عمران خان کی حکومت آئینی طریقے سے ختم کر دی گئی
تحریک انصاف پاکستان کی تین سال آٹھ ماہ کی حکومت بلا آخر قانون کے مطابق قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کارروائی مکمل کر کے ووٹنگ کے ذریعے ختم کر دی گئی۔ ایک سو چوہتر (174) ممبران قومی اسمبلی نے عدم اعتماد کے حق میں ووٹ ڈالے۔ تحریک انصاف پاکستان کے منحرف ممبران ووٹنگ میں شامل نہیں ہوئے۔ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے استعفے کے بعد پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی سے نکل گئے۔ اب عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے۔ عمران خان وزیر اعظم آفس کے عملے سے الوداعی ملاقات کر کے وزیر اعظم ہاﺅس سے اپنے گھر بنی گالا منتقل ہو گئے۔
گو کہ اسمبلی کا اجلاس سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ساڑھے دس بجے (10.30) شروع کیا گیا۔ مگر پانچ (5) دفعہ اجلاس میں وقفہ بھی کیا گیا اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر وقت بھی ٹالتے رہے۔ بالآخر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے بارہ بجے سے پہلے ہی اسمبلی کے اجلاس میں استعفے پیش کر دیے۔ اسد قیصر نے اسمبلی کے قانون کے مطابق ایاز صادق کو اجلاس کی کارروائی چلانے کی دعوت دی۔ سابق اسپیکر اسمبلی ایاز صادق نے اسپیکر کے فرائض انجام دیے۔ ایاز صادق نے قانون کے مطابق عدم اعتماد پر ووٹنگ کروا کر عمران خان حکومت کو آئینی طرےقے 10 اپریل کو عدم اعتماد مکمل کر کے ختم کر دیا۔ جب ٹال مٹول ہو رہی تھی اس دوران سپریم کورٹ نے اپنا دفتر رات گئے کھولا۔ کہا جا رہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کے آرڈر پر رات بارہ بجے تک عمل نہیں کیا گیا تو متعلقہ لوگوں کو کنٹپنٹ آف کورٹ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عمران خان نے کہا تھا کہ
عدالت کے حکم پر عمل کیا جائے گا۔ عدالت کے فیصلہ سے مایوسی ہوئی۔ سپریم کورٹ امریکی
وہ دھمکی آمیز خط تو دیکھ لیتی جس میں منتخب حکومت کو ختم کرنے کا کہا گیا ہے، عمران
خان نے کہا کہ جمہوریت مذاق بن گئی۔ قوم فیصلہ کرے کہ آزاد رہنا ہے یا غلام؟ امپورٹڈ
حکومت تسلیم نہیں۔ قوم اتوار کو باہر نکلے۔ اپوزیشن کے مطالبے پر نہ اسمبلی توڑوں گا
نہ استعفیٰ دوں گا۔ آخری گیند تک کھیلوں گا۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق پارلیمنٹ کا
اجلاس ساڑھے دس بجے بلایا گیا تھا۔ اسمبلی رولز کے مطابق کارروائی شروع کی گئی۔ سپریم
کورٹ کے حکم پر عمل درآمد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا اجلاس 9 اپریل ساڑھے دس بجے بلایا
گیا۔ عدم اعتماد کے پروسیس کے تحت کارروائی شروع کی گئی۔ قائد حزب اختلاف نے کہا کہ
اجلاس صرف ایک نکتہ یعنی عدم اعتماد تک محدود رکھا جائے۔ مگر عمران خان کے کہنے پر
اسپیکر نے چار نکاتی ایجنڈے پر کارروائی کا آغاز کیا۔ امریکا کی جانب سے دی جانے والی
دھمکی کہ عمران خان کو اسمبلی میں عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا جائے ورنہ پاکستان کے
لیے اچھا نہیں ہوگا اور اگر عمران کو ہٹا دیا جائے تو پاکستان کو معاف کر دیا جائے
گا۔ اس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تفصیل سے تقریر کی اور اپوزیشن پر الزام لگایا
کہ وہ ایک منتخب حکومت کو امریکا کے کہنے پر تبدیل کر نے کی سازش میں ملوث ہے۔ اسی
طرح حکومت کے دوسرے ممبران نے بھی اپوزیشن پر اپنی تقریروں میں یہی الزام لگایا۔ قائد
حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے اپنی تقریر میں اسپیکر کو مخاطب
کرتے ہوئے کسی بھی سازش کو رد کیا اور کہا کہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے پارلیمنٹ کا
وقت ضائع نہ کریں۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق عدم اعتماد کو مکمل کریں۔ پیپلز پارٹی
کے پرچی چیئرمین نے بھی کہا کہ ووٹنگ کرائی جائے۔ اپوزیشن کے ممبران ووٹنگ ووٹنگ کی
گردان کرتے رہے۔ ساڑھے گیارہ بجے تک عمران حکومت کے اسپیکر اسمبلی میں وقت ٹالتے رہے۔
اس دوران نو بجے عمران خان نے وزیر اعظم ہاﺅس میں کا بینہ کا اجلاس بلا کر اپنی
پارٹی کے منحرف ارکان کے خلاف کارروائی کے لیے کابینہ سے اجازت لی۔ کیونکہ منحرف ارکان
نے شو کاز نوٹسز کے تسلی بخش جوابات نہیں دیے اور اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھا کہ
ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت کو ختم کیا جائے۔ عمران خان نے اسپیکر قومی اسمبلی کو امریکا
کی جانب سے موصول ہونے والا دھمکی آمیز خط سپریم کورٹ اور چیئرمین سینیٹ کو دینے کی
منظوری بھی لی اور اسپیکر اسد قیصر نے اسپیکر ایاز صادق کو اسمبلی ریکارڈ کے لیے خط
پیش بھی کیا۔ اسپیکر نے نیا وزیر اعظم منتخب کرنے کے لیے گیارہ 11 اپریل کی تاریخ مقرر
کر دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی پریڈ کی تاریخ و اہمیت
اسد عمر سیکریٹری تحریک انصاف پاکستان نے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کر دی۔ عدالت نے منحرفین کی تاحیات نااہلی ریفرنس کی سماعت کے لیے تاریخ مقرر کر دی۔ ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل پانچ (5) کے تحت رولنگ دی جو آئین کے مطابق ہے۔ عدالت عظمیٰ سات 7 اپریل کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ عدالت کو پارلیمنٹ کے معاملات کو کنٹرول کرنے کا اختیار نہیں۔ مولوی اقبال حیدر نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان، قاسم سوری اور سابق وزرا کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے درخواست دی جو سماعت کے لیے منظور کر لی گئی۔ فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور اسد مجید کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کر لیا گیا ہے۔
صاحبو! اللہ کا شکر ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری کا خاتمہ ہوا۔ سیاست دانوں نے تو تیسری قوت کو آنے کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا مگر تیسری قوت پہلے ہی سیاست میں ملوث ہو کر اپنی قدر و قیمت کھو چکی تھی۔ نواز شریف نے تاریخی غلطی کر کے اپنے اقتدار کی خاطر ملک فوج اور عدلیہ کے خلاف مہم چلا کر کروڑوں شہریوں اور ووٹروں کو مخالف بنا دیا تھا۔ دشمن نے برسوں سے پاکستان کی فوج کے خلاف مہم چلائی ہوئی تھی جس میں نواز شریف نے رنگ بھر دیا ہے۔ فوج اور عدلیہ نے نیوٹرل رہ کر اس نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے جو ملک کے لیے نیک شگون ہے۔ عمران خان سیاسی ناپختگی ، جلد بازی اور ضد کی وجہ سے اپنے ہی بندوں کو ساتھ ملاکر چلانے کی صلاحیت سے محروم تھا۔ اسی طرح اتحادیوں کو بھی ساتھ ملا کر نہ رکھ سکا۔ کئی دہائیوں سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومت کی باریاں بدل بدل کے حکومت کرنے اور عوام کی حالت نہ بدلنے کی وجہ سے تنگ تھے۔ عمران خان کو اسلامی فلاحی ریاست انصاف اور قائد اعظمؒؒ کے وژن پر عمل کرنے کے وعدے پر عوام نے منتخب کیا تھا ۔ عمران خان اپنے دور حکومت میں مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کی گردان تو دھراتے رہے مگر اسلامی فلاحی ریاست کے لیے کوئی ٹھوس کام نہیں کر سکے بس وقت ضائع کیا۔ اسی وجہ سے انھیں حکومت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ ہاں عمران خان نے کرپشن کے خلاف عوام کو کھڑا کیا۔ یہ بات قابل تعریف ہے۔ کیا عوام اب پھر انھی کرپٹ سیاست دانوں کو اقتدار میں لانا چاہیں گے؟ ان کے خلاف تو نیب میں منی لانڈرنگ کے مقدمے دائر ہیں ۔ کئی سزا یافتہ ہیں، کئی ملک سے فرار ہیں ہیں۔ عدالتوں نے انہیں بھگوڑا ظاہر کیا ہوا ہے۔ کیا نئی حکومت یہ مقدمات ختم کروا دے گی۔ کرپشن کا بازار پھر سے چل پڑے گا؟ نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہےے۔ جب بھی الیکشن ہوں تو عوام کو کرپشن سے پاک لوگوں کو پارلیمنٹ میں لانے کی کوشش کرنی چاہےے جو پاکستان میں موجود ہیں اور آزمائے ہوئے بھی ہیں۔ جب تک عوام ایسے لوگوں کو اقتدار میں نہیں لائیں گے، امریکا ہمیشہ کی طرح دھمکیاں دیتا رہے گا۔ ہمیں خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ جب ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے تو امریکا کی دھمکیاں بھی ختم ہو جائیں گی ۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو آمین۔
کوئی تبصرے نہیں