”تلاوتِ نعت“ کا شاعرامجد حمید محسن
نعت کہنا‘ نعت پڑھنا اور نعت سننا‘ ایسی سعادتیں ہیں جو زورِ بازو سے حاصل نہیں ہو سکتیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حبیب کریم کی باتیں ہیں جو اسی کو کہنا‘ کرنا‘ پڑھنا اور سننا نصیب ہوتی ہیں جسے وہ توفیق دے‘ جسے وہ اعزاز بخشے اور جسے وہ ان سعادتوں کے لیے چُن لے۔
اہلِ
نظر اور اہلِ فیض کہتے ہیں کہ ”نعت دراصل رسولِ اکرم سے دلی عقیدت اور روحانی محبت
کا والہانہ اظہار ہے اور یہ قرینہ نعت اور سلیقہ مدحت ہر کسی کے نصیب میں نہیں آتا۔“
نعت گوئی کا باقاعدہ آغاز رسولِ اکرم کے دور میں حضرت حسانؓ بن ثابت، ابو طلحہؓ، ابوعبیدہؓ
اور کعب بن زبیرؓ سے شروع ہوا جو کئی صدیاں گزر جانے کے بعد آج بھی جاری و ساری ہے۔
نعت گوئی موجودہ صدی کے اصنافِ اُردو ادب میں ایک وسیع تر مقام رکھتی ہے اور اس دورانیے
میں نعت نے اپنے اندر تمام خصائص اور اوصاف کو رسولِ اکرم کی نسبت سے جو مقام و مرتبہ
حاصل کیا اس کی مثال ادب کی دوسری اصنافِ سخن میں نہیں ملتی۔
اسی طرح موجودہ عہد میں بھی
شاعر تمام اصنافِ سخن میں نعت کی خوشبو بکھر کر شاعری کے دامن کو مزید باثروت بنا رہے
ہیں۔ جن میں امجد حمید محسن کا نام اور کام خصوصی اہمیت کا حامل ہے ان کا شمار عہدِ
حاضر کے معتبر شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کے تین عدد شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں
”درد سمندر“ (1981)، ”گواچے سفنے“ (1987)اور ”دھند کے شہر میں“ (1993) شامل ہیں۔
زیرِ نظر نعتیہ شعری مجموعہ ”تلاوتِ نعت“ امجد حمید محسن کی نعتوں کا پہلا گلدستہ ہے۔ جو ایک طویل مدت کے بعد منصہ شہود پر بڑے خوبصورت اہتمام کے ساتھ اشاعت پذیر ہوا ہے۔ اس نعتیہ شعری مجموعہ ”تلاوتِ نعت“ میں امجد حمید محسن کی آقائے دو جہاں سے سچی محبت اور دلی عقیدت کو آپ یوں محسوس کریں گے۔”تلاوتِ نعت“ کے ہر ایک اشعار سے عقیدت و محبت کا نور جگمگاتا دکھائی دیتا ہے۔ امجد حمید محسن کے نعتیہ شعری مجموعے کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس کو پڑھتے ہوئے ہمیں اُن کے کمالِ فن، شاعرانہ دسترس اور قادر الکلامی کا بھی معترف ہونا پڑتا ہے۔ جسے آپ اُن کی ادب سے گہری وابستگی اور وسیع مطالعے کی دلیل سمجھ سکتے ہیں۔
”تلاوتِ نعت“ کے آغاز میں ہمیں پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید کے ہجری قطعہ سالِ اشاعت پڑھنے کو ملتے ہیں۔ بارگاہِ رسالت مآب حضرت محمد میں ”تلاوتِ نعت“ عقیدت و محبت سے لبریز گلدستہ پیش کرتے ہوئے بڑے ہی اختصار اور احترام کے ساتھ ڈاکٹر بشیر عابد مرحوم اپنے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ ”امجد حمید محسن نے اپنے تازہ مجموعہ نعت ”تلاوتِ نعت“ میں وہ تمام موضوعات و مضامین مثلاً شوقِ دیدار روضہ سرکار دوعالم گنبدِ خضریٰ کا نظارہ، مسجد نبوی کے روشن مینار، مواجہ شریف میں حاضری، سنہری جالیوں کا طواف، عشق رسول میں تڑپ، کسک، محبت، عقیدت، واسطہ، استغاثہ، آرزو، حضوری اطباع و اطاعت، وظیفہ درود و سلام اور ایسے اور بہت سے جذبات و احساسات کے شعری پیکر جن سے ذاتِ رسالت مآب سے والہانہ وابستگی اور شگفتگی کی خوشبو مہکی۔ دل و روح کو معطر کرتی کیفیات کو نہایت عمدگی سے جامہ ہائے اشعار میں آشکار کیا ہے۔“ ان تمام پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے ”تلاوتِ نعت“ میں شامل ہر ایک لفظ اور شعر پر بارہا سوچا اور غور کرنا از حد ضروری ہے کیونکہ نعت لکھنے میں حزم و احتیاط لازم ہے تاکہ حضور اکرم کی شایانِ شان کلام بحضور بارگاہِ رسالت میں بطور نذرانہ پیش ہو کر بخشش و نجات کا پیش خیمہ بن سکے۔ ”تلاوتِ نعت“ سے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:
میرے نصیب میں ہو مدینے کی حاضری |
پلکوں سے چوم لوں گا تربت رسول کی |
............
تعریف کروں میں کیا اس پاک گھرانے کی |
اک نعت سناتا ہوں حسنین کے نانے کی |
امجد حمید محسن خود کیساتھ ساتھ اپنے قلم کو بھی ہر گھڑی با وضو رکھتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں وردِ نبی کو لبوں پہ سجانا، اشکوں سے وضو کرنا اور اپنے تصور میں گنبدِ خضریٰ کے نظاروں کو دیکھنا، سر پر نعلینِ نبی کو اُٹھانا ، نبی کی چوکھٹ پہ غلاموں کی طرح پڑا رہنا ، رات خوابوں میں دیدارِ مصطفی کو بے چین رہنا، نماز میں درودِ ابراہیم آقا پر کثرت سے بھیجنا اور بے شمار خواہشوں سے بھرا یہ انسان ہر گھڑی بارگاہِ رسالت مآب سے اجازت طلب کرنے کی جستجو میں مگن رہتا ہے۔ امجد حمید محسن کی نعت لکھنے کی کیفیت بہت پاکیزہ ہے اسی لیے ان کے کلام میں دلکشی، تاثر آفرینی، مٹھاس، دلپذیری ، غنائیت اور محبت کی خوشبو بھر پور ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نشاط یاسمین خان کا ”امّاں نامہ“
”تلاوتِ نعت“ کے تیسرے دیباچہ نگار پروفیسر ریاض احمد قادری ہے جس میں امجد حمید محسن کی زندگی پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ”تلاوتِ نعت“ میں اشفاق غوری کی بھی رائے کو شامل کیا گیا ہے جبکہ اس نعتیہ شعری مجموعے کا انتساب سید الانبیا، سرورِ کائنات، محبوبِ رب العالمین، خاتم النبین پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کیا گیا ہے۔ ”تلاوتِ نعت“ کا یہ شاعر خود کو بہت خوش قسمت تصور کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ:
میری قسمت کا بلندی پہ ستارہ جائے |
مجھ کو آقا کے غلاموں میں پکارا جائے |
”تلاوتِ نعت“ کا سرورق بہت خوبصورت ہیں ایسے لگتا ہے جیسے سونے کے ورق پر نگینوں کی مانند لفظ پڑے ہو اور انہیں آبِ زم زم سے غسل کروا کر سجا ہو۔ ان کے زیرِ طبع شعری مجموعے اُردو ادب کے تاریخی و تحقیقی کارناموں کا انمول تحفہ ہیں۔ ”تلاوتِ نعت“ جیسے معیاری اور خوبصورت نعتیہ شعری مجموعے پر امجد حمید محسن ڈھیروں مبارکباد کے مستحق ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے کلام میں مزید خوبصورت رنگ پیدا کرے اور وہ نعت کی وادیوں میں یونہی محبت اور عقیدت کے گلدستے پیش کرتے رہیں۔ اس شعری مجموعے کو گوجرانوالہ کے معروف اشاعتی ادارے فروغِ ادب اکادمی نے پبلش کیا ہے۔ جس کے روحِ رواں ممتاز شاعر محمد اقبال نجمی ہے۔ آخر میں اُن کے کلام سے چند اشعار پیش کرتا چلوں کہ:
ہے وقت مختصر سا ملا نعت کے لیے |
شکوہ رہا ہے مجھ کو یہ عمرِ قلیل سے |
٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں