عالمی یوم ماحولیات پر سیمینار، ماحولیاتی اسٹیج ڈرامہ اور میوزک شو
رپورٹ: شازیہ عدنان
2010 کے بعد سے پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثرہ ممالک کی گنتی میں سرفہرست ہے، اس وقت پاکستان دنیا کے ان سات ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے براہ راست نشانے پر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 1880 کے بعد 2000 سے موسمی تبدیلیوں میں شدت آئی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2030 تک موسموں میں حیران کن اور ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔
سائنسدان عالمی حدت میں اضافے
کی بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کی بڑی مقدار کا
فضا میں اخراج کو قرار دیتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق موسی تبدیلیوں کے باعث سیلاب اور
خشک سالی میں اضافے کے ساتھ ناقابل اعتبار اور متضاد موسم انسانی رہن سہن اور فصلوں
کی تباہی کا باعث بنیں گے۔ آج کرہ ارض پر بسنے والے ہر ذی روح کو بقا کے خطرات لاحق
ہو چکے ہیں۔ پاکستان ان تبدیلیوں سے جڑے تمام مظاہر کا ہاٹ اسپاٹ ہے، کہیں سخت ترین
موسم کے ریکارڈ ٹوٹتے ہیں تو کہیں گرمی خطہ کو پگھلا رہی ہے، کہیں سیلابوں اور طوفانوں
نے تباہی مچائی تو کہیں طوفانی بارشوں نے، گلیشیئر پگھل رہے ہیں، لینڈ سلائیڈنگ ہو
رہی ہے،سمندر
کی سطح میں میں اضافے کے خطرات الگ۔ پاکستان میں رہنے والوں کی بڑی تعداد نہ صرف ماحولیاتی
تبدیلیوں سے براہ راست متاثر ہو رہی ہے بلکہ ان کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے نقل مکانی
اور ذرائع آمدن کی تبدیلی جیسے مشکل فیصلے کرنے پر بھی مجبور ہے۔
اس تشویشناک صورتحال میں
دنیا نے ماحولیات کا عالمی دن منایا۔ دنیا بھر میں حکومتوں اور سول سوسائٹی نے عوامی
سطح پر شعور و آگہی پھیلانے کے مختلف طریقے اپناتے ہوئے تقریبات کا اہتمام کیا۔ فروزاں
نے بھی عالمی یوم ماحولیات کے موقع پر ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ (سیپا) کے اشتراک اور
اینگرو کے تعاون سے آرٹس کونسل آف پاکستان میں سیمینار، ماحولیاتی اسٹیج ڈرامہ اور
لائیو میوزک شو منعقد کیا جس کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی
اور ساحلی ترقی محمد اسماعیل راہو تھے۔
عالمی یوم ماحول کے نعرے”رہنے کے لیے بس یہی زمین“کے عنوان پر منعقدہ سیمینار
سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر ماحولیات اسماعیل راہو نے کہا کہ آبی اور فضائی آلودگی
ماحول اور انسانی صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں کیونکہ یہ دونوں براہ راست ماحول
اور انسانی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کوئی بھی ماحولیاتی مسئلہ اکیلے
حل نہیں کیا جا سکتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ تمام متعلقین مل جل کر اُسے پائیدار
بنیادوں پر حل کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ اقوام نے ابتداءمیں تو ماحول کو خوب نقصان
پہنچایا تھا تاہم معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے انھوں نے پھر ایسے صنعتی پیداوار
طریقے اختیار کیے جن سے ماحول کو کم سے کم نقصان ہو جبکہ ہماری طرح ترقی پذیر ممالک
کو اپنے ماحولیاتی امور محفوظ کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل محکمہ ماحولیات،
موسمیاتی تبدیلی اور ساحلی ترقی حکومت سندھ محمد حسن اقبال نے اپنے خطاب میں کہا کہ
ماحولیاتی قوانین کے موثر نفاذ میں عوامی آگہی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر لوگوں میں
شعور ہوگا تو وہ ماحولیاتی قوانین کے سختی کے ساتھ نفاذ کو خوش آمدید کہتے ہیں جبکہ
دوسری صورت میں ماحولیاتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔
سمینار کے آغاز میں سیپا
کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل وقار حسین پھلپوٹو نے اپنے خطاب میں ادارے کے فرائض، ذمہ داریوں
اور کارکردگی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ سیپا نے اپنی افرادی
قوت ترجیحی طور پر صنعتی اور طبی آلودگی کی روک تھام کے لیے لگا رکھی ہے تاکہ لوگوں
کی صحت اور ماحول دونوں کی بیک وقت حفاظت یقینی بنائی جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھی آلودہ پانی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے، ماہرین
شعبہ صحت کی معروف شخصیت
ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے
حوالے سے دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جو ان تبدیلیوں سے شدید متاثر ہو رہے
ہیں انھوں نے کہا کہ آبی آلودگی ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے جس کے لیے ہمیں
چاہیے کہ کم از کم خوانچہ فروشوں سے کوئی مشروب نہ خریدیں اور گھر کے کھانے اور مشروبات
کو ترجیح دیں۔ انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں دیگر شعبوں کے علاوہ انسانی صحت پر
بھی براہ راست اثرانداز ہو رہی ہیں ہمیں مشترکہ طور پر ماحولیاتی مسائل سے نمٹنا ہوگا،
ہمیں ان تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ہوگی
جبکہ اس شعور و آگہی کو پھیلانے میں بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہو گا۔
معروف ماہر ماحولیات شاہد
لطفی نے اس سال کے یوم ماحول کے نعرے ”رہنے کے لیے صرف یہی ایک دنیا “ پر تفصیلی پریزینٹیشن
دی اور کہا کہ یہ دنیا ہمیں بہتری کے لا محدود مواقع دیتی ہے لیکن اپنی کوتاہ اندیشی
کے باعث ہم اُن کا فائدہ نہیں اُٹھاتے ہیں اور عارضی فوائد کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں،
اور اسی طرز عمل نے دنیا کی طاقت کو کمزوری میں بدل دیا ہے۔
فروزاں کے صدر محمود خالد
عالم نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا اس امر پر متفق ہے کہ جب تک دنیا
کا ہر ملک اور ان ملکوں کا ہر طبقہ متحد ہو کر عالمی حدت میں اضافے اور آلودگی کے پھیلاﺅ اور قدرتی ماحول کی تنزلی
کو روکنے کی کوشش نہیں کریں گے اس وقت تک ہم اپنی بقا کی جنگ نہیں جیت سکیں گے، انھوں
نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑے تمام واقعات جن میں شدید گرمی، سیلاب،
گلیشیر کا پگھلاﺅ جنگلات کی آگ، فصلوں کا
نقصان سمیت دیگر تمام مظاہر کا شکار ہو رہا ہے جس کا مشاہدہ ہم سب کر رہے ہیں۔ انھوں
نے مزید کہا کہ ہمیں پائیدار ترقی کے اصولوں کو اپناتے ہوئے مملکت زندگی کے تمام شعبوں
میں اس کا اطلاق کرنا ہو گا کیونکہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔
آخر میں سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر
عوامی شعور مجتبیٰ بیگ نے آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کراچی یونیورسٹی کے
شعبہ ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار نے شیلڈز کی تقسیم کی نظامت کی۔ صوبائی
وزیر سے تمام مقررین نے شیلڈز وصول کیں جبکہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری ماحولیات محمد حسن
اقبال نے وزیر ماحولیات کو شیلڈ پیش کی۔
بعد ازاں ”سانس لینا محال“
کے نام سے اسٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ فضائی آلودگی کے باعث کس طرح
لوگوں اور خاص طور پر بچوں کی صحت خراب ہورہی ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ عوام اور حکومت
مل جل کر ہی ماحول کی بہتر حفاظت کرسکتے ہیں۔ بعد ازاں نوجوانوں کے معروف بینڈ اوج
نے ماحولیاتی میوزک پیش کیا۔ تقریب میں مہمانوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔
کوئی تبصرے نہیں