ہم کہاں کھو گئے ہیں؟

Syeda Shireen Shahab

اس کرہ ارض پر بسنے والا ہر فرد چاہے وہ زمین کے جس حصے میں اپنی زندگی جی رہا ہو، اس کا رنگ کیسا بھی ہو، بول چال کے لیے جو بھی زبان استعمال کرتا ہو، دنیا میں موجود بےشمار طبقہ فکر میں کسی سے بھی تعلق رکھتا ہو، دولت کے اعتبار سے معاشرے کے ان گنت درجوں میں جس پر بھی کھڑا ہو ہر سال اپنی زندگی کے کچھ ایام ایسے ضرور گزارتا ہے جب اسے اپنے اردگرد سب کچھ بکھرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو احساسات سے مالا مال دنیا میں اتارا ہے مگر اپنی زندگی کے بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ کچھ انسان اپنے اوپر بے حسی کا خول چڑھا لیتے ہیں جو اصلی ہوتا ہے نہ پائیدار۔ اس خول کے نقلی ہونے کا واحد ثبوت یہی ہے کہ انسان کی زندگی میں آنے والا ہر سال اپنے ہمراہ چند ایسے دن ضرور لاتا ہے جب ان کی بے حِسی پر حس غالب آ جاتی ہے اور تمام خول ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتے ہیں۔ یہ دراصل آگاہی کا وقت ہوتا ہے، جب انسان اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات کی وجوہات تلاش کرتا ہوا اپنے اندر جھانکتا ہے اور جو منظر وہاں اس کا منتظر ہوتا ہے وہ تصویر کے تمام رخ تبدیل کرکے رکھ دیتا ہے۔

 ہمارا اصل امتحان وہیں سے شروع ہوتا ہے، رب تعالیٰ کے اپنے بندوں کو جانچنے کے انوکھے طریقے ہیں، مگر اس امتحان میں کامیابی اور ناکامی ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے، اپنے عمل سے ہم خدا کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکتے ہیں یا دلوں پر قفل لگوانے کا اسباب پیدا کر سکتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ سے سن رکھا ہے کہ آگاہی وبالِ جان ہوتی ہے، اس بارے میں میری رائے یہ ہے کہ کچھ معاملات میں آگاہی بہت بڑی نعمت ثابت ہوتی ہے، جس میں سے ایک اپنی خامیوں کا اِدراک ہے۔

 کبوتر کو عمومی طور پر ایک ڈرپوک پرندہ تصور کیا جاتا ہے جو خطرے کو اپنے قریب آتا محسوس کرکے آنکھیں بند کرلیتا ہے، انسان میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ہم آنکھیں خطرے کو بھانپ کر کم اور اپنی غلطیوں کو اَن دیکھا کرکے زیادہ تر بند کر لیتے ہیں۔ میں واحد راہِ راست پر گامزن اور باقی سب خامیوں کے سمندر میں غوطہ زن، یہی مجموعی طور پر جدید دور کے بیش تر انسانوں کی زندگیوں کا خلاصہ ہے۔ خود سے محبت کرنا بہت اچھی بات ہے اور یہی خود اعتمادی کا اہم جز سمجھا جاتا ہے مگر اس کے برعکس خود پرستی سراسر ایک منفی عمل ہے جو اچھے خاصے ہوش مند انسان کو دیوانہ بنا دیتی ہے۔ کامل صرف خداوند کریم کی ذات ہے، انسان کا خود کو عقل کل تصور کرنا گمان کے سوا کچھ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی زندگیوں کے لیے کچھ قوانین مختص کیے ہیں جن کی خلاف ورزی انسانی نظام میں خلل پیدا کر دیتی ہے۔ فطرت کے برعکس اقدام کبھی بھی سکون کی نوید نہیں سناتے بلکہ نقصان کا باعث ہی ثابت ہوتے ہیں، اگر آج کے دور میں انسانیت کی تعریف کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے گی تو انسانوں کے اعمال کے نتائج تسلی بخش کیسے حاصل ہوں گے؟ اپنی زندگی میں براجمان بے سکونی کی وجہ ارد گرد تلاش کرنے کے بجائے اطمینان سے اپنے اطوار کا جائزہ لینا اب ہمارے لیے ناگزیر ہوتا جا رہا ہے، تکبر کا ناسور وقتی طور پر انا کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے مگر دائمی سکون کے حصول کی تلاش کرنے والوں کے لیے یہ گھاٹے کا سودا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک مشکل وقت

 موجودہ زمانہ دنیا کی اس منظر کشی کو سمجھنے سے قاصر ہے جس کا تصور لے کر انسان اس جہانِ فانی میں آیا تھا، یہ تپتی دھوپ جو ہمارے پاؤں مسلسل جھلسا رہی ہے اس کی ذمہ دار ہماری ذات ہے۔ ہمیں بنانے والے نے کیا بنایا تھا اور ہم خود کیا بن گئے ہیں، ہمیں عزت سے عرش پر بٹھایا گیا تھا اور ہم اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے فرش پر آ گرے ہیں۔ آخر ہماری خود سے جاری جنگ کب ختم ہوگی اور ہم ربِ کائنات کے احساسات سے لبریز بندے بن کر اپنی خامیوں سے منہ موڑنے کے بجائے ان کو سدھارنے کی حکمتِ عملی مرتب دیں گے؟ زندگی ایک بار ملتی ہے کیا اسے بے حسی کی نظر کرنا اور اپنے اطراف کے لوگوں سے کدورت پال کر گزارنا عقل مندی ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو اچھی طرح معلوم ہے شرط بس یہ ہے کہ آپ اپنے اندر سے آنے والی آواز کو سننا چاہیں۔

کوئی تبصرے نہیں