جو ہوتا ہے اچھا کے لیے ہوتا ہے
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور قول ہے، ”میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا ہے۔“ روزِ اول سے جو بھی انسان اس دنیا میں تشریف لاتا ہے، وہ زمین پر پاؤں جماتے ہی اپنی زندگی میں آنے والے ہر دن، ہفتے، مہینے اور سال کی منصوبہ بندی شروع کر دیتا ہے۔ انسان کی فطرت ہے کہ ہر کام کے حوالے سے لائحہ عمل تشکیل دینا، چاہے وہ کام معمولی نوعیت کا ہو یا خاص توجہ کا طلبگار۔ زندگی کے مختلف ادوار میں عقل و فہم کی مناسبت سے اُن ارادوں میں ردوبدل کا عمل جاری رہتا ہے۔ اپنی عمر کے ہر حصے میں مگر اُن عزائم کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھنے کی خواہش انسان میں ہمیشہ ایک سی ہی رہتی ہے۔
یہ جہانِ فانی بے شمار مختلف اقسام کے مذاہب اور اُن کے ماننے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں اُن افراد کی بھی کثیر تعداد موجود ہے جو خود کو کسی مذہب کا حصہ بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ دین سے وابستہ اور لادین دونوں گروہوں میں ایک مماثلت پائی جاتی ہے کہ وہ غیبی طاقت سے ہمیشہ امید لگائے رہتے ہیں کہ وہ اُن کی ہر حکمتِ عملی پر دستِ شفقت عنایت کرے۔ دوسری صورت میں وہ قدرت سے خفگی اختیار کرلیتے ہیں جسکا برملا اظہار اپنے گفتار اور اطوار سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں سورة الانبیاءکی آیت نمبر 73 میں رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں، ” انسان جلد باز مخلوق ہے میں تمہیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دکھاؤں گا تم مجھ سے جلد بازی نہ کرو۔“
ہم انسانوں کی زندگیوں میں ہمیشہ ہماری منشا کے مطابق واقعات رونما نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارا سوچنے، منصوبے بنانے اور منزل تک پہنچنے کے دوران بہت سے حادثات اور سانحات سے پالا پڑتا ہے۔ اپنا راستہ کئی دفعہ تبدیل کرنا پڑتا ہے تب جاکر کبھی کبھار جیسا ہم نے سوچا ہوتا ہے ویسا ہوجاتا ہے، مگر زیادہ تر ساری کی ساری خاکہ بندی خدا تعالیٰ کے فیصلوں کے آگے دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ بلاشبہ ربِ کائنات کی تدبیریں انسان کے بنائے زندگی کے نقشوں سے لاکھ درجے بہتر ہوتی ہیں، لیکن بِنا چوں چراں کیے اُن کے آگے اپنا سر تسلیمِ خم کرنے کا جِگرا کچھ ہی انسانوں کے پاس موجود ہوتا ہے۔ ایسے مومنین کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں، ”اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جب میں کسی مومن بندے کی محبوب چیز اس دنیا سے اٹھا لیتا ہوں پھر وہ ثواب کی نیت سے صبر کرے، تو اس کا بدلہ جنت ہی ہے۔“
ہمیں صبر و شکر کرنے سے ملنے والی جزا کی بخوبی آگاہی ہے، اس کے علاوہ ربِ کبریائی کے فیصلوں کے پیچھے چھپے ہماری بہتری کے رازوں کا بہت نہ سہی تھوڑا بہت اِدراک ہے۔ انسان طبیعت سے چونکہ بے صبرا ہے اس لیے وہ کم سے کم وقت میں آسمان کو چھو لینا چاہتا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کئی بار لمبی چھلانگ لگانے سے منہ کے بل زمین پر گرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی ہے، ہم جس طرح کی زندگی اپنے لیے چُن رہے ہوتے ہیں وہ آگے جاکر کتنی بھیانک ہوسکتی ہے اُس کا علم صرف خالقِ حقیقی کو ہوتا ہے۔ وہ با علم ذات اپنی تخلیق کو اُس کی بے وقوفیوں کا خمیازہ بھگتنے اکیلا نہیں چھوڑتی بلکہ ہمارے راستے میں خود کے بچھائے کانٹوں سے ہمیں لہولہان ہونے سے بچاتی ہے اور بدلے میں ہم سے صرف شُکر کا مطالبہ کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تنقید کا ضابطہ اخلاق
ہر وہ انسان جو اپنے عہد
و کردار میں مضبوطی کا اہل ہوتا ہے، پھر خواہ وہ خدا کی عبادت کرے یا پرستش، اُس کی
معبود سے یہی اُمید وابستہ رہتی ہے کہ ”وہ“ اُس کے سیدھے راستے کا انتخاب کرنے کا انعام
اُس کی ہر التجا سُن کر، تمام خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی صورت میں عطا کرے۔ سچائی
کا عینک پہن کر اگر جائز بات کی جائے تو یہ سراسر سودے بازی ہے اور خداوند کریم سے
سودے بازی کو دنیا کے سارے مذاہب ہی گناہ کبیرہ تصور کرتے ہیں۔ اس دنیا میں رہنے کے
حوالے سے اللہ سبحان تعالیٰ کے بنائے اصول و قوانین اور حدود و ضوابط کا احترام کرنا
اگر ایک سہل، خوشحال اور پُر سکون زندگی کا ضامن ہوتا تو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس دنیا میں اللہ پاک کے اتارے ایک لاکھ چوبیس
ہزار انبیاءو رسولوں کو اپنی زندگیوں میں کسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہی نہیں کرنا
پڑتا۔
ربِ کائنات کی بارگاہ میں
جو بندہ جتنا نیک اُس کا اُتنا ہی کٹھن امتحان لیا جاتا ہے۔ سورة البقرہ کی 412 ویں
آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”کیا تم خیال کرتے
ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤگے
حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے، انہیں
سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے
مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ (انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو
اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔“ جب ہر سیاہ رات کے بعد جگمگاتی روشن صبح کا وعدہ
خود آزمائش دینے والی ذات ہم سے کررہی ہے تو پھر ہمارے وسوسوں اور گمان کی کوئی گنجائش
باقی نہیں بچتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے
کو صدقِ دل سے تسلیم کرنا اور اُس ربّ العالمین پر توکل کرنے کی عادت انسان میں آسانی
سے پیدا نہیں ہوجاتی ہے، یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک فطری
بات ہے کہ جو خواب آپ کی آنکھوں نے مدتوں اپنے اندر سموئے ہوں وہ لمحے دو لمحے میں
ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوجائیں اور آگے سے آپ کو کہا جائے جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے اب صبر
کرو، ایسا کرنا بالکل آسان نہیں ہے۔ صبر اور توکل من اللہ کسی انسان کے کہنے سے کبھی
آپ کے وجود میں داخل نہیں ہوسکتے ہیں، جب تک کہ اس میں اُس پاک ذات کی مرضی شامل نہ
ہو۔ خداوند کریم ان دو کرشماتی احساسات کے لیے اپنے خاص بندوں کا انتخاب خود کرتا ہیں
اور خوش قسمت ترین لوگ ہی ان جذبات تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔
ہر تکلیف سے نجات پانے کے
دو طریقے ہوتے ہیں، ایک آسان اور دوسرا کٹھن۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنی حالت کو سدھارنے
کے لیے کچھ نہ کیا جائے اور تکلیف کو پالا جائے، آپ کے وجود کو جلد اُس کی عادت ہوجائے
گی اور آہستہ آہستہ اُس کی شدت کم ہوتے ہوتے ایک نہ ایک دن ختم ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ
کٹھن ضرور ہے لیکن اُس میں جلد افاقہ شرطیہ ہے، اپنے اوپر آنے والی آزمائش پر اُس کو
لانے والی ذات سے سوال کیے جائیں، اپنا قصور دریافت کیا جائے، تکلیف کے اسباب معلوم
کیے جائیں، سکون کے حصول کی فریاد کی جائے اور آخر میں خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے۔
یقین مانیے وہ ذاتِ عظیم آپ کے ہر سوال کا جواب اسطرح دیگی کہ تمام ان دیکھی باتوں
سے پردہ ہٹ جائے گا۔ ہر کیوں، کیا، کس لیے کی وضاحت اس طرح کی جائے گی کہ آپ اللہ تعالیٰ
کے ہر فیصلے پر عش عش کر اُٹھیں گے اور کچھ عرصے پہلے جن چیزوں کے نہ ہونے پر شکوہ
بجا لا رہے تھے اُن پر تشکر کا پیکر بنتے نظر آئیں گے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی ہر نہ
میں ”اُس“ کے بندوں کی خیر چھپی ہوتی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں