عورت نزاکت ہی نہیں، انداز فکر و فن بھی ہے، شمع چوہدری

انٹرویو: محمد بخش

 شمع چوہدری ایک ایسی شاعرہ ہیں جو برطانیہ کے جزیرے ساؤتھ ویلز سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں اردو بولنے والے شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں مگر شمع کے اندر موجود صلاحیتیں انھیں اس ماحول میں بھی شعری تخلیقات پر اکساتی ہیں اور اس کا منہ بولتا ثبوت ان کے دو مجموعہ کلام حدیث دل اور شمع وفا ہیں۔ وہ محبت، احساس اور جذبات کی شاعرہ ہے اور اس کی شاعری احساسات پر سرور کے رنگ برساتی ہے۔

بنیادی طور پر شمع کا تعلق پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے ہے جہاں وہ پیدا ہوئیں اور اپنا بچپن گزارا۔ بچپن ہی میں والدہ کی ممتا سے محروم ہوگئیں۔ والد کے محکمہ تعلیم سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مختلف شہروں میں ابتدائی تعلیم مکمل ہوئی اور پھر میٹرک اور انٹر سیالکوٹ سے کیا۔ 1972 میں شمع کی شادی ہوئی اور وہ سیالکوٹ سے انگلینڈ آگئیں۔ جہاں اپنے شوق کی وجہ سے ہینڈی کرافٹ اور فائن آرٹ میں ڈپلومہ لیا جبکہ شاعری بھی ساتھ ساتھ رہی مگر تب شمع کے نزدیک بچوں کی تعلیم و تربیت اولین ترجیح تھی لہٰذا شوق پر توجہ کم دی اور اس کے بعد محض اپنے شوہر کے تعاون کی وجہ سے اب تک کا شعری سفر طے کیا اور دو مجموعہ کلام کی خالق ہیں۔ پہلے مجموعہ کلام حدیث دل کی غیر متوقع اور حیران کن کامیابی نے دوسرے مجموعہ شمع وفا کو ترتیب دینے کا حوصلہ عطا کیا، لیکن ان دونوں کتابوں کو منظر عام پر لانے کے لیے انھیں کئی رکاوٹوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بہت سے لوگوں نے حوصلہ شکنی کی کوشش بھی کی مگر انھوں نے شوق کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور پھر کتابوں کی اشاعت سے جو حوصلہ افزائی ہوئی اس نے انھیں پرامید کیا اور آج وہ اپنی منزل کی جانب بڑے اعتماد سے رواں دواں ہیں۔

شمع چوہدری سے ہمارا پہلا سوال تھا کہ:

سوال: آپ کی شاعری کا بنیادی حوالہ محبت ہے اس حوالے سے رومانٹسزم اور رئیلزم کے فرق والی بحث کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟

جواب: عشق، محبت ازل سے شاعری کے موضوعات رہے ہیں۔ رومانی طرز اسلوب صدیوں پرانا ہے اور خصوصاً غزل کا حسن ہے۔ ہر شاعر کا ایک تصور ہوتا ہے تخیل کی ایک دنیا اسے گھیرے رکھتی ہے اور خیالات کی حسین وادیوں میں محبت کی گونج اسے تخلیقی عمل میں مصروف رکھتی ہے۔ تخیل کے افق پر رومانی فضائیں چھاتی ہیں تو اچھی شاعری جنم لیتی ہے۔

محبت پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے تصورات یا تخیل کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ عشق و محبت ایک لافانی جذبہ ہے۔ رومانٹسزم اور رئیلزم میں واضح فرق موجود ہے یہ دو متضاد اسلوب اور تخلیقی عمل ہیں۔

غزل کے رنگ روپ میں محبت کے تصور سے نکھار آتا ہے، رومانیت حقیقت کے اشکوں کو تبسم زار بنا دیتی ہے جبکہ زندگی حقیقت میں تلخ ہے۔ شاعر زندگی کے رنج و الم سے نجات پانے کے لیے خیمہ خیال میں کچھ دیر رکتا ہے تو تصورات کی شبنم سے شاداب ہو کر گلہائے سخن سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ شاعری کے خد و خال عشق و محبت کے جذبوں سے اجاگر ہوتے ہیں اور اس کے برعکس رئیلزم رنج و الم اور مایوسی کی تصویر ہے۔ درد کی حکایت ہے۔ سوز دروں کو صفحہ قرطاس پر بکھیر دینا اور اپنے محسوسات کو شدت غم سے گھائل کرکے داخلی اور خارجی احساسات میں ہم آہنگی پیدا کرنا حقیقت کی شاعری ہے۔ معاشرے کے حقیقی مسائل کو شاعری میں سمونے سے پہلے وہ لذت درد محسوس کرنا بھی ضروری ہے جس سے دوسرے لوگ ہم کنار ہوں۔

آج کی جدید شاعری دور حاضر کے مسائل اور مصائب کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ آج کا شاعر محبت کے سائباں میں بیٹھا ہوا زمانے کے درد و غم کو محسوس کرسکتا ہے اور وقت کے نوحے کو سن سکتا ہے، اپنی ذات کو دنیا کے اثرات سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ اس کے بغیر حقیقی شاعری تخلیق کرنا ناممکن ہے۔

سوال: آپ کی شاعری پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ایک روایت سے جڑی ہوئی عورت اپنے محبوب کو دیوتا کا درجہ دیتی ہے اس میں محبت کے جذبے کی شدت تو ہے لیکن عہد جدید کے مطابق نسائی شعور کی کمی ہے؟

جواب: ہر قلم کار کی اپنی ڈکشن ہوتی ہے جو اس کے مزاج کی مطابقت پر منحصر ہے کہ وہ کس قسم کی شاعری کرتا ہے۔ چونکہ شاعری مشاہدات و تجربات کی عکاسی کرتی ہے۔ لہٰذا محبت کے جذبے کی شدت ہی روایتی شاعری میں جان ڈالتی ہے۔ میں وہی لکھتی ہوں جو محسوس کرتی ہوں۔

یہ حقیقت ہے کہ آج کی عورت بے شمار مسائل سے دوچار ہے اور اس کی زندگی میں مرد ہمیشہ دیوتا نہیں ہوتا۔ وہ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے لیے وہ مرد کی ناانصافی اور بے وفائی سے نالاں بھی ہے۔ نسائی شعور کا خلاصہ میرے نزدیک محبت ہے خدا نے عورت میں محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور محبت کا سوز و گداز زندگی کی تلخیوں کو سہنے کا ہنر عطا کرتا ہے۔

میں زہر کو امرت نہیں کہہ سکتی، سحر حسن..... کلک کیجیے

سوال: کیا مرد کو ظالم قرار دینے سے سماج کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ یا دونوں فریقین کے درمیان کوئی بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔

جواب: سماج میں عورت صدیوں سے مرد کے ظلم کا شکار رہی ہے۔ مرد گناہ کا مرتکب ہوکر بھی سماج میں پارسا مانا جاتا ہے جبکہ عورت بے قصور بھی گنہگار کہلاتی ہے۔ Male Dominated سوسائٹی میں میرے خیال میں مرد کو ظالم قرار دینے سے مزید بگاڑ پیدا ہوگا۔ عورت کو خود اپنی شخصیت بنانی چاہیے۔ سماج کے مسائل حل کرنے کے لیے تعلیم کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ دونوں فریقین میں انڈر اسٹینڈنگ سے بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے۔

سوال: برطانیہ میں مقیم نئی نسل کو اپنی زبان و ثقافت سے روشناس کرانے کے لیے مجموعی طور پر کیا کاوشیں ہو رہی ہیں؟

جواب: برطانیہ میں اردو اسکول بھی کھولے جا رہے ہیں اور اسکولوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے۔ کلچرل اور ادبی پروگرام تواتر سے منعقد کیے جاتے ہیں جن میں نئی نسل کے لیے دلچسپی کے سامان مہیا کیے جاتے ہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ثقافت کو نہ بھولیں۔ میڈیا کے ذریعے نئی نسل کو اردو زبان و ثقافت سے روشناس کرایا جا رہا ہے Vectone Radio  اردو چینل ہے جس پر اردو شاعری اور موسیقی کے حوالے سے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ یہ چینل اردو کے فروغ کے لیے بہت کام کر رہا ہے۔

سوال: شاعری کے حوالے سے آپ اپنے آپ کو کس مقام پر پاتی ہیں؟

جواب: شاعری کے حوالے سے قارئین ہی تجزیہ کرسکتے ہیں کہ میرا مقام کیا ہے؟ اگرچہ میں جانتی ہوں کہ ”حدیث دل“ کو بہت پذیرائی ملی جوکہ میری توقع سے زیادہ تھی اور اب ”شمع وفا“ کو بھی بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ دنیا بھر سے قارئین کے e-mail،فون کالز اور خطوط مبارک باد کے آتے ہیں۔ حوصلہ افزائی میرے فن کو تقویت عطا کرتی ہے میں اپنے شعری سفر کا ہمیشہ آغاز ہی سمجھوں گی۔ چونکہ سیکھنے کا عمل تمام عمر جاری رہتا ہے۔ ڈھنگ سے دل کی بات اشعار میں کہہ لو میں یہی چاہتی ہوں اور شاعری کے تقاضے پورے کرسکوں کیونکہ مشق سخن کے لیے ریاضت بہت ضروری ہے۔

سوال: آپ کن شعرا کے کلام سے متاثر ہیں؟

جواب: یوں تو میں کئی شعرا کے کلام سے متاثر ہوں مگر چند نام یہ ہیں۔

علامہ اقبال، غالب، فراق، فیض، فراز، امجد اسلام امجد، پروین شاکر، زہرہ نگاہ، ادا جعفری، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی اور کیفی اعظمی۔

سوال: آپ کی شاعری اور معتبر شعرا نے بڑی حوصلہ افزا آرا دی ہیں۔ کیا اس حوصلہ افزائی نے آپ کو مغرور بنا دیا ہے یا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ پر بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے؟

جواب: معتبر شعرا نے میری شاعری پر حوصلہ افزا رائے دے کر میرے خیال میں مجھ پر بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے۔ جس کا بار محسوس کرتی ہوں لیکن مجھے اس حوصلہ افزائی نے مغرور نہیں بنایا میں سمجھتی ہوں کہ مجھ میں غرور جیسا جذبہ نہیں پایا جاتا بلکہ خدا کے آگے عجز و انکسار سے سر جھک جاتا ہے کیونکہ مجھے انکساری بہت پسند ہے۔ یہ تاثرات اور تنقیدی آرا شاید میرے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔

سوال: اردو شاعری میں عورت کی بحیثیت انسان حقیقی تصویر کشی نہیں کی گئی ہے کیا آپ اس رائے سے متفق ہیں؟

جواب: سوال اچھا لگا میں اس رائے سے اتفاق کرتی ہوں کہ اردو شاعری میں جتنا عورت کے حسن پر کہا گیا ہے اتنا ہی اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اسے حسن کا پیکر، وفا کی دیوی کہا گیا مگر بحیثیت انسان اس کی حقیقی تصویر کشی نہیں کی گئی۔ عورت میں بھی وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو مرد میں ہیں۔ عورت میں حسن ہی نہیں ذہانت بھی ہے سامان راحت ہی نہیں جذبوں کا تقدس بھی ہے۔شعلہ حسن  ہی نہیں صدائے دل بھی ہے، رشتوں کا بھرم ہی نہیں محبت بھی ہے۔ نزاکت ہی نہیں، اندازِ فکر و فن بھی ہے۔

سوال: کیا آپ کی تخلیقات کے پس منظر میں شہرت کی جستجو ہے؟

جی نہیں! میری تخلیقات کے پس منظر میں شہرت کی جستجو نہیں ہے مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ میری شاعری کو اس قدر سراہا جائے گا۔ میرا مقصد پیغام سب تک پہنچانا ہے۔

سوال: ادب میں پی آر کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: ادب میں پی آر کی اہمیت میرے نزدیک خاص معنی نہیں رکھتی، اس کے ہونے یا نہ ہونے سے اچھے ادب پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

سوال: کیا ادب کا سماج سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے؟

جواب: ادب کا سماج سے رشتہ کیسے ٹوٹ سکتا ہے؟ ادب تو معاشرے کی تصویر کشی کرتا ہے، ادب کی ضرورت سماج کو ہے اور سماج کی ضرورت ادب کو ہے۔ جدید دور میں جو سماجی تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ ادب میں نمایاں نظر آتی ہیں ایک شاعر، ادیب یا فنکار اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر تو نہیں رہتا اپنی ذات کے گوشے میں رہ کر بھی وہ سماج سے جڑا ہوا ہے۔ البتہ لوگوں میں اچھے اور معیاری ادب کا ذوق کم ہو رہا ہے۔

سوال: امجد اسلام امجد نے آپ کی شاعری کو روایت سے جڑا ہوا کہا ہے۔ آپ کی نظر میں روایت کی کیا اہمیت ہے؟

جواب: جدیدیت کے اس دور میں بھی روایتی شاعری کی رعنائی سے انکار نہیں کیا جاسکتا آج کل شاعری زندگی کے مصائب و مسائل کے موضوعات سے بھرپور ہے مگر روایت کا دامن بھی تھامے ہوئے ہے۔ گل و بلبل کے علاوہ دور حاضر کی شاعری نئے خیالات اور مشاہدات کی حامل ہے، شاعری روایتی انداز میں چلتی ہوئی عصر حاضر میں داخل ہوتی ہے۔ روایتی انداز میں جدید تشبیہات اور استعارات کا استعمال روایت کی اہمیت کا اعتراف ہے۔

سوال: تازہ مجموعہ کلام ”شمع وفا“ میں آپ کی خوبصورت پنجابی شاعری بھی شامل ہے کیا آپ مادری زبان سے محبت کی بنا پر آیندہ علیحدہ پنجابی مجموعہ کلام شایع کریں گی؟

جواب: ”شمع وفا“ میں پنجابی شاعری شامل کرکے قارئین کی رائے کو جاننا چاہا تھا مجھے امید نہیں تھی کہ یہ لوگوں کو متاثر کرے گی، میں اپنے تیسرے مجموعہ کلام ”لفظوں کے پھول“ سے پہلے قارئین اور اہل علم کی فرمائش پر پنجابی کی کتاب منظر عام پر لانا چاہتی ہوں۔ پنجابی میری مادری زبان ہے۔ میں اسے اپنی کوتاہی گردانتی ہوں کہ میں نے اپنی مادری زبان میں بہت کم شاعری کی ہے۔

سوال: کیا ادب میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے؟

جواب: آج کل نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی۔ علم و ادب کے علم بردار گروپ بندیوں میں مصروف ہیں آج کل کوئی بھی مصروف زندگی میں ادب کی خدمت نہیں کر رہا۔ نئے آنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا میں اپنا فرض سمجھتی ہوں۔ یہی ادب کا تقاضا ہے ہر ایک کو موقع فراہم کرنا چاہیے کہ اس کی صلاحیتیں نکھر کے سامنے آئیں حوصلہ افزائی کے بغیر فن کار کا تخلیقی رویہ پرجوش نہیں رہتا۔ میرے خیال میں ادب کی بے لوث خدمت ہونی چاہیے یہ ہمارا سرمایہ ہے۔ جس پر ہم ناز کرسکتے ہیں۔

سوال: برطانیہ میں جو لوگ علم و ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں ان کے ناموں سے ہمیں آگاہ کیجیے؟

جواب: برطانیہ میں یورپ اور امریکا میں ایشیائی بہن بھائیوں کی کاوشیں بہت عظیم ہیں جنھوں نے اپنی روایات اور ثقافت، تہذیب و تمدن کو شاعری سے زندہ و پائندہ رکھا ہوا ہے جو لوگ برطانیہ میں ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں۔

آدم چغتائی، عاشور کاظمی، اختر سعید درانی، غفار عزم انور مغل، نفیس میاں، حیدر طباطبائی، ڈاکٹر صفی حسن، منصور آفاق، نوید اقبال، آنند صاحب اور خواتین میں یاسمین حبیب، طلعت سلیم اور شبانہ یوسف کے نام شامل ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں