لذتِ خوف
جس طرح خوشی، سکون، اطمینان اور دیگر مثبت احساسات کی لذت محسوس کی جاسکتی ہے بالکل اُسی طرح خوف بھی اپنے اندر لذت کا عنصر رکھتا ہے۔ لذتِ خوف سے عموماً انسان واقف نہیں ہوتا، میں بھی نہیں تھی جب تک مجھے اس کا تجربہ نہیں ہوا۔ لذت اور خوف، ان دونوں الفاظ کا ملاپ کسی بھی انسان کے لیے سہل ہوتا ہے نہ آغاز میں انسانی وجود اُس کی افادیت سے آشنا ہوتا ہے۔ پہلے پہل لذت سے منسلک سکون ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ خوف انسان کی نس نس میں سرایت کر جاتا ہے جو اُس کے غرور و اعتماد کو پاش پاش کر کے خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی ہی لگائی عدالت میں خود کو مجرم کے طور پر لا کھڑا کرتا ہے۔
12 جنوری 2023، بروز ہفتہ، الحمداللہ
میں نے اپنی زندگی کا پہلا عمرہ ادا کیا، احرام باندھ کر ادائیگی عمرہ کی نیت سے لیکر
مکہ حرم شریف میں داخل ہونے تک میں شدید اضطراب کا شکار رہی اور وہ اضطراب پچھلی محسوس
کی گئی تمام گھبراہٹ سے یک دم مختلف تھا اور اُس کی شدت میرے لیے بالکل نئی تھی۔ حواس
باختہ ہونے کے سبب مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نے میرا دل اپنی مٹھی میں بند
کرلیا ہو جس کی وجہ سے کھلی فضا میں ہونے کے باوجود ٹھیک سے سانس لینا محال ہورہا تھا،
ان تمام کیفیات کی پشت پر اُس خوف کی انتہا موجود تھی جو خانہ خدا پر نگاہ پڑتے ہی میرے
پورے وجود کو لرزہ رہی تھی۔ لاشعور میں ماضی فلم کی صورت میں مسلسل رواں دواں تھا اور
جانے انجانے میں میری ذات سے سرزد ہوئی چھوٹی بڑی ہر غلطی یاد داشت کے دریچوں سے نکل
کر منہ چڑھا رہی تھی اور مجھے میری ہی نظروں میں گرا رہی تھی۔ اُس وقت پوری کائنات
میں بنانے والے اور بنائے جانے والے کے علاوہ ہر چیز اپنی حیثیت کھو بیٹھی تھی۔
خانہ کعبہ، مذہبِ اسلام کا روحانی مرکز جہاں دنیا کا ہر مسلمان اپنی حاضری پیش کرنا چاہتا ہے، میں اُس کے عین سامنے کھڑے ہوکر اپنی قسمت پر رشک کر رہی تھی کہ اللہ رب العزت نے مجھے اپنے گھر مدعو کیا ہے۔ اُس گھڑی میرا روم روم جذبہ تشکر سے سرشار خدا تعالیٰ کی بڑائی و کبریائی کا ببانگ و دہل اعتراف کر رہا تھا، خوف، رشک اور شکر کا بہترین امتزاج میں نے اُس سے قبل کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ میری جانب سے مقامِ مقدس کے طواف کا آغاز ہوا تو اُس کے بعد ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے بلانے والی ذات اپنی جانب کھینچے چلی جارہی ہے اور ساتھ ساتھ اپنے قُرب کا شرف عطا کرنے کے لیے راستے بھی بنا رہی ہے۔ اپنے دوسرے طواف کے دوران ہی مجھے غلافِ کعبہ کو چھونے کا نادِر موقع میسر آگیا تھا، یقین نہیں آرہا تھا کہ ربِ کائنات اپنے کرم کی بارش اس طرح بھی برسا سکتا ہے۔ جذبات کا ایک ریلا تھا جو آنسوؤں کی شکل میں آنکھوں سے بہے چلے جارہا تھا اور کانوں میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی ”اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟“
عمرہ ادا کرنے کا چونکہ یہ
میرا پہلا تجربہ تھا، اس لیے میں ہر قدم پھونک پھونک کر اُٹھا رہی تھی اور دل ہی دل
میں سہمے جارہی تھی کہ ارکانِ عمرہ ادا کرنے میں میری طرف سے کسی غلطی کا ارتکاب نہ
ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہ صرف میرا عمرہ باخیر و عافیت ادا ہوا بلکہ
حرم پاک کے صحن میں خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر سورہ الرحمٰن کی تلاوت کرنے کی دیرینہ
آرزو بھی پایہ تکمیل کو پہنچی۔ پہلا عمرہ ادا کرنے کی خوشی ہی الگ ہوتی ہے لیکن خوف
بدستور اپنی جگہ براجمان تھا، آغاز سے اختتام تک سب کچھ بہت اچھا ہوا مگر دماغ کے کسی
کونے میں مسلسل کئی سوالات سر اُٹھا رہے تھے، کیا میرا عمرہ صحیح طریقے سے ادا ہوا،
کیا ربِ کریم میرا یہ عمل قبول فرمائیں گے، کیا اللہ مجھ سے خوش ہیں کہیں وہ رحمٰن
و رحیم مجھ سے ناراض تو نہیں اور دنیا کے مقدس تریں مقام پر آکر میں اضطراب و خوف کا
شکار کیوں ہوں؟ ان تمام اُلجھنوں کو خالقِ حقیقی نے ارضِ روحانی پر میرے دو ماہ قیام
کے دوران وقتاً فوقتاً اس عمدہ انداز سے سلجھایا کہ میں بے یقینی سے سیدھا تشفی کی
چوٹی پر جا بیٹھی۔
میری ذاتی رائے ہے کہ انسان
کو پہلا عمرہ ادا کرنے میں کافی مشکل در پیش آتی ہے، دل ڈرا ہوا ہوتا ہے اور دماغ اردگرد
کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش میں ہلکان ہورہا ہوتا ہے، ادائیگی ارکان کی درستگی پر شک
شبہات رہی سہی کسر پوری کردیتے ہیں۔ میرا دوسرا اور تیسرا عمرہ پہلے کے مقابلے میں
سکون و اطمینان سے ادا ہوا، دل میں خوف تھا مگر اُس کی شدت میں کمی واقع ہوگئی تھی
مگر چوتھا عمرہ ادا کرنا میرے لیے کافی دشوار تھا، خوف کے باعث گھبراہٹ دل و دماغ پر
حاوی تھی اور آنکھوں سے آنسو مسلسل جاری تھے۔ پانچویں اور چھٹے عمرہ تک خوف میں لذت
آنا شروع ہوگئی تھی اور ساتویں عمرہ تک خوف غائب تھا جبکہ مسرت، آسودگی، ترنگ اور ممنونیت
کا میری روح پر نزول ہوچکا تھا۔ مجھے ابتداءمیں جس مقام سے خوف آرہا تھا قرار بھی میرے
مالک نے وہیں سے عطا کیا، مجھ پر زندگی میں پہلی بار یہ حقیقت آشنا ہوئی کہ خوفِ خدا
ایک نعمت اور اللہ کا اپنے بندوں کے لیے انعام ہے، جب تک انسان خوف کا کڑوا گھونٹ نہیں
پیے گا اُس کو شادمانی کا مزا محسوس ہی نہیں ہوگا۔
انسان اپنے اندر خوفِ خدا
اُسی صورت محسوس کرتا ہے جب اُسے نیکی، بدی، اچھے، برے اور صحیح، غلط کی تمیز ہوتی
ہے، خوفِ اللہ انسان سے اُس کا احتساب کرواتا ہے جس کی وجہ سے ضمیر کی عدالت میں وہ
خود کو موردِ الزام ٹھہرانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا اور رب کو راضی کرنے کے
لیے اصلاح کا راستہ اپنانے کا عہد کرتا ہے۔ خوف حِس کی علامت ہے، اُس کی عدم موجودگی
انسان کو خوش فہمی کے پہاڑ پر بیٹھا دیتی ہے جہاں سے اپنی ذات میں کوئی خامی اُسے نظر
نہیں آتی۔ بہکنا انسان کی فطرت ہے، اگر خالقِ کائنات کو خطا سے پاک مخلوق کی آرزو ہوتی
تو فرشتوں کی کوئی کمی نہیں تھی، تخلیقِ انسانی کا مقصد طاقت عطا کرکے آزمانا تھا،
حدود کی خلاف ورزی پر ڈرانا تھا اور ڈرایا اُنھیں ہی جاتا ہے جو سنبھلنے کا ہنر جانتے
ہیں۔ خوفِ خدا جب حد سے بڑھ کر انتہا کو پہنچ جاتا ہے تب ہی آگاہی کا روح پر نزول واقع
ہوتا ہے اور اُس وقت جس انسان نے خود کو لڑکھڑانے سے بچالیا اُس نے گویا رب کو پالیا
اور جو رب کو پالے اُس کو دنیاوی اشیاءکی پھر کیا آرزو۔
اُن دشوار راستوں پر میرا
وہ پہلا سفر تھا یہی وجہ ہے کہ میں اس حقیقت سے بالکل انجان تھی کہ خانہ خدا پر حاضری
دینے والا ہر مسلمان کسی نہ کسی طرح میزبان کی جانب سے آزمایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ
اپنے بندوں کے ایمان کو جانچنے کے لیے اپنے گھر بُلا کر قدم قدم پر اُن کا امتحان لیتے
ہیں اور کامیابی حاصل کرنے والوں کو اپنے فُیُوض و برکات سے نوازتے ہیں۔ غلافِ کعبہ
کو بوسہ دینا، رکنِ یمنی کو چھونا، مقامِ ابراہیمی کا دیدار، بابِ رحمت کا تَقَرُّب
اور اُس مبارک جگہ کا ابصار جہاں خالقِ حقیقی کے سب سے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل علیہ
السلام نے ہمارے پیارے نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنا سکھائی، رب
کا مجھ پر فیض نہیں تو اور کیا ہے؟ وہاں جب انسان کو اپنے ہر سوال کا جواب مل جاتا
ہے اور ساری گتھیاں سلجھ جاتی ہیں تب خوف میں لذت آنا شروع ہوجاتی ہے اور اُس کے دل
سے یہ آواز آتی ہے، ”میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں
حاضر ہوں، بے شک تعریف اور نعمتیں تیری ہیں اور سلطنت بھی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک
نہیں۔“
کوئی تبصرے نہیں