بھائی! زمانہ ادلتا بدلتا بھی ہے

بھیونڈی، بھارت کے محمد ابراہیم انصاری (1984 میں بھیونڈی کے شدید فساد میں جن کا بنگلہ جلا دِیا گیا تھا) کے نام سے ہمارے پرانے لوگ نا واقف نہیں۔ اس مرحوم کرم فرما نے ہمیں ایک دن بتایا تھا کہ میں نے (بھیونڈی کے) نار پولی علاقے میں کریانے کی ایک بڑی دُکان کھولی جہاں اکثریت گجراتی برادران وطن کی تھی۔ ایک مدت گزر گئی مگر یہاں کے لوگوں نے میری دُکان کی طرف نظر غلط انداز بھی نہیں ڈالی تو میں نے یہاں کے بعض شناسا لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی تو، جواب ملا کہ ”آپ لوگوں سے ہم کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں خریدتے۔“ میں نے کہا ”مگر ساری چیزیں تو پیک (Pack) ہیں۔“ تو اُس شناسا نے تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ ہماری طرف دیکھا اور مَلِچھ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا اور آخر ایک دن ہمیں یہ دُکان بڑھانی ہی پڑی۔

 یہ بات ہمیں گزشتہ دنوں ایک خبر نے یاد دِلا دی۔ یہ خبر آپ بھی پڑھیے ۔

” ایک گاؤں میں 42 سالہ خلیل نامی آئس کریم فروش کو مسلمان خواتین اور بچوں کو آئس کریم بیچنے پر کچھ لوگوں نے مارا پیٹا۔ خلیل کو مارتے ہوئے اس گروہ نے نعرہ بازی بھی کی کہ ”تم اچھوتوں میں سے ہو، اس لیے تم کو اس کی اجازت نہیں کہ ہمارے بیچ کھانے پینے کی اشیا فروخت کرو۔“ خلیل نے بتایا کہ حسب ِمعمول وہ آئس کریم بیچنے کے لیے گیا، دو افراد اس کے پاس آئے اور چوڑا کہتے ہوئے ذِلت آمیز الفاظ استعمال کرنے لگے (چوڑا اُس علاقے میں نچلی ذات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔) خلیل نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے مجھے چوڑا ہی نہیں کہا بلکہ مجھ پر الزام لگانے لگے کہ میں ان کے بچوں اور خواتین کو گندی اور ناپاک اشیا بیچ رہا ہوں، میں نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا نہیں ہے لیکن انہوں نے میری بات سنی ہی نہیں اور کوئی 20 افراد پر مشتمل ہجوم ہوگیا اور ان سب نے غصے میں مجھے مارنا پیٹنا شروع کردیا، مجھے مارا ہی نہیں بلکہ میری سائیکل بھی توڑ ڈالی اور میری آئس کریم بھی زمین پر بکھیر دی۔ ہجوم میں کھڑے مسلمان مرد اور خواتین تکبر آمیز نعرے لگاتے رہے اور کہتے رہے کہ ”تم اچھوت ہو، تم ہمارے نبی کو نہیں مانتے۔ تم کو مسلمانوں میں کھانے پینے کی اشیا بیچنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

یہ واقعہ کہیں اور کا نہیں بلکہ پاکستان ہی کاہے۔ ہمارا قاری حیران ہوگا کہ آخر ماجرا ہے کیا کہ آئس کریم بیچنے والا تو خلیل (یعنی مسلم) ہے۔

یقیناً یہ خلیل ہے مگر ہندوستان کے کم لوگوں کو پتہ ہے کہ پاکستان میں خاصی تعداد میں عیسائی آباد ہیں اور ان کے اکثر نام ہی نہیں بلکہ رہن سہن اور لباس تک مسلمانوں جیسے ہی ہیں۔ یہ سنی سنائی نہیں بلکہ کراچی کے ایک سفر میں ہمارا مشاہدہ بھی ہے یہ عیسائی بہت اچھی اُردو بولنے پر بھی قادر ہیں۔

 ہم نے انڈیا کے ابراہیم انصاری مرحوم کے واقعے کا ذکر کیا ہے، اللہ نے انھیں نوازا تھا انہوں نے دوسرا کاروبار اختیار کر لیا مگر وہ لوگ جو چھوٹے چھوٹے پیشے اور کاروبار سے وابستہ ہیں۔ ان کے لیے یہ مرحلہ کس قدر روح فرسا ہوگا ! اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

وہ خلیل مسیح کی آئس کریم کی سائیکل ہو یا ابراہیم انصاری کی کریانے کی دُکان۔ ہم نے تو یہ سوچا کہ ایسا ہوتا کیوں ہے، اس کی جڑ بنیاد کہاں اور کیوں ہے؟

ہمیں اپنے بزرگوں کا دَور یاد آتا ہے جو اپنے ہم مذہب پیشہ وَر لوگوں کے تعلق سے نہایت منفی رویہ روا رکھتے تھے۔ مثلاً نائی (اب سلمانی کہلاتے ہیں)، کپڑا بننے والے یعنی جُلاہے (انصاری وغیرہ) جیسی برادری کے لوگوں کے ساتھ۔

اپنے ایک بزرگ ہی کا بہت ہی طمطراق کے ساتھ سنایا ہوا واقعہ بھی نذرِ قارئین ہے۔

ہمارے دادا جان، گاؤں  کے زمین دار تھے۔ گاؤں کے دیپو چمار کا بیٹا شہر سے کچھ پڑھ وڑھ کر گاں لوٹا ۔ گرمی کا موسم تھا ،شام سے کچھ قبل دادا جان برآمدے میں نیم دراز تھے، انہوں نے دیکھا کہ دیپو چمار کا بیٹا سامنے سے گزرا اور اس نے دادا جان کی طرف دیکھتے ہوئے، دونوں ہاتھ جوڑ کر ”میاں! سلام“ کہا اور آگے بڑھ گیا۔

 دادا جان کو بہت گراں گزرا۔ انہوں نے اپنے قریب ہی دو چار مُسٹنڈے جو اینڈ رہے تھے اُنھیں اشارہ کیا کہ ذرا دیپو چمار کے اس کپوت کو گھسیٹ لا۔ اُس کی یہ مجال ”سلام مار کے آگئے بڑھ گیا۔“ دادا جان کے مُسٹنڈے آن کی آن حکم بجا لائے۔ اب مسٹنڈوں کو حکم ہوا کہ ذرا میری جوتے سے اس کی دس بار ’تاج پوشی‘ کرو۔ دِیپو چمار کا بیٹا کہتا ہی رہ گیا کہ میاں جی! ہم سے کیا گلتی (غلطی) ہوگئی؟ اور مُسٹنڈے ہاتھوں میں جوتے اٹھائے گنتے جاتے اور اس کی تاج پو شی کرتے جاتے تھے۔ اب حکم ہوا کہ جاؤ  اس کے باپ دیپو کو بلا لاؤ۔ باپ بھی دوڑا دوڑا آیا، اس کی بُدھی (عقل) تیز تھی معاملہ سمجھ گیا۔ دادا جان نے غیظ و غضب سے بھری آواز میں ڈانٹا کہ ”شہر میں یہی پڑھوانے کے لیے بھجوایا تھا کہ یہ گاؤں  کی ریت رواج بھول جائے۔ لے جاؤ، آج اِس نے صرف دس جوتیاں کھائی ہیں اگر اس نے آئندہ ایسا کیا تو اس کا کیا حشر ہوگا، سوچ لینا....

 انگریزوں کے جا نے کے بعد (ہندوستان میں) نہ زمین داری رہی اور نہ میاں جی کا طمطراق اور یہ بھی دیکھا گیا کہ دیپو چمار جیسوں کے بیٹوں نے تعلیم ہی نہیں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور میاں جی کی اولادیں محض فخر و غرور کے قصے ہی سناتی رہیں اور میاں جی کی تیسری نسل کا حال تو مت پوچھیے۔ دیپو چمار کے بیٹے بڑے بڑے عہدوں تک پہنچے اور اب سوچیے کہ دیپو چمار کے بیٹوں نے میاں جی کی جوتی اور اپنی تاج پوشی کیا بھلا دِی ہوگی.... اور اس وقت ذرا ہمیں اپنا احتساب بھی کرنا چاہیے کہ ہم اپنے ہی ہم مذہب جو تعداد میں کم یا کسی طور پچھڑے ہوئے ہیں ان سے کس طرح پیش آتے ہیں اور ذرا یہ قولِ صادق بھی یاد کریں کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم زمانے کو اَدلتے بدلتے بھی رہتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں