نشاط یاسمین خان کا ”امّاں نامہ“
طنز و مزاح محض ایک اسلوب نہیں ہے بلکہ یہ ایک مستقل صنفِ سخن ہے اس میں جہاں متانت و سنجیدگی لوازم انسانیت ہیں وہاں خندہ دنداں نما اور تبسم زیر لب بھی نہایت ضروری ہے، ان کے بغیر شاید کامیاب زندگی بسر نہ ہوسکے۔ ادب مرقع حیات ہوتا ہے اس لیے اس میں بھی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح اور شوخی و ظرافت کا ہونا ضروری ہے۔اب ادب کے میدان میں کسی نے دل کا بخار نکالنے کے لیے طنز کا پہلو اختیار کیا ہے۔ بعض نے محض ہنسنے ہنسانے کے لیے زعفران زار تیار کیا ہے لیکن بعض نے طنز و مزاح کو اصلاح کا ذریعہ بنایا ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس سے کام لیا ہے۔ کیونکہ ادیب ہو یا شاعر ان دونوں کی نگاہ زندگی کی ناہمواریوں اور مضحک کیفیتوں تک جا پہنچی ہے جہاں ایک عام انسان کی نگاہ نہیں پہنچتی اب ادیب یا شاعر ان اسباب پر ہمدردانہ نظر رکھتے ہوئے جن سے ان ناہمواریوں نے جنم لیا ہے وہ ان کو فنکارانہ نقطہ نظر سے بیان کر دیتا ہے۔
زیرِ نظر کتاب ”امّاں نامہ“ بھی نشاط یاسمین خان کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جو مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ہیں۔ جس میں انسان کی زندگی سے وابستہ ایسے پہلوﺅں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس پر کچھ لکھنے سے قبل سوچنا نفسیاتی مریض ہونے کے مترادف ہے۔ مگر کتاب میں شامل مضامین کو مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا بالکل نہیں جیسا ہم سوچ رہے ہیں۔ کیونکہ مصنفہ نے اپنے تحریروں میں مزاح کا تڑکا ایسے لگایا ہے کہ انسان ان تحریروں کو پڑھتے ہوئے پریشانی میں مبتلا ہونے کی بجائے ان سے لطف اندوز ہو سکے۔ اس حوالے سے نشاط یاسمین خان اپنے پیش لفظ میں کہتی ہے کہ ”ہمارا کسی پر طنز کرنا ہرگز نہیں ہے نہ مذاق اُڑانا مقصد ہے۔ ہم تو آپ کو اپنے اہلِ کتاب اور اہلِ پیش لفظ ہونے کا قصہ سنانے والے ہیں۔ لیکن اپنی کتاب کو ہم ابھی کسی زُمرے میں شامل نہیں کر پائے ہیں۔ آیا یہ ہماری آپ بیتی ہے کہ نہیں۔ یہ فیصلہ تو آپ کتاب پڑھنے کے بعد کرنے والے ہیں۔“ جی ہاں تو نشاط یاسمین کا ”امّاں نامہ“ پڑھنے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر وہ اسی جذبے اور لگن سے صنفِ مزاح نگاری کو باقاعدہ اپناتے ہوئے لکھتی رہیں تو یقینا وہ پاکستان کی نمائندہ مزاح نگار خاتون بن سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایک عہد ساز انقلابی شاعر ....سرور ارمان
بہ حیثیت مزاح نگار کے حوالے سے رنگِ ادب کے ناشر و مدیر شاعر علی شاعر لکھتے ہیں کہ ”عہدِ موجود میں نشاط یاسمین خان کے مزاحیہ مضامین کی کتاب ”امّاں نامہ“ پڑھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ اچھا مزاح لکھنے والے گوشہ نشین ہیں۔ ان کو کھوج کر ان کی تحریریں دنیائے اُردو ادب کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ نشاط یاسمین خان کی تحریروں میں زبان شستہ لہجہ شائستہ، اُردو ادب کے سانچے میں ڈھلا ڈھلایا ہے۔ ان کا طرز تحریر ہمارے موجودہ عہد کی تہذیب و ثقافت اور سماجیات و معاشرت کا آئینہ دار ہے۔ ان کے کردار ہمارے اِردگرد بسنے والے لوگ ہیں۔
نشاط یاسمین کے ”امّاں نامہ“
میں اکیس عدد مضامین شامل ہیں۔ جن میں امّاں نامہ کے ساتھ ساتھ ابّا نامہ بھی موجود
ہیں۔ اس کتاب کا انتساب مصنفہ نے اپنے شوہر عبدالسعید خان کے نام کر رکھا ہے۔ اس کتاب
کے ٹائٹل کو ایک ضعیفہ عورت کی تصویر سے مزین کیا گیا ہے۔ جبکہ مصنفہ کی دیگر کتب میں
تیسرا کنارہ (ناول)، دوریاں اور قربتیں، سرخ لکیریں یہ دونوں مجموعے افسانوں پر مشتمل
ہیں جو ”امّاں نامہ“ سے قبل شائع ہو کر اُردو ادب میں داد و تحسین سمیٹ چکے ہیں۔ ”امّاں
نامہ“ کا فلیپ کراچی میں مقیم مقبول شاعر، تنقید نگار اور مورخ مدیر اکرم کنجاہی نے
لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں ”امّاں نامہ“ کی یہ کوشش قابلِ ذکر اس لیے بھی ہے کہ اُبھرنے
والا مزاح نگار اس بار مرد نہیں خاتون ہیں اور وہ بھی اس قدر عمدہ طرزِ تحریر لیے ہوئے
تو مجھے فخر محسوس ہوا کہ ”دبستانِ کراچی“ میں خواتین مزاح نگاروں کی نمائندگی کرنے
کے لیے کسی نے تو قدم رکھا۔ اللہ ان کا قدم مبارک کرے اور ان کو شہرتوں کا آسمان نصیب
ہو۔ “ محترمہ نشاط یاسمین کے ”امّاں نامہ“ کے بعد مجھے قوی یقین ہے کہ وہ بہت جلد
”ابّا نامہ“ کی صورت میں بھی ایک ایسے ہی مزاحیہ مضامین کا خوبصورت مجموعہ تحریر کر
کے اُردو ادب میں اضافے کا باعث بنے گی۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ اللہ کرے زورِ قلم
اور زیادہ۔
٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں