تنقید کا ضابطہ اخلاق
آج کے دور میں اپنی رائے کا اظہار کرنا گزرے وقتوں کی طرح آسان نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کی جدید دنیا میں ادھر آپ نے اپنی کسی سوچ کو الفاظ یا تصویری شکل عطا کی دوسرے ہی لمحے انگنت افراد اپنے نظریات کا چوغا پہنے تنقید کی تلوار تھامے آپ پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد کو سوشل میڈیا کی مخصوص زبان میں کی بورڈ مجاہدین (Keyboard Worriers) کہا جاتا ہے۔ جن میں زیادہ تر کے اندر اپنی اصل شناخت ظاہر کرنے کی ہمت نہیں ہوتی مگر دوسروں کی اخلاقی پولیسنگ (Moral Policing) بڑھ چڑھ کر کر رہے ہوتے ہیں۔
اختلافِ رائے رکھنا یا اعتراض
کا مظاہرہ کرنا ہرگز بری بات نہیں ہے۔ جو معاشرے صحت مندانہ تنقید کو فروغ دیتے ہیں،
وہ اپنا بہتر سے بہترین کا سفر باآسانی پورا کرلیتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ معاشرے جن
کے پاس تنقید کا کوئی ضابطہ اخلاق موجود نہیں ہوتا یا وہ اختلافِ رائے کو سراسر منفی
عمل گردانتے ہیں، ترقی کی ڈور میں ہمیشہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ انسان اور جانور کے درمیان
یوں تو بہت سے فرق موجود ہیں مگر ایک اہم خصوصیت جو انسان کو جانور پر امتیازی عطا
کرتی ہے وہ اُس کی زبان ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے آج کے انسان کے ببانگِ دہل
شور مچاتی، نکتہ چینی کرتی بے ہنگم آواز، غلاظت اُگلتے فقرے اور تہمت بازیوں نے یہ
امتیاز زائل کرکے رکھ دیا ہے۔
تنقید ہمیشہ منطق پر مبنی
ہوتی ہے، دلائل سے لیس گفتگو اور احترام کا دامن تھامے حقائق کے ذریعے نتائج کا حصول
ہی تنقید کا واحد طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی راستہ تنقید کے اظہار کے لیے استعمال
کیا جائے وہ نہ صرف غلط ہے بلکہ معاشرے میں منفی رویوں کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے ایک نامور نجی ٹی وی چینل نے ملک سے باہر جاکر ایوارڈ شو کا
اہتمام کیا، جس کو پاکستانی عوام نے خاصہ ناپسند کیا اور سوشل میڈیا پر کھُل کر اپنی
رائے اور برہمی ظاہر کی۔ ماضی میں بھی اس نجی ٹی وی چینل کے حوالے سے اس طرح کے واقعات
دیکھنے کو ملے ہیں جب ہماری عوام کسی نہ کسی وجہ سے اس چینل کے کینیڈا اور امریکہ میں
منعقد کردہ رنگا رنگ ایوارڈ کی تقریبات پر نالاں نظر آئی ہے۔
ذاتی طور پر مجھے بھی اُس
نجی ٹی وی چینل کی کینیڈا جاکر ایوارڈ کی تقریب کرنا اچھا نہیں لگا اور میں اس پر صحت
مندانہ تنقید بھی کرنا چاہتی ہوں۔ عمومی طور پر پاکستانیوں کا یہ ماننا ہے کہ جب ملک
سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اُس وقت شوبز سے منسلک افراد کا ملک سے باہر جاکر ایوارڈ شو
کا حصہ بننا اُن کی بے حسی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ دکھ ہوتا ہے اس طرح کی باتیں سن
کر۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جب ایشیا کپ کے مقابلے میں ملک سے باہر جاکر شرکت کی تھی
یا جیسے آجکل نیوزی لینڈ ٹرائی سریز کھیلنے گئی ہوئی ہے، اُس کو تو کوئی بے حسی کے
سرٹیفکیٹ نہیں بانٹ رہا ہے۔ باقی سب کو چھوڑیں خود سے سوال کریں ملک میں اس وقت لگی
سیلابی ایمرجنسی کے باعث ہمارے کون سے کام رُکے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو بُرا بھلا کہنا
بہت آسان ہے مگر خود کا تجزیہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔
دوسری کے عمل کو پسند یا
ناپسند کرنا ہماری اپنی مرضی ہوتی ہے مگر اُس پر چار لوگوں کے درمیان دلیل اور منطق
کے بغیر رائے دینا بے معنی لفظوں کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پاکستان اس وقت شدید
معاشی بحران سے دوچار ہے، مشکل کی اس گھڑی میں ملک کو ہماری مدد کی ضرورت ہے۔ اگر وہ
مشہور نجی ٹی وی چینل اپنے ایوارڈ کی تقریب کا اہتمام پاکستان میں کرتا تو اُس سے ملک
کو بےحد فائدہ پہنچتا۔ پیسہ ملک میں رہتا، یہیں استعمال ہوتا اور شوبز سے منسلک دیگر
شعبوں کی بھی چاندنی ہوجاتی۔ پاکستانی ثقافت کی تشہیر کرکے دنیا میں ہمارا مثبت روپ
دکھایا جاتا اور مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں
میں پاکستانی عوام کو تفریح کا ایک موقع باآسانی فراہم کیا جاسکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ہم کہاں کھو گئے ہیں؟
جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے،
مگر جو ابھی ہونا باقی ہے اُس کو بدلا جاسکتا ہے، شرط ہے کہ ہم اسے بدلنا چاہیں۔ دنیا
مریخ پر آبادکاری کی منصوبہ بندی کررہی ہے اور ہم پاکستان میں ایک دوسرے کا دین، مسلک،
اخلاق، داڑھی اور ڈوپٹہ ناپ رہے ہیں۔ سیاسی وابستگی کی بنا پر اپنے ہم وطنوں کو غدار،
چور، لفافہ اور بکاؤ جیسے
القابات سے نواز رہے ہیں۔ ذاتی دشمنیوں کی آڑ میں کمزور مخالفین پر جھوٹے توہینِ مذہب
اور توہینِ رسالت کے فتوے داغ کر قتل جیسا سنگین جرم بے خوف انجام دے رہے ہیں۔ خدا
جانے ہم اور کتنا گریں گے۔ ہمیں احساس ہی نہیں ہے کہ ہم برائیوں کے دلدل میں بہت تیزی
سے دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ جلد ہم کو اپنی غلطیوں کا ادراک نہیں ہوا تو اچھائیوں کی
طرف ہماری واپسی بالکل ناممکن ہوجائے گی۔
حقِ تنقید تمہیں ہے مگر اس شرط کے ساتھ |
جائزہ لیتے رہو اپنے بھی گریبانوں کا |
ما شا الله بلكل صحيح تحرير لكهي
جواب دیںحذف کریں