومن پر فرض ہے جس سے اللہ کی عظمت کا فہم حاصل ہوتا ہے۔ قرآن کا علم انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ براہ راست قدرت کے خزانوں سے کیسا استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ جہالت ہے جبکہ اسکول، کالج، مدرسے بہت ہیں اور اس کا اہم سبب قرآن و حدیث کا علم نہ ہونا ہے۔ تقریب کی صدارت مدرسہ تعلیم القرآن کے سرپرست نے کی انھوں نے کہا کہ یہ تقریب محض مدرسے کے طالب علموں کی حوصلہ افزائی اور علوم دینیہ کے حصول کی ترغیب کے لیے منعقد کی گئی ہے۔ انھوں نے بچوں کے والدین سے ان کی تربیت کے حوالے سے خصوصی دلچسپی کی گزارش کی جس سے بچے میں ذاتی اعتماد اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

آج کل کا سب سے بڑا المیہ تربیت کا بہت بڑا فقدان ہے کیونکہ گھروں کا ماحول دینوی، قرآنی و علمی نہیں رہا ہے جب کہ ہم سب اصلاح، تربیت کے محتاج ہیں۔ جگہ کی قلت کے باعث مزید داخلوں کو بند کردیا گیا ہے۔ مفتی عبداللہ نے اہل علاقہ سے خصوصی گزارش کی کہ وہ اس سلسلے میں جگہ کی نشاندہی فرمائیں اور اگر صاحب ثروت اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں گے تو روز قیامت وہ اس کا عظیم الشان اجر دیکھیں گے۔ طالب علموں نے نبی پاکﷺ کی ولادت باسعادت، فضیلت قرآن پاک پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، راقم جامعات کے بچوں کے تقریری مقابلوں میں بھی شریک ہوتا رہا ہے مگر یہ دیکھ کر حیرت انگیز مسرت ہوئی کہ ان کمسن بچوں نے درست لب و لہجے میں اشعار پڑھے اور تقاریر کیں جبکہ مدرسے میں قرآن کی تعلیم کے سوا اور کوئی اس طرح کی تربیت کا انتظام نہیں، بس ہفتے میں جمعرات کے روز تھوڑی بہت ان غیر نصابی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاتی ہے، لائق تحسین ہے۔ حفظ بچوں میں اسناد و شیلڈ پیش کی گئیں جو وفاق المدارس اور مدرسے دونوں میں کامیاب قرار پائے۔ ناظرہ کے بچوں میں اسناد بھی تقسیم کی گئیں۔ بے شک قرآن کا علم دینے والے علماءقاری حضرات لائق ستائش ہیں اور ان کے مرتبے کا علم اس حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ دو مجلسوں کے پاس سے گزرے جو مسجد میں منعقد ہورہی تھیں آپﷺ نے ارشاد فرمایا دونوں مجلسیں بھلائی پر ہیں لیکن ان میں سے ایک دوسری سے بہتر ہے ان دونوں جماعتوں میں سے ایک عبادت میں مصروف اور خدا سے دعا کررہی ہے اور اس سے اپنی رغبت اور خواہش کا اظہار کر رہی ہے اور دوسری جماعت جاہلوں کو علم سکھا رہی ہے، لہٰذا یہ لوگ بہتر ہیں اور میں بھی معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں، یہ ارشاد فرما کر آپﷺ بھی ان میں بیٹھ گئے (مشکوہ) اور طالبعلم کے بارے میں رسول پاکﷺ فرماتے ہیں کہ ”جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلے وہ جب تک گھر واپس نہ آجائے اللہ کی راہ میں ہے۔“ (مشکوہ)

 معلم کو ہمیشہ اچھائی، نیکی اور بھلائی کی ترغیب دینی چاہیے۔ دنیاوی علم بھی کسی نہ کسی درجے میں اچھائی برائی کی تفریق کرنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے، اس لیے اس علم کو یہ کہہ کر مسترد کر دینا کہ اس علم کا آخرت میں کوئی نفع نہ ہوگا، یہ سراسر زیادتی ہے اور ویسے بھی جزا و سزا کے فیصلے کا حق صرف خدائے بزرگ و برتر کو ہے۔ خدا پاک فرماتے ہیں کہ ( ترجمہ): ”آپ کہہ دیجیے کہ کیا علم والے اور بے علم لوگ کہیں برابر ہوسکتے ہیں؟ وہی لوگ نصیحت پکڑتے ہیں جو اہل عقل ہیں“ (سورہ الزمر) اس فرمان الٰہی سے ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل علم ہی نصیحت پا سکتے ہیں کیونکہ وہ شعور رکھتے ہیں سمجھنے اور عمل کرنے کا یہی وجہ ہے کہ اس عظیم الشان پروقار تقریب میں اہل محلہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جبکہ ان میں اکثریت مدرسوں سے فارغ التحصیل نہیں بلکہ اسکول کالج کے تعلیم یافتہ تھے اور ان کی تعلیم نے انہیں اس محفل کی حقانیت کی پہچان کروائی کہ ان کے دلوں نے اس میں شرکت کے جذبے کو ابھارا، تاکہ وہ اس کی انوارات و برکات حاصل کرسکیں، خدا ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

کوئی تبصرے نہیں