عدالتوں میں تاریخ پہ تاریخ کا کلچر ختم ہونا چاہیے

کسی ملک اور معاشرے کی ترقی و خوشحالی ایک متحرک نظام عدل کی مرہون منت ہوا کرتی ہے جس ملک میں نظام انصاف میں کسی طرح بھی کوئی جھول نظر آئے گا وہاں لاقانونیت، بدنظمی، بدحالی کے واقعات عام ہوں گے۔ جہاں معاشرے میں انصاف کے حصول میں مشکلات پیش آئیں گی، جہاں کھلے عام انصاف کا قتل ہوگا، قانون کی بے توقیری ہوتی ہوئی نظر آئے گی، وہاں معاشرے میں طرح طرح کی برائیاں جنم لیتی ہیں اس لیے نظام عدل کو ہر صورت میں ایک مثالی تصویر بن کر سامنے آنا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ حال ہی میں ہماری اعلیٰ عدالت کے منصف اعلیٰ نے ایک سیمینار میں نظام عدل سے متعلق بہت صاف صاف باتیں کیں، انہوں نے کہا کہ عدالتیں فیصلے کرنے میں ہر طرح سے آزاد ہیں، وہ کسی کا دباؤ قبول نہیں کرتیں، وکلاءکا کام ججز کی معاونت کرنا ہوتا ہے نہ کہ ججز کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔ انہوں نے جتنی بھی باتیں کیں وہ اپنی جگہ حرف بہ حرف درست ہیں لیکن اس کے باوجود نظام انصاف میں بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں بڑی عدالتوں میں تو پھر بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کےلئے بہت دیکھ بھال کر پوری احتیاط کےساتھ ذمہ داریاں نبھائی جاتی ہیں لیکن ماتحت عدالتوں کا برا حال ہے اور لاکھوں کی تعداد میں مقدمات ان ماتحت عدالتوں میں زیرالتوا دکھائی دیتے ہیں، ان عدالتوں میں جج صاحبان بڑے بڑے وکلاءکے زیر اثر نظر آتے ہیں اور ان کا دباؤ بھی قبول کر لینے میں ہی بہتری سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے انصاف کا پیمانہ چھلک جاتا ہے فریق کو انصاف نہیں مل پاتا۔

ایک مثال ہے کہ ایک مقدمے میں ایک پیسے والا مضبوط فریق ہر طرح سے مقدمہ ہارنے کے بعد چاہتا ہے کہ فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہو جس کیلئے وہ کروڑوں روپے کا وکیل صرف اسلئے کرتا ہے کہ کیس کو تاخیری راہ پر گامزن کرتا رہے جسے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کو صرف اسلئے رکھ لیا جاتا ہے کہ وہ کیس کو چلنے نہیں دے گا۔ وکلاء کا یہ طرز عمل کسی طرح بھی درست نہیں اور نہ ہی انصاف کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔

بار اور بنچ کا آپس میں چولی دامن کا سا ساتھ ہے اور یہ رشتہ ایک مقدس نوعیت کا حامل ہوتا ہے، یہاں نہ جج کو نہ وکیل کو بے ایمانی کا حق حاصل ہوتا ہے اگر اس رشتے میں تھوڑا سا بھی کھوٹ پیدا ہوجائے تو عدل کا انصاف بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے وکلاءجو ایک مقدس پیشے سے جڑے ہوتے ہیں ان پر بھی بہت زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں صرف حق کے لیے لڑنا چاہیے اور جھوٹ اور غلط بنیاد پر قائم کیے گئے مقدمات سے اپنے آپ کو الگ رکھنا چاہیے۔ ابھی سیالکوٹ میں جو ایک غیرملکی کو جان سے مارنے کا واقعہ پیش آیا تو تمام وکیلوں نے متفقہ طور پر اس بات کا فیصلہ کیا کہ وہ کسی طرح بھی اس کیس کا دفاع نہیں کریں گے۔ یہ وکیل کی شان ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے کیسز لے جن کے بارے میں انہیں یقین ہو کہ وہ حق کے لیے کیس لڑ رہا ہے۔ ناجائز مقدمے بازی کی حوصلہ شکنی کریں۔ وکلاءکو اپنی قابلیت منوانے کے ساتھ ساتھ اپنی اخلاقی خوبیوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ججز کےساتھ بدتمیزی کے واقعات بہت عام ہوگئے ہمیں ان سے ہر صورت میں گریز کرنا چاہیے۔

ہمارے نظام عدل میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ زیرالتوا مقدمات کا ہے جو لاکھوں کی تعداد میں تو ضرور ہوں گے جس کےلیے کوئی معقول راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ حال ہی میں بھارت جہاں کروڑوں زیرالتوا مقدمات ان کے نظام عدل کا حصہ ہیں اس لیے وہاں کے چیف جسٹس نے جو حل پیش کیا ہے وہ ثالثی کا طریقہ کار ہے، ان کا ماننا ہے کہ بیشتر معاملات عدالتوں میں آنے سے پہلے ثالثی کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔ عدالت تک ہر معاملے کو لانا آخری راستہ ہونا چاہیے اور تمام معاملات کو باہمی مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ تنازعات کے حل کے لیے ثالثی ایک بہت اہم عنصر ہے۔ عدالتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے مصالحت کی راہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس وقت پیرس، لندن، ہانگ کانگ اور سنگاپور میں ثالثی کے مراکز قائم ہیں اور نہایت کامیابی سے یہاں کیسوں کو نمٹایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے عدالتوں پر دباؤ کم ہوتا ہے اور کیسوں کے التوا ہونے میں بڑی کمی لائی جاسکتی ہے۔ بھارت نے بھی حیدرآباد میں ثالثی مرکز قائم کیا ہے جس کا افتتاح وہاں کے چیف جسٹس نے کیا ہے۔ اس ثالثی مرکز کے لیے 25ہزار مربع گز اراضی الاٹ کی گئی ہے۔ یہ بین الاقوامی نوعیت کا ثالثی مرکز ہے۔ بھارت کے چیف جسٹس نے ثالثی مرکز قائم کرنے کی جو روایت قائم کی ہے اس سے یقینا عدالتوں پر دباؤ کم ہوگا۔ یہاں بھی اس تجویز پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

یہاں ہم الائیڈ بینک کے پنشنرز کے حوالے سے متعلق مقدمات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن کے حق میں تمام کیسز کے فیصلے نہایت واضح الفاظ میں سامنے آ چکے ہیں لیکن ان فیصلوں پر عملدرآمد ہونے میں بینک کی جانب سے مسلسل تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں اور مقدمات کو غیر ضروری طور پر طول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پنشنرز کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ اب تک بینک کے غریب ناتواں ریٹائرڈ ملازمین کی اچھی خاصی تعداد جان کی بازی ہار چکی ہے ان کے گھر ماتم کدہ بنے ہوئے ہیں لیکن ہر پیشی پر بینک اپنی دولت کا سہارا لیتے ہوئے عدالت سے تاریخ آگے بڑھانے کی کو شش میں کامیاب ہو جاتا ہے اور اپنا منہ تکتے رہ جاتے ہیں یہ کہانی دو چار مہینوں کی نہیں ہے بلکہ سالوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ پشاور کے 22 ریٹائرڈ ملازمین بارہ تیرہ سال سے محمد ظفر صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں اور سول، سیشن عدالتوں کے علاوہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے اپنے کیس کے حق میں فیصلے حاصل کر چکے ہیں جبکہ بینک نے اس کیس سے متعلق ایک درجن سے زیادہ اپیلیں دائر کرنے اور کیس کو غلط ثابت کرنے کی ہر کوشش کر لی لیکن اُن کی تمام اپیلیں مسترد ہوئیں بینک کو دو مواقعوں پر جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا۔ بینک کے پاس اب فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے البتہ جھوٹ اور بد دیانتی کے ذریعے بوڑھے پنشنروں کو پریشان کرنے کے لیے عدالت سے تاریخ پہ تاریخ لینے کا حربہ بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ ہماری عدالتوں کو بھی مقدمات کے ایسے فریق کو مارک کرنا چاہیے جو غیر ضروری طور پر کیس کو طول دینے کی بار بار کوشش کرتا ہو۔ عدالتوں کو بوڑھے ریٹائرڈ ملازمین کے مقدمات کو ترجیحی طور پر جتنا جلدی ہو سکے نمٹانے کی کوشش کرنی چاہیے اور وہ فریق جو مسلسل عدالتی فیصلوں سے رُو گردانی کرے اُسے توہین عدالت کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے کڑی سزا دینی چاہیے الائیڈ بینک کے ریٹائرڈ ملازمین پر رحم کرنا چاہیے اور انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں