ڈاکٹر مجیب صحرائی اور فیصل ایدھی کا خصوصی بچوں سے متعلق آگاہی سیشن سے خطاب
کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ)سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی نے کہا ہے کہ دنیا کی آبادی کا تقریباً 16 فیصد (01 ارب سے زائد) خصوصی افراد ہیں، اسی طرح ہمارے ملک پاکستان میں 15 ملین خصوصی افراد ہیں، اس لیے معاشرے کو ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اور ہمیں انہیں خاص طور پر عمارتوں اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ضروری سہولیات مہیا کرنا ہوں گی۔
یہ بات انہوں نے سندھ مدرستہ
الاسلام یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں ”چلڈرین وتھ انکلیوسو نیڈس“کے موضوع پر منعقدہ ایک
سیشن میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہی جس کا اہتمام یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن
اسٹڈیز نے کیا تھا۔
ڈاکٹر مجیب صحرائی نے کہا
کہ ملک کی ترقی کے لیے ہمیں اپنی تمام نظرانداز کی گئی کمیونٹیز جیسے خواتین اور خصوصی
افراد کو ملک کے ہر دائرے میں شامل کرنا ہوگا۔ وائس چانسلر نے کہا کہ سندھ مدرستہ الاسلام
یونیورسٹی نے اپنے ملیر کیمپس میں تعمیر ہونے والی عمارتوں میں خصوصی افراد کے لیے
سہولیات شامل کی ہیں۔
ڈاکٹر مجیب صحرائی نے سندھ
مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں ممتاز انسان دوست جناب عبدالستار ایدھی کے بیٹے اور ایدھی
فاؤنڈیشن کے چیئرمین فیصل ایدھی کے آنے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ وائس چانسلر کی تجویز
پر حاضرین نے کھڑے ہو کر عبدالستار ایدھی کی عظیم خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر
مجیب صحرائی نے کہا کہ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے تھے، جن کا کوئی تنازعہ نہیں تھا اور
عبدالستار ایدھی ان میں سے ایک تھے۔ ڈاکٹر مجیب صحرائی نے فیصل ایدھی کی خدمات کو بھی
سراہا جنہوں نے اپنے والد کے عظیم مشن کو جاری رکھا ہوا ہے۔ وائس چانسلر نے انہیں انسانی
خدمت کے لیے اپنے تعاون کی پیشکش بھی کی۔
ڈاکٹر مجیب صحرائی نے شعبہ
میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سٹڈیز کے طلباءکی رپورٹس کو بھی سراہا جو انہوں نے خصوصی افراد
کے بارے میں تیار کی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح طلبہ نے اپنی سماجی ذمہ داری بھی
پوری کی ہے۔
فیصل ایدھی نے اپنے خطاب
میں کہا کہ وہ خصوصی افراد جو چھوٹے کاروبار کر رہے ہیں وہ ہمارے حقیقی ہیرو ہیں، انہیں
سپورٹ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ اپنی بہتر زندگی کے لیے جدوجہد اور خواب
دیکھ رہے ہیں اور معاشرے میں اپنا حصہ ڈالنا بھی چاہتے ہیں، اس لیے ہمیں ان کا ساتھ
دینا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ کراچی
شہر کے پرائمری اسکولوں میں 20 لاکھ بچے داخل ہیں اور شہر کے 26 لاکھ بچے اسکولوں سے
باہر ہیں۔ اس لیے ملک کے تمام بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا
کہ چند سال قبل میں نے اسلام آباد میں ایک فلسطینی سفارت کار سے ملاقات کی تھی اور
ان سے درخواست کی تھی کہ ہمیں غزہ میں بچوں کے لیے کام شروع کرنے کی اجازت دی جائے
تو انھوں نے جواب دیا کہ ایسی اجازت آپ کو مصر دے سکتا ہے، لیکن انھوں نے کہا کہ اس
وقت اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے باوجود غزہ میں خواندگی کی شرح
98 فیصد سے زیادہ ہے اور وہ اسکولوں کی عمارتوں کی کمی کی وجہ سے وہاں تین شفٹوں میں
اسکول چلا رہے ہیں۔ فیصل ایدھی نے کہا ہمارے یہاں ایسی صورتحال نہیں ہے اس لئے ہمیں
اپنے تمام بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں اور اگر ضرورت ہو تو غزہ
کی طرح تین شفٹوں میں اسکول چلائے جائیں۔
فیصل ایدھی نے کہا کہ اس
وقت کراچی شہر میں کوئی "نن" نہیں ہے، جو زیادہ تر عیسائی اور ہندو برادریوں
سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس قسم کی صورتحال کا سامنا کراچی کے بہت سے بچوں کے ہومز جیسے
دارالسکون اور دیگر کو کرنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک کی جنگوں میں شامل ہونے
کی وجہ سے پاکستان میں فلاحی اداروں کی ان کی مالی مدد میں بھی کمی آئی ہے، اس صورتحال
نے فلاحی اداروں کے لیے بھی بحران پیدا کر دیا ہے۔
فیصل ایدھی کا خیال تھا کہ
ہمیں ایک ہنر مند پاکستان کی ضرورت ہے جہاں عام اور خصوصی بچوں کو مختلف ہنر سکھائے
جائیں۔ انہوں نے ایس ایم آئی یو کے وائس چانسلر اور شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز
کے طلباءکی تعریف کی جنہوں نے خصوصی افراد کی حمایت میں یہ پروگرام منعقد کیا۔
خصوصی افراد میں سے گولڈ
میڈلسٹ، پی ایچ ڈی اسکالر اور سندہ مدرسہ یونیورسٹی میں وزیٹنگ فیکلٹی صبا غزالی، سب
ایڈیٹر ماہنامہ قومی زبان، انجمن ترقی اردو سید علی حسن، ٹی ڈی ایف میگنیفیسینس کی
ریسپشنسٹ پریتی ورودرا ایر شریک سی ای او اور بانی خاص فوڈزعلی خان ترین نے بھی اپنی
کامیابی کی کہانیاں بیان کیں اور تجویز پیش کی کہ حکومت انہیں کام کرنے کے ساتھ ساتھ
عوامی مقامات پر سہولیات فراہم کرے۔ دارالسکون ویلفیئر سوسائٹی کے سی ای او مسٹر سایو
ایم پریرا نے بھی خصوصی افراد کی ضروریات اور مسائل پر بات کی۔
اس موقع پر وائس چانسلر نے
مہمانوں کو شیلڈز دیں۔ سیشن کے دوران میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے طلباءنے خصوصی افراد کی روزمرہ
کی زندگی، سرگرمیوں اور مسائل پر ویڈیو رپورٹس اور مختصر فلمیں پیش کیں۔
کوئی تبصرے نہیں