صحافی، شاعرہ، کمپیئر، کاپی رائٹر اور صداکارہ سحر حسن کہتی ہیں ''میں زہر کو امرت نہیں کہہ سکتی"

Sehar Hassan

انٹرویو: محمد بخش

 آج کی عورت ہر محاذ پر سینہ سپر ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔ وہ اپنے جوش و جذبے، عزم و ہمت اور اپنی بے پایاں صلاحیتوں سے ایک نئی تاریخ رقم کر رہی ہے۔ ایسی تاریخ جس میں عورت کمزور، مجبور، مظلوم یا بے وقعت نہیں۔ وہ ایک ایسی چٹان کی طرح ہے جس کا حالات کے تھپیڑے کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سحر حسن کی شخصیت بھی ایک ایسی ہی چٹان کی طرح نظر آتی ہے جو طوفانوں کا مقابلہ کرنا جانتی ہے۔ حوادث زمانہ نے جسے زندگی سے لڑنا سکھا دیا ہے اور اب وہ دوسری عورتوں کو بھی زندگی کے محاذ کا فاتح دیکھنا چاہتی ہے۔ اسے روتی، سسکتی عورت پسند نہیں۔ وہ عورت کو کمزور یا مظلوم نہیں سمجھتی۔ بقول اس کے ''عورت کے اندر برداشت کی جو قوت ہے، وہ اس سے دنیا فتح کر سکتی ہے لیکن بات صرف اس سوچ کی ہے جو وہ اپنے بارے میں رکھتی ہے۔"

پرجوش، پرعزم اور پراعتماد سحر ایک فنکار کی گود میں پروان چڑھی۔ اس کے والد ایک بہت اچھے مصور ہیں لہٰذا فنکاری کے جراثیم ابتدا ہی سے اس کے اندر موجود تھے۔ صحافت میں ایم اے کی ڈگری لے کر دشت صحافت میں داخل ہوئی۔ انھوں نے جنگ، اخبار جہاں، خبریں، عوام اور کائنات میں صحافتی فرائض سرانجام دیے، ممتاز اخبار روزنامہ ''ایکسپریس'' کے وومن اور یوتھ ایڈیشن کی انچارج رہیں۔

اس کے علاوہ وہ ٹی وی کے کئی پروگرامز کے اسکرپٹ بھی لکھ چکی ہیں۔ سحر حسن نہ صرف نثر بلکہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتی ہیں اور وہ ایک بہت اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ ان کی شاعری مختلف اخبارات و رسائل میں شایع ہوتی رہتی ہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ''خوابوں کی تتلیاں''کے عنوان سے شایع ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آج کی رول ماڈل پاکستانی خواتین کے انٹرویوز پر مشتمل ایک کتاب ''کھلتے دریچے'' کے عنوان سے اشاعت کی منتظر ہے۔

Khuwabon Ki Titliyan


سوال: آپ اپنے تعلیمی اور پروفیشنل کیریئر میں حاصل ہونے والی کامیابیوں سے ہمیں آگاہ کیجیے۔

جواب: میں نے پری میڈیکل سے ایف ایس سی اور بی ایس سی کیا پھر ایم۔اے صحافت میں کیا۔ میرے تھیسس کا عنوان تھا ''ایڈورٹائزنگ''۔ یہ بات تو ہوئی تعلیمی کیریئر کے حوالے سے۔ اب میں متعدد فیلڈز میں پروفیشنل تجربے کے بارے میں آپ کو بتاؤں گی۔ 1992 سے ریڈیو پاکستان میں بزم طلبا، سائنس کلب، کامیڈی شو اور متعدد کمرشل پروگرامز کی کمپیئرنگ کی جبکہ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن سے براہ راست پروگرام ''مہکار'' کی میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔ متعدد ریڈیو کے ڈراموں میں صدا کاری کی۔ معروف صداکار حسن شہید مرزا کے ساتھ متعدد کمرشلز میں صداکاری کی۔ اسپیکٹرم ایڈورٹائزنگ کے اشتہار Narration میں صداکاری کی جوکہ سونی ٹی وی، اسٹار پلس اور پی ٹی وی ورلڈ کے لیے تیار کیا گیا۔ پی ٹی وی اسلام آباد سینٹر کے پروگرام ''السلام علیکم روشن پاکستان'' کی بھی کمپیئرنگ کی۔ نجی ٹی وی چینلز ARY اور QTV کے متعدد مذہبی پروگراموں کی کمپیئرنگ کی۔

''جرائم اور دہشت گردی'' کے عنوان کے تحت مختصر کورس مکمل کیا۔ جس کا اہتمام بین الاقوامی شہرت یافتہ اخبار ''دی گارڈین'' لندن کی نمایندہ مسز سوزن گولڈن برگ نے کیا تھا۔ ''اسکرپٹ رائٹنگ کا فن اور ابلاغ'' کے عنوان سے منعقدہ تھیٹر ورکشاپ کورس مکمل کیا۔ جس کا اہتمام PACC اور نیشنل تھیٹر نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ پرائم ایڈورٹائزنگ (اسلام آباد) کے ساتھ بطور کاپی رائٹر ٹی وی کے لیے اشتہارات لکھے۔ کراچی اور حیدرآباد ریڈیو اسٹیشنز پر بحیثیت اسکرپٹ رائٹر کام کیا۔ سلطانہ صدیقی کی سیریز ''قسمت کے ستارے'' میں کھیل ''نادیہ کی کہانی'' کی ون لائن تھیم لکھی۔ یہ سیریزPTV اور PTV ورلڈ سے دکھائی گئی۔

بطور صحافی روزنامہ جنگ کراچی، ہفت روزہ اخبار جہاں، روزنامہ خبریں اور روزنامہ کائنات سے وابستہ رہی اور آج کل روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوں۔

سوال: آپ کیوں لکھتی ہیں؟

جواب: معاشرے کے بارے میں جو میرا مشاہدہ ہے، اسی مشاہدے کی بنا پر لکھتی ہوں۔ اس سماج میں ظلم، ناانصافی اور کرپشن کا دور دورہ ہے، اخلاقی قدریں زوال پذیر ہیں، باہمی محبت اور بھائی چارے کا فقدان ہے۔ حسد، رقابت اور جلن کے جذبات عام ہیں میری تحریر میں ان خامیوں کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ میں شوگر کوٹڈ کچھ نہیں لکھ سکتی۔ زہر کو امرت کہنا میرے بس میں نہیں ہے۔ بقول شخصے، سحر حسن کی تحریر کے الفاظ ذہن پر پتھر کی طرح پڑتے ہیں۔ دراصل میں نے پتھر کھائے بہت ہیں۔ چونکہ یہی سچ ہے۔ میں لکھنے کے عمل کو اپنا کتھارسس سمجھتی ہوں۔

سوال: کیا ادب میں نئے لکھنے والوں کی پذیرائی ہو رہی ہے؟

جواب: میں سمجھتی ہوں، جتنے بھی سینیئرز لکھنے والے ہیں، وہ کبھی نہیں چاہتے یا چاہیں گے کہ نئے لکھنے والے سامنے آئیں۔ فیملی میں جس طرح جنریشن گیپ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح ادبی برادری میں یہی سوچ ہے۔ ہمارے لیے کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہے۔ ہمارے ساتھ سینئرز کا رویہ اچھا نہیں تھا لیکن اب میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اپنے جونیئرز کے ساتھ تعاون کروں، ان کی حوصلہ افزائی کروں۔

سوال: کیا شاعری کو جذبوں کے حوالے سے شناخت کیا جاسکتا ہے؟

جواب: عورت اب بحیثیت فرد شاعری کر رہی ہے۔ اس کا کریڈٹ پروین شاکر کو جاتا ہے۔ لہٰذا اب شاعری کو مرد اور عورت کے علیحدہ علیحدہ خانوں میں تقسیم کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ عورت زیادہ حساس ہے۔ بہت زیادہ گہرائی میں جا کر جذبات کو محسوس کرسکتی ہے۔ میرے استاد علی احمد بروہی نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا تھا کہ ''عورت ہمیشہ وفادار اور مرد ہرجائی ہوتا ہے۔'' کیونکہ مرد اور عورت کے اجزائے ترکیبی مختلف ہیں۔

سوال: آپ کی تخلیقات میں معاشی و سماجی ناہمواری کے خلاف احتجاج نظر آتا ہے جن میں مرد کو ظالم اور عورت کو مظلوم بنا کر پیش کیا گیا ہے؟

جواب: جہاں تک احتجاج کی بات ہے، آپ کو کوئی گالی دے تو یقینا آپ احتجاج کریں گے۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں، اس میں مرد یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ظالم ہے۔ آخر مرد یہ ثابت کیوں نہیں کرتا کہ وہ ظالم نہیں ہے؟ ہمارے معاشرے کا جو مرد ہے، وہ بہت کچے کانوں کا ہے وہ ادھر ادھر کی یا کسی فرد کی بات سن کر ''الزام'' لگانا شروع کر دیتا ہے۔ انسانی تاریخ میں مرد کا کردار اسٹیریو ٹائپ چنگیز خان کا ہے۔ وہ مرد کو ''ظالم'' ثابت کرنے پر اور عورت کو مظلوم بنانے پر تلا ہوا ہے۔ میں سمجھتی ہون، آج کی عورت مظلوم نہیں ہے بلکہ اس کے اوپر تھوپا جا رہا ہے کہ وہ مظلوم ہے۔ یہ درست ہے کہ عورتیں بہت سی باتیں سہتی اور برداشت کرتی ہیں اور میری تخلیقات اس خاموش بے شبان عورت کی آواز ہیں جو ظلم سہہ رہی ہے۔

سوال: عورت میں گھٹن کا احساس شہری سماج میں ہے یا دیہی سماج میں؟

جواب: گھٹن کا تعلق آگاہی سے ہے۔ جس کو جتنی آگاہی ہے، اس کے لیے گھٹن کا اتنا ہی احساس زیادہ ہے۔ شہری عورت کا کینوس وسیع ہو جاتا ہے۔ دیہی عورت کو جب بہت سی باتوں کے بارے میں ''آگاہی'' ہی نہیں ہے تو وہ خود کو زیادہ پرسکون محسوس کرتی ہے۔ شہری عورت بالخصوص ورکنگ کلاس سے تعلق رکھنے والی لڑتی ہے، جھگڑتی ہے اور آگے بڑھتی ہے۔ ٹوٹتی ہے، بکھرتی ہے، خود کو پھر جوڑتی ہے، تو یقینا ًایسی عورت کو زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سوال: صحافت کے شعبے میں مرد حضرات کی اکثریت ہے۔ آپ کو کن مسائل اور رویوں کا سامنا کرنا پڑا؟

جواب: میں جس پروفیشن سے وابستہ ہوں، اس میں عورت کا لبادہ اتار کر ایک طرف رکھنا پڑتا ہے کیونکہ اگر میں خود کو ایسا سمجھوں گی کہ میں عورت ہوں، مظلوم ہوں تو پھر کام نہیں چلے گا اس پروفیشن کا انتخاب تو میں نے اپنی پسند سے کیا ہے تو اس سلسلے میں جو بھی مشکلات ہیں، ان کا مقابلہ ہمت سے کرنا ہوگا۔ عورت ہونے کے ناتے خود کو کمزور سمجھنا میری غلطی ہوگی۔ میرے خیال میں، میں وہ تمام کام بحسن و خوبی سرانجام دے سکتی ہوں جوکہ مرد صحافی دے سکتے ہیں۔ رویوں کا مسئلہ تو عورت خود کو عورت سمجھ کر پیدا کرتی ہے اگر آپ بغیر صنفی تفریق کے کام کرتے ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

سوال: کیا سحر حسن نے سماج سے لڑنا سیکھ لیا ہے؟

جواب: جب آپ کا شعور آگہی کی منزل پر پہنچ جاتا ہے تو یقینا آپ کے اندر ایک احتجاج کی قوت پیدا ہوتی ہے اس کی اس قوت کو سماج کے مرد مختلف خطابات سے نوازتے ہیں مثلاً ابنارمل ہے، دماغ کے اسکرو ڈھیلے ہیں، سنکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ورکنگ وومن اپنے موقف پر ڈٹی رہتی ہے۔ اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا مردوں کے لیے ذرا مشکل کام ہوتا ہے لہٰذا اس طرح کی بے سروپا باتیں کی جاتی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں نے اب تک جو زندگی کا سفر طے کیا ہے یقینا وہ بہت کٹھن ہے۔ اسی کٹھن سفر نے مجھے سماج سے لڑنے کا حوصلہ دیا ہے۔ میں منافقت نہیں کرسکتی۔ جو سچ ہے، وہی لکھوں گی۔ مثلاً میرا ایک فیچر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں شایع ہوا جسے پڑھ کر بہت سے مردوں کو دھچکا لگا۔ متعدد دھمکی آمیز فون کالز آئیں لیکن میرے اندر ان سب کا مقابلہ کرنے کی قوت ہے۔ مجھے لوگوں کی چنگھاڑ پر خوشی ہوتی ہے۔

سوال: بعض (NGO's) مرد کو ''ظالم'' کے روپ میں پیش کرتی ہیں۔ کیا شفقت وایثار، قربانی اور دلیری کے جذبات مرد کے اندر نہیں پائے جاتے؟

جواب: جی ہاں، یہ بات پروپیگنڈے کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ جس کے باعث معاشرے میں ایک کھنچاؤ کی کیفیت پیدا ہو رہی ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ سماج میں مثبت تبدیلی رونما ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ مثبت سوچ کو پروان چڑھایا جائے۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں۔ یہ دونوں مل کر ہی سماج میں بہتری پیدا کرسکتے ہیں۔ دراصل اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بھی انتہا پسندانہ اور منفی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس میں توازن لایا جائے۔

سوال: صحافت کے شعبے کو مشکل سمجھا جاتا ہے آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب: میرے والد مصور ہیں۔ واٹر پینٹنگ بناتے ہیں۔ جس طرح ان کا ذہن تخلیقی ہے اور وہ فنکارانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، بالکل اسی طرح میری جین میں بھی یہی چیز آئی ہے۔ میرے اندر بھی آرٹسٹ والی روح ہے۔ میں اگر صحافت کو خشک موضوع سمجھ لیتی تو کب کا چھوڑ کر بھاگ جاتی۔ نثر یا شاعری کو ایک ردھم میں لکھنا بھی ایک فن ہے۔ میں اپنے کام کو بھی آرٹسٹک انداز میں کرتی ہوں۔ میں روزنامہ ''ایکسپریس'' کے یوتھ اور وومن ایڈیشن کی انچارج ہوں۔ میں جب ان صفحات کو ترتیب دیتی ہوں تو اسی بات کو مدنظر رکھتی ہوں۔ بقول ہمارے رفیق کار اور سینئر صحافی مرزا ظفر بیگ کے ''سحر! تمہارے ایڈیشنز کی سرخیاں بولتی ہیں۔"

سوال: موسم کون سا اچھا لگتا ہے؟

جواب: موسم تو سارے ہی خوب انجوائے کرتی ہوں۔ ایک مخصوص عمر تک برسات کا موسم اچھا لگتا تھا۔ اب یوں لگتا ہے جیسے برسات کا موسم میرے دل سے ملتا جلتا ہے۔ بادل جب اپنے دکھ برساتے ہیں تو زمین کی پیاس کو بجھا دیتے ہیں۔

سوال: کیا آپ خواب دیکھتی ہیں؟

جواب: اب میں کیا خواب دیکھوں! میں نے ہمیشہ وہ خواب دیکھے ہیں جو دسترس سے باہر نہ ہوں۔ کبھی بھی اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرح بڑے بڑے خواب نہیں دیکھے جن کی تعبیر ہی نہ مل سکے۔ مجھے زندگی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ میں نے اپنے سارے خوابوں میں ایک مصور کی طرح خود ہی رنگ بھر لیے ہیں۔ بس اب تو ایک ہی خواب ہے کہ اپنے والدین کو حج کروا سکوں۔ اللہ تعالیٰ میرے اس خواب کو شرمندہ  تعبیر کریں۔ (آمین(

سوال: آپ کے جذبہ ہمدردی کی لوگ تعریف کرتے ہیں؟

جواب: رب کائنا ت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے۔ درد دل کے واسطے ہی انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔ تو ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آئیں۔ اگر میں سماج کے کسی فرد کے کام آسکتی ہوں تو اس سے بڑھ کر میرے لیے کیا خوشی ہوگی۔ اگر کسی کی مالی مدد نہ بھی کرسکوں تو کم ازکم اپنے قدموں سے چل کر اس انسان کی دل جوئی کر دوں۔ کسی کو اچھی اور مثبت راہ دکھا دوں۔ اچھا مشورہ ہی دے دوں۔ کسی جونیئر کی حوصلہ افزائی کرکے اس کا دل بڑا کردوں۔ یہی میری خواہش ہوتی ہے اور اسی پر ہمیشہ کاربند رہتی ہوں۔

سوال: نئی نسل سے کیا توقع رکھتی ہیں؟

جواب: نئی نسل سے تو ہمیں بڑی امیدیں وابستہ ہیں، لیکن کچھ شکوہ بھی ہے۔ آج سے 12 برس قبل جب ہم ٹین ایجر تھے تو اس وقت ہماری یہ سوچ تھی کہ جب ہم زندگی میں کسی مقام پر پہنچیں گے تو اپنے والدین کو سکھ، چین اور آرام دیں گے۔ ان کی خدمت کریں گے لیکن آج کی نئی نسل کے مطالبات بہت زیادہ ہیں، لیکن عملاً وہ منفی سوچ کو اپنا رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم ماں باپ کی خدمت کریں گے تو ہمیں اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ زندگی کی تمام تر سہولتیں مہیا ہونے کے باوجود نئی نسل والدین سے خوش کیوں نہیں ہے؟ یقینا ان کی تربیت میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔ شاید اسی لیے ان میں مثبت سوچ کا فقدان ہے۔

کوئی تبصرے نہیں